خیبرپختونخواکے بلدیاتی نظام کوتحریک انصاف کے قائد عمران
خان اوروزیراعلیٰ پرویزخٹک پورے ملک کاسب سے بہترین نظام قراردے رہے ہیں اس
کیلئے مثالیں بھی عجیب وغریب دی جارہی ہیں کبھی کراچی کے مئیر کی کہی گئی
بات کوثبوت کے طورپر پیش کیاجاتاہے کہ وسیم اخترنے کہا’’ مجھے کراچی کیلئے
خیبرپختونخواوالانظام چاہئے‘‘ کبھی دوسرے صوبوں کوطعنے دئے جاتے ہیں کہ وہ
خیبرپختونخواکے بلدیاتی نظام کواپنائیں فائدے میں رہیں گے حکومتی جماعت کے
قائداوروزیراعلیٰ کی باتیں اپنی جگہ مگرصوبے کی عوام سے اگرپوچھاجائے کہ
موجودہ بلدیاتی نظام نے انکے مسائل حل کئے ہیں تو جواب یقیناً نفی میں
ہوگاہم اس صوبے کی رعایا ہیں اوراس نظام سے واسطہ پڑتارہتاہے اس نظام
کوقائم ہوئے ڈھائی سال کاعرصہ گزرچکاہے جولائی 2015میں موجودہ نمائندے
منتخب ہوکراپنی ’’ذمے داریاں‘‘ سنبھال چکے ہیں ان کاانتخاب بذات خودکئی
کہانیاں اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں ان انتخابات کے انعقادکی ذمے داری
جماعت اسلامی پرعائدہوتی ہے کیونکہ بلدیات کے وزیرکاتعلق جماعت اسلامی سے
ہے لہٰذایہ بلدیاتی انتخابات جماعت اسلامی کے وژن کے مطابق ہی ہوسکتے ہیں
ہاں اگرپرویزخٹک یاعمران خان کی مشاورت بھی اس میں شامل حال ہوتواس میں
کوئی شک کی بات نہیں بہرحال یہ نظام کئی دماغوں نے مل کربنایاہے اسکے
بعدکئی اعلیٰ دماغوں نے مل کرانتخابات کی تیاری کی اورجب انتخابات
منعقدہوئے توانہیں صوبے کی تاریخ کے بدترین بلدیاتی انتخابات
قراردیاگیادنیانے ایک صوبائی وزیرکوپولنگ بکس اٹھاکربھاگتے ہوئے
دیکھا،حکومتی پارٹیوں کے امیدواروں نے دھونس دھاندلی اورغنڈہ گردی کی تمام
حدودپارکیں، حکومتی اراکین اسمبلی ، وزرا ،مشیروں ،معاونین حتیٰ کہ
وزیراعلیٰ کی خاندان کے اہم افرادنے الیکشن میں حصہ لیاجن کی کامیابی کیلئے
حکومتی وسائل استعمال کئے گئے ،ریاستی طاقت کااستعمال کیاگیااوراپوزیشن
پارٹیوں کے امیدواروں کوناکام بنانے کیلئے ہرجائزوناجائزحربہ
اختیارکیاگیاجس نظام کا سنگ بنیادایسے کمزورخطوط پراستوارہواس سے کسی خیر،
بھلائی یاانقلاب کی توقع دیوانے کاخواب ہی قراردیا جاسکتاہے آج ڈھائی سال
بعداگراس نظام کی کامیابی یاناکامی کاجائزہ لیاجائے تواوپربیان کئے گئے
اکابرین کے بھائی بھتیجے اوربیٹے اس نظام کے سرخیل بنے ہوئے ہیں زیادہ
دورنہ جائیں وزیراعلیٰ کے آبائی ضلع نوشہرہ کے ناظم انکے سگے بھائی ہیں جن
کاسیاست سے کوئی تعلق نہیں تھااسکے علاوہ تحصیل نوشہرہ کاناظم ضلعی ناظم
کابیٹااوروزیراعلیٰ کابھتیجاہے اسی طرح پورے صوبے میں اقرباپروری کی نئی
داستانیں رقم کرکے نااہل لوگوں کواس نظام پرمسلط کیاگیاہے مشرف کے بلدیاتی
نظام میں جویونین کونسلزتھے انہیں تین چاربلکہ خاص آبادیوں میں سات آٹھ
حصوں میں تقسیم کرکے ویلیج کونسلزبنائے گئے ہیں جن میں حکومتی پارٹیوں کے
سرگرم کارکنوں کوکھپایاگیاہے ایسے لوگ ’’منتخب ‘‘ ہوکرویلیج کونسلزکے ناظم
یاچیئرمین بنے بیٹھے ہیں جن کاکوئی سیاسی بیک گراؤنڈنہیں ،انہیں سیاست کی
کوئی سمجھ بوجھ نہیں اورعوامی خدمت کاکوئی ریکارڈنہیں بس جس نے بھی حکومتی
پارٹیوں کے ساتھ وابستگی کااظہارکیاوہی کامیاب ہوکرناظم بن بیٹھاجماعت
اسلامی جس کی عوامی حمایت صوبے میں نہ ہونے کے برابرہے (لاہورکے حلقے این
اے 120اورپشاورکے حلقے این اے 4میں جماعت کاووٹ بینک سب پرعیاں
ہوچکاہے)جوپانچ سات سیٹیں جماعت کے پاس ہے یہ بھی خیبرپختونخواکے صرف
دواضلاع سے ہیں مگرجماعت نے بلدیاتی انتخابات میں پورے صوبے سے طوفانی
