آج روزنامہ جنگ کے ایک مستقل
کالم نگار عرفان صدیقی صاحب کا کالم “حکومتی روش اور اتحادی جماعتیں“ نظر
سے گزرا جس میں موصوف نے نامعلوم کن اشاروں کے سبب یہ بلاواسطہ یہ تسلیم کر
لیا کہ (عرفان صدیقی عام طور پر ن لیگ کے ہمدرد اور مشرف کے سخت ترین مخالف
لکھاری کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں) ن لیگ یا فرینڈلی اپوزیشن جماعتیں
اس پوزیشن میں بالکل نہیں کہ وہ حکومت وقت کو اپنی من مانی سے روک سکیں ہاں
بیانات کی حد تک ن لیگ ضرور پیپلز پارٹی کی انتہائی سخت مخالفت کرتی ہے مگر
کوئی عملی مخالفت ن لیگ کے طرف سے دیکھنے میں نہیں آتی۔ عرفان صدیقی لکھتے
ہیں
“ایک حقیقت ابھر کر سامنے آرہی ہے کہ موجودہ حکومت کو راہ راست پر رکھنے
اور من مانی سے روکنے کے لئے سب سے موثر اور نتیجہ خیز کردار صرف وہی
جماعتیں ادا کرسکتی ہیں جو مخلوط حکومت کا حصہ ہیں اور موجودہ بندوبست کے
ستونوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔“
محترم آگے تحریر کرتے ہیں
“ایسے میں ان جماعتوں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ جو پیپلز پارٹی کی حکومت
کو مطلوبہ عددی اکثریت فراہم کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
عملاً صورت حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس تین سو بیالیس کے ایوان میں
صرف ایک سو پچیس کے لگ بھگ ارکان ہیں۔ سادہ اکثریت کے لئے اسے بہتر ارکان
کی ضرورت ہے۔ گویا سینتالیس ارکان اسے مزید چاہئیں۔ یہ کمی اے این پی جمعیت
العلمائے اسلام (ف)، ایم کیو ایم، فاٹا اور کچھ آزاد ارکان پوری کر رہے ہیں۔
گویا حکومت ان کی مرہون منت ہے۔ اس کے اقتدار کی جان انہی تین طوطوں میں ہے۔
وہی کسی قانون سازی کی راہ ہموار کرسکتے یا روک سکتے ہیں، اس کا ایک نمونہ
این آر او کے وقت پیش آیا۔ حکومت اسے قائمہ کمیٹی کی سطح پر بلڈوز کرنے میں
کامیاب ہوگئی لیکن اسمبلی سے منظور معرکہ سر نہ کرسکی۔ پیپلز پارٹی کی اہم
اتحادی جماعت ایم کیو ایم فولادی دیوار بن گئی۔ اسکی دیکھا دیکھی دوسری
اتحادی جماعتوں نے بھی منہ پھیر لیا۔ اپوزیشن پہلے ہی سپریم کورٹ جاچکی تھی۔
نتیجہ یہ کہ پیپلز پارٹی کی زبردست کوشش اور شدید آرزو کے باوجود این آر او
اسمبلی کی سند توثیق حاصل نہ کرسکا۔ اگر ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی
جماعتیں یہ کردار ادا نہ کرتیں تو اپوزیشن محض واویلا کرتی رہ جاتی اور این
آر او ایک باضابطہ قابون بن جاتا۔۔۔۔۔۔۔
ایم کیو ایم نے زرعی ٹیکس کی کڑی شرط عائد کردی ہے۔ اے این پی نے بھی اپنی
حمایت کو کچھ اقدامات کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔ صورتحال یہی رہتی ہے تو
حکومت کو آر جی ایس ٹی کے نفاذ میں شدید مشکلات پیش آئیں گی۔ “
آگے چارہ ڈالتے ہوئے عرفان صدیقی صاحب فرماتے ہیں۔
“یہ بات یقینی ہے کہ شدید مہنگائی کی ایک نئی لہر اٹھے گی۔ پہلے سے جاں بہ
لب عوام شاید یہ نئی ضرب کاری برداشت نہ کرسکیں۔ اتحادی جماعتیں اور
اپوزیشن مل جائیں تو حکومت شدید مشکلات کا شکار بھی ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔“
آگے عرفان صاحب فرماتے ہیں کوئی ڈیڑھ سال قبل مجھے لندن سے قائد تحریک جناب
الطاف حسین کا فون آیا۔ ایک گھنٹہ سے زائد جاری رہنے والی گفتگو میں انہوں
نے بڑی وضاحت سے قومی امور پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ مجھے لگا کہ وہ حکومت
روش سے مطمئین نہیں۔ ان کی جماعت چاہے تو پی پی پی کی حکومت کو کسی نہ کسی
حد تک نیک چلنی پر مجبور کرسکتی ہے۔ الطاف حسین نے پہل کی تو مولانا فضل
الرحمان اور اسفندیار ولی کے عشق پر بھی اوس پڑجائے گی۔ اپوزیشن بحرحال وہ
کچھ نہیں کرسکتی جو حکومت کے یہ اجزائے ترکیبی کرسکتے ہیں۔ یہی تین جماعتیں
پیپلز پارٹی کی نااہلیوں اور بدعنوانیوں سے حصہ بھی پا رہی ہیں اور انہی پہ
لازم آتا ہے کہ وہ اس طرح کے نازک مقامات پر پوری قوت سے عوام کے ساتھ کھڑی
ہوجائیں۔ غالبا الطاف حسین نے یہ نکتہ سمجھ لیا ہے۔ |