ہم سب ایک ہیں !!

یہ 8ستمبر1947ء کی شام ہے،مسلمان آزاد ریاست پاکستان حاصل کرچکے ہیں،ہندستان کے مسلمان اپناسب کچھ چھوڑکرپاکستان کواپنامسکن بناناچاہتے ہیں،توپاکستانی ہندو،سکھ قافلوں کی شکل ہندستان کے لیے رخت سفر باندھ چکے ہیں۔

اے خدا ! !کہیں دشمن سے سامنا نہ ہو۔ 8ستمبر کی شام، یہ مسلم کارواں ایک گاؤں سے گزرتا ہے۔موسم بہت پیاراہے۔ٹھنڈی ہواؤں کے تھپیڑے فرحت بخش خوشی دیتے جاتے ہیں۔مائیں اپنے نونہالوں کولوریاں دینے میں مصروف ہیں۔نوجوان لڑکیاں طلسمی کہانیاں سن،سنا رہی ہیں۔لڑکے مست گانے گارہے ہیں۔بوڑھے کسی بھی ممکنہ خطرے کی بوسونگھتے سب کو ہوشیارباش کرتے جاتے ہیں۔ پھر ایک پل آتا ہے،جہاں یہ کارواں پت جھڑ کے موسم میں درخت کے پتوں کی طرح بکھر جاتاہے۔نوجوان لڑکے،لڑکیاں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے جاتے ہیں۔ماؤں کی لوریاں ،چیخوں وآہوں میں بدل جاتی ہیں۔بوڑھے لڑتے لڑتے جاں،جان آفریں کے سپرد کرکے ابدی نیند سوجاتے ہیں۔زمین خون پی جاتی ہے۔آسمان تماشا دیکھتا رہ جاتاہے۔نہرکاپانی خاک آلود سے ،لال ہوجاتاہے۔ ہرطرف خون کی ندیاں بہ رہی ہیں۔لیکن ایک کلمہ،ایک قرآن،ایک دین کی نام لیوا،ایک قوم کاجذبہ الگ وطن لینے کاتھا۔اور اس کے لیے سب کا ایک ہی نعرہ تھا۔ ہم سب ایک ہیں۔

یہ15اگست 1947ہے۔اکسفورڈیونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے طالب علم،اور قائداعظم محمدعلی جناح کے دست راست،،مسلم لیگ وتحریک پاکستان کے سرکردہ رہنماشہیدملت نوابزادہ لیاقت علی خان،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہیں۔قوم کو ایک سچا،مخلص،ہمدرد وزیراعظم ملتا ہے۔ لیاقت علی خان صاحب رحم دل اور ملک وملت پر سب کچھ