اورغیرمتوقع کامیابی حاصل کی اورسوسے زائد ضلعی کونسلرزکامیاب کرائے گئے
جوکہ وزارت بلدیات کاکمال ہی قراردیا جاسکتا ہے اسکے علاوہ تحریک انصاف کی
کامیابی پولیس ، الیکشن عملہ اورحکومتی اثرورسوخ کی مرہون منت ہے آج اگر
دوبارہ پورے صوبے میں غیرجانبدارانتخابات کرائے جائیں تو حکومتی پارٹیاں
اپنی پوزیشن کھودینگی بہرحال اب جوبلدیاتی نظام معرض وجودمیں آچکاہے اگراس
سے بھی عوامی خدمت کاکوئی کام لیاجاتاتوبھاگتے چورکی لنگوٹی والی مثال صادق
آسکتی تھی مگریہ نظام اب آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے استعمال
کیاجارہاہے اپوزیشن کے بلدیاتی نمائندوں کوفنڈزکالالچ دیکرسیاسی وفاداریاں
تبدیل کرائی جارہی ہیں اوراس کافخریہ اظہاربھی کیاجارہاہے حکومتی فنڈزصرف
ان ناظمین کومل رہے ہیں جوحکومتی حمایت یافتہ ہوں ان فنڈزکے شفاف استعمال
کاکوئی میکانزم موجودنہیں ناظم کی مرضی اورصوابدیدپرفنڈزکااستعمال ہورہاہے
ان فنڈزمیں کرپشن ،اقرباپروری اورخردبردعام سی بات ہے چالیس پچاس لاکھ کے
فنڈزسے یاتوپہلے سے بنائی گئی نالیوں اورگلیوں کے ’’میک اپ‘‘ ہورہے ہیں
یااس سے پانی کے بورہورہے ہیں مگرجتنے بھی بورکرائے گئے ہیں ان میں سے کسی
مستحق کانام شامل نہیں بلکہ ایسے لوگوں کے گھربھی بورکرایاگیاجن کے پیسے
مسجدکے چندے میں بھی قبول نہیں کئے جارہے یعنی ہرخاص وعام کوعلم ہے کہ ان
لوگوں کاپیسہ حرام کاہے یاتوجوے کااڈاچلارہے ہیں یامنشیات فروشی میں ملوث
ہیں اگربورکرناہی مقصودہے توکسی غریب مستحق زکوٰاۃ کے گھرہوناچاہئے ایک
یونین کونسل کیلئے گزشتہ حکومت نے 50ہزارگیلن پانی کی ٹینکی بنوائی پائپ
لائن ابھی بچھاناباقی تھاکہ اس حکومت کی مدت ختم ہوگئی آج پانچ سال کاعرصہ
ہونے کوہے مگراس ٹینکی کیلئے پائپ لائن نہیں بچھایاجاسکااورمزے کی بات یہ
کہ اس پائپ لائن کے سرپرساڑھے تین کروڑروپے جاری ہوچکے ہیں حالانکہ گزشتہ
حکومت کی سروے کے مطابق اس پائپ لائن کاتخمینہ 30لاکھ روپے لگایاگیاتھاناہی
اس ملک کاکوئی ادارہ جاگ رہاہے ، ناہی حکومت کی انصاف والی رگ پھڑک رہی ہے
اورناہی عدلیہ کوعوام کایہ ننگااستحصال نظرآرہاہے جس آبادی میں 50ہزارگیلن
کی واٹرٹینک موجودہو پائپ لائن کیلئے ساڑھے تین کروڑروپے جاری ہوچکے ہوں
وہاں کسی گھرمیں سرکاری خرچے سے بورکرانے یاکنواں کھودنے کی کیاضرورت پیش
آسکتی ہے ؟سرکاری خرچے سے یہ بور یاتو ناظمین کے ڈیروں پرکرائے گئے یاان
لوگوں کے گھروں میں ہوئے جواسکے مستحق ہی نہیں تھے مستحق لوگ پانی کی
بوندبوندکوترس رہے ہیں پینے کاصاف پانی دستیاب نہیں کھارااورمضرصحت پانی
پینے سے بیماریاں بڑھ رہی ہیں مگر عوام کے نام پہ سرکاری خزانے سے جاری شدہ
پانچ کروڑروپے کی خطیررقم عوام کے کسی کام نہ آسکی اس قدر نااہل سسٹم
کواگرکوئی سیاسی راہنما’’مثالی سسٹم‘‘ قراردے رہاہے تو انکے دماغی صحت
پرشبہ لازمی امرہے جوبلدیاتی نظام 5کروڑروپے خرچ کرے اوراس بڑی رقم سے ایک
گلاس پانی تک مہیانہ ہو،کسی پرندے کودوقطرے دستیاب نہ ہوکہ وہ اسے اپنی
چونچ میں لیکرپیاس بجھاسکے ایسامثالی نظام خداکسی ملک کے عوام کونہ دے یہ
مثالی نظام نہیں استحصالی نظام ہے جس سے عوام کااستحصال ہورہاہے اس عوامی
استحصال کیلئے پہلے سے ملک میں نظام موجودتھے ایک اوربت کھڑاکرنے کی کیا
ضرورت تھی ؟سومنات کے اس بت کوتوڑنے کیلئے ، اس استحصالی نظام سے نجات
کیلئے صوبے کی عوام کومستقبل میں طویل اورصبرآزماجدوجہدسے گزرناہوگاحکومت
کو اس نام نہاد نظام کی اوورہالنگ کیلئے اقدامات اٹھانے ہونگے تاکہ قومی
خزانے کی لوٹ کھسوٹ اوررقم کے ضیاع کایہ نارواسلسلہ دوام پذیرنہ ہو۔ |