ہم پر زیادہ ٹیکس لگائے جائیں
.....ُٓپاکستانی نہیں، امریکی امرا کا مطالبہ
یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ ایک امریکی امرا ہیں کہ جو اپنا سینہ ٹھونک
کر اپنی حکومت سے انتہائی خوشدلی سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اپنے ملک کی
معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ہم پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگائے جائیں خبر
یہ ہے کہ امریکی حکومت سے مطالبہ کرنے والے یہ امیر ترین امریکی شہری وہ
ہیں جن کا شمار امریکا کے امیرترین اُن 456افراد میں ہوتا ہے جن پر امریکی
معیشت کا سارا ڈھانچہ کھڑا ہے اِن محب ِوطن امریکیوں نے کھلے دل سے اپنی
حکومت سے یہ مطالبہ بغیر کسی دباؤ اور پریشر کے کیا ہے اِن کا اپنی حکومت
سے یہ مطالبہ کرنے کا مقصد صرف یہ ہے وہ زیادہ سے زیادہ اپنی حکومت کو
ٹیکسوں کی ادائیگی کر کے اپنے ملک کی اُس معیشت کو مزید مستحکم کرنا چاہتے
ہیں جو پہلے سے مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر قائم ہے مگر میں یہاں یہ
سمجھتا ہوں کہ اِس کے باوجود بھی یہ اِن 456امریکیوں کی حب الوطنی کا جذبہ
ہی تو ہے کہ یہ اپنی حکومت سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ حکومت اِن پر زیادہ
سے زیادہ ٹیکس عائد کرے تاکہ یہ اپنے ملک اور اِس کی معیشت کو سنبھالنے کے
لئے ٹیکس ادا کریں یہ امریکا کے امرا کی اپنے ملک اور معیشت کے لئے اعلی ٰ
ظرف ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے یہاں میں یہ بھی سمجھتا ہوں
کہ اِن امریکی امرا کی تقلید دنیا کے دوسرے ممالک کے امرا کو بھی ضروری
کرنی چاہئے .....کوئی کرے یا نہ کرے .....مگر کم ازکم ہمارے (پاکستانی)امرا
کو تو ضروری کرنی چاہئے کہ جن کا ملک موجودہ صورت حال میں جس مالی مشکلات
کا شکار ہے جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ....اور جس کی معیشت
کا یہ حال ہے کہ یہ اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ روئی کے گالوں کی مانند اُڑ رہی
ہے اور اِس کا اقتصادی ڈھانچہ لاغر ہونے کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کو ہے
اِن ہولناک حقائق کے باوجود بھی پاکستان کے ارب پتی اور کھرب پتی ٹیکس چور
حکمران، سیاستدان، وڈیرے، جاگیردار، سرمایہ دار ، صنعت کاراور امرا اِس چکر
میں لگے ہیں کہ اُن سے ٹیکس وصول نہ کیا جائے بلکہ ٹیکسوں کی وصولی کا سارا
بوجھ ملک کے غریب اور تنخواہ دار محنت کش طبقے پر ڈال کر ملک کے سارے
ٹیکسوں کا ہدف پورا کیا جائے اور اِن کی جان بخشی کی جائے جس کے لئے ملک کے
امرا نئے نئے ڈرامے رچا رہے ہیں۔
یہ کہاں کہ انصاف ہے کہ امرا جو ھیر پھیر کر کے ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچ
جائیں اور مارا جائے ملک کا غریب محنت کش اور تنخواہ دار طبقہ کیوں یہ ہے
نہ حیرت اور تعجب کی بات .......دیکھا قارئین! آپ نے کہ کس ملک کے امرا
اپنے ملک کے لئے مخلص اور محب وطن ہیں .......امریکی یا پاکستانی.....؟؟؟
اَب یہ فیصلہ آپ خود کریں کہ امریکی امرا اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہیں یا
ہمارے یہ ارب اور کھرب پتی امرا جو اپنی اِسی سرزمین پاکستان سے اربوں
کھربوں تو کماتے ہیں مگر ٹیکس چوری سے باز نہیں آتے ہیں۔
اُدھر اِن دنوں آر جی ایس ٹی اور فلڈ سرچارج کے چرچے ملکی ایوانوں سے لیکر
گلی کوچوں اور بازاروں تک عام ہیں جس پر ملک کے غریب عوام اِس تذبذب اور
مخمصے میں مبتلا ہیں کہ اِن کے گلوں پر ٹیکسوں کی چھری اِس رفتار کے ساتھ
پھیری جائے گی کہ جس سے یہ ماہی بے آب کی طرح تڑپے بغیر ہی مر جائیں گے اور
حکمران طبقہ اِس خوش فہمی میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور امرا کو بچاتے ہوئے
آر جی ایس ٹی اور فلڈ سرچارج کے ملک میں نفاذ سے اپنی ریونیو کا مطلوبہ ہدف
حاصل کر لے گا جس کے لئے حکومتی اراکین اور حکمران لاکھ یہ کہتے پھر رہے
ہیں کہ آرجی ایس ٹی کے نفاذ سے ملک کے غریب عوام کی جیبوں پر کوئی فرق نہیں
پڑے گا اور نہ ملک میں مہنگائی کا کوئی سونامی آئے گا۔
مگر یہاں مجھ سمیت کروڑوں پاکستانی ایسے بھی ہیں جو اِن حکومتی دعووؤں پر
ذرا بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ حقیقت یہ نہیں ہے جس کی تسبیح
ہمارے حکمران پڑھ پڑھ کر غریبوں پر پھونک رہے ہیں یہاں اگر ہم صرف ایک چیز
کی ہی مثال لے لیں تو بات واضح ہوجائے گی کہ ملک میں آر جی ایس ٹی کے نفاذ
کے بعد دواؤں کی قیمتیں کہاں پہنچ جائیں گی اِس کا تصور کر کے بھی رونگھٹے
کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی مجھے کہنے دیجئے کہ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے
آئی ایم ایف کے خصوصی مشوروں سے دانستہ طور آر جی ایس ٹی بل میں صرف لائف
سیونگ ڈرگ کو سیلزٹیکس سے مستثنیٰ رکھا ہے اور بقیہ تمام دواؤں پر سیلز
ٹیکس کا نفاذ کرنے کو لازمی قرار دیا ہے اِس طرح تو ملک میں آرجی ایس ٹی کے
نفاذ کے بعد 95فیصد دواؤں کی قیمت میں15فیصد سے20فیصدتک یقینی طور اضافہ
ہوجائے گا اِن حکومتی اقدامات کے بعد خیال کیا جارہا ہے کہ حکومت نے دواؤں
کے خام مال کی درآمد کو بھی سیلز ٹیکس سے استثنیٰ رکھنے کا کوئی ذکر نہیں
کیا ہے جس کے بعد خبروں کے مطابق ٹیکس ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ
دواؤں کے خام مال پر بھی ٹیکس کا نفاذ حکومتی حکمتِ عملی میں شامل ہے۔
جبکہ اُدھر اِس حوالے سے ملک کے ایک کثیرالاشاعت روزنامے میں چھپنے والی
ایک خبر کے مطابق صرف وہ دوائیں سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ ہونگی جن کی حکومتی
بورڈ نشاندہی کرے گا اِس طرح دوائیں بنانے اور سپلائی کرنے والوں کا یہ بھی
کہنا ہے کہ حکومت کے پاس لائف سیونگ ڈرگ کی نہ تو کوئی باقاعدہ لسٹ ہے اور
نہ ہی اِس کی کوئی باقاعدہ تشریح موجود ہے اِس طرح اِن کا موقف درست لگتا
ہے کہ اِس وقت وزارت صحت کے پاس ڈبلیو ٹی او کی ایک لسٹ ہے جس کے تحت کم
وبیش 60کے قریب دوائیں جان بچانے والی ہیںیہ کُل دواؤں کا 3فیصد بھی نہیں
ہے یوں خبر کے مطابق مینو فیکچرز کا یہ کہنا بھی بڑی حد تک ٹھیک ہے کہ ڈرگ
کنٹرول بورڈ دواؤں کے معاملے میں بھی اپنی مرضی چلائے گا اور اِن میں اپنی
مرضی کی دوائیں شامل کرے گا یہ ڈرگ کنڑول بورڈ اپنے من پسند افراد کو نوازے
گا اِس طرح دوائی بنانے والوں کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ آرجی ایس ٹی
کے اثرات ملٹی پل ہونگے اور یوں ملک میں آر جی ایس ٹی کے نفاذ سے دواؤں کی
قیمتیں 20فیصد تک بڑھ جائیں گی۔اِس کے بعد حکمرانوں کے نزدیک عوام مرے سو
مرے مگر اِس کا ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف پورا ہوجائے۔
یوں عوام کو ٹیکسوں کے اضافی بوجھ تلے دبائے جانے کے اِس سارے منظر اور پسِ
منظر میں صدر آصف علی زرادی کا یہ کہنا ہے کہ ملک کی معیشت کو سہارا دینے
اور ملک کو بیرونی قرضوں سے نکالنے کے لئے ملک میں ٹیکسوں کے نفاذ جیسے سخت
ترین فیصلوں کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے اِس لئے ضروری ہے کہ ملک میں نئے
ٹیکسوں کا نفاذ کیا جائے تاکہ ملک کی معیشت مستحکم ہو اور ملک بھی بیرونی
قرضوں سے نجات حاصل کرے۔
اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ صدر نے جتنا سوچا اتنا کہا اور جو کہا وہ
کسی حد ٹھیک ہے مگر صدر اپنی سوچ اور کہے کا اطلاق ملک کے محنت کش غریبوں
تک محدود کرنے کے بجائے اِس میں اپنے جیسے قارون کے خزانے رکھنے والوں اور
امرا کو بھی شامل کرلیتے تو کتنا اچھا ہوتا مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا
جبکہ اِنہیں ایسا سب سے پہلے کرنا چاہئے تھا....بلکہ یہاں افسوس کی بات تو
یہ ہے کہ اُنہوں نے تو اِنہیں(امرا کو) بچاتے ہوئے اپنا سینہ ٹھونک کر کہا
ہے کہ ٹیکسوں کی وصولی ملک کے صرف غریب اور محنت کش طبقوں سے ہی کی جائے گی
اور بس........
جبکہ صدر کی اِسی آشیرباد کے بعد ہلکے پھلے انداز سے حکومت کی جانب سے سینٹ
کمیٹی اور اِس کے چیئرمین کی لاکھ مخالفت کے باوجود بھی سینٹ سے آرجی ایس
ٹی اور فلڈ سرچارج بل منظور کرنے کا تاثر دیا گیا۔ گو کہ اِس کے باوجود بھی
حکومتی اتحادیوں سمیت سینٹ کے اراکان کی اکثریت اِس بل کی شدید مخالفت
کررہی ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اِنہوں نے
ریفارمڈ جی ایس ٹی فلڈ سرچارچ بل پر اپنے تحفظات کا کھلم کھلا اظہار کیا
ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے کہ جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ملک کے سترہ کروڑ غریب
عوام کے ووٹوں سے حکمرانی کے دہلیز تک پہنچنے والے حکمرانوں نے اقتدار کی
مسند پر اپنے .....قدم رکھنے کے بعد ہی اُن ہی غریبوں پر ٹیکسوں کی بھرمار
کر کے اپنے مظالم کی انتہا کردی کہ غریب عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کر ہی
مرجائیں اور حکمران اپنے سینے چوڑے کر کے یہ کہتے پھریں کہ ہماری حکومت میں
ملک سے غربت کے خاتمے کے لئے کئے گئے اقدامات سے نہ تو ملک میں غربت ہی رہی
ہے اور نہ کوئی غریب ہی زندہ بچا ہے اور یوں حکمرانوں کو اپنا سیاہ سفید
کرنے کے لئے میدان صاف مل جائے گا۔
یہ بات نہ صرف ہر پاکستانی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا بھی اچھی طرح سے جان چکی
ہے کہ پاکستان کی زندگی کے باسٹھ یا تریسٹھ سالوں میں جتنی بھی حکومتیں
آئیں اور چلی گئیں (بشمول موجودہ حکومت کے) اِن میں جتنے بھی لوگ شامل رہے
اور ہیں اِن میں زیادہ تر وہ افراد ہیں جو ارب پتی اور کھرب پتی ہیں اور
بعض سے متعلق عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جو حکومت میں شامل ہونے سے
پہلے صرف کروڑ پتی تھے وہ بعد میں اِس قابل ہوگئے اور اُنہوں نے بھی دوسرے
کی طرح حکومت میں شامل ہوکر اپنی خوب خوب جائیدادیں بنائیں اور دبا کر قومی
خزانے سے غریبوں کے خون پسینے سے کمائی گئی قومی دولت اپنی اپنی عیاشیوں پر
لٹاتے رہے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے قومی دولت اپنی اپنی جھولیوں میں
بٹورتے چلے گئے اور امرا کی صفوں میں شامل ہوگئے اور اِس کے باوجود بھی یہی
افراد ہیں جو ٹیکس چور مانے جاتے ہیں اور یہی ملک کے سترہ کروڑ عوام میں
زبردستی کے عزت دار بھی بنے پھرتے ہیں۔
مگر اِن سب میں جو چیز قدرے مشرک پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی ہمارے
یہاں حکمرانوں، سیاستدانوں، وڈیروں سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو
پاکستانی عوام پر حکمرانی کا حق ملا اِن لوگوں کی بھی عجیب و غریب منطق رہی
وہ یہ کہ جب بھی یہ لوگ حکومت میں ہوتے ہیں یا حکومت سے باہر بھی رہتے ہیں
تو اِنہوں نے کھلم کھلا امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کو اپنا حق حکمرانی
سمجھا ہے اور یہی ورد گردانتے ہیں کہ امریکی خوشامد اور چاپلوسی کے بغیر
اِنہیں سرزمین پاکستان اور پاکستانی عوام پر حکمرانی حاصل نہیں ہوسکتی سو
اپنے اِسی جذبے کے تحت ہمارے ملک کا ہر سیاستدان، وڈیرہ، سرمایہ دار صنعت
کاراور امرا میں سے جو کوئی بھی پاکستان میں اپنی حکمرانی چاہتا ہے وہ سب
سے پہلے امریکی آقاؤں کے تلوے چاٹتا ہے اور امریکی اِس سے جیسا کہتے ہیں یہ
ویسا کرتا ہے اور یہ اِن کی تلواگیری کر کے پاکستان پر اپنی حکمرانی کا
خواب تو دیکھتا ہے مگر اِن کے کہنے پر یہ ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرنے کے
بجائے اُلٹا ٹیکس چوری میں ایک دوسرے سے نمبر لے جانے کی کوشش میں لگا رہتا
ہے۔ جبکہ اِسے امریکیوں کی اور دوسری باتوں کی طرح یہ اچھی بات بھی ماننی
چاہئے کہ ہمارے ارب اور کھرب پتی حکمران، سیاستدان اور امرا ایمانداری اور
نیک نیتی سے امریکیوں کی طرح اپنے ملک کی معیشت کے استحکام اور ملک کی ترقی
اور عوام کی خوشحالی کے لئے ٹیکس بھی اگر ادا کردیا کریں تو کیا بات
ہے......؟؟؟ُُ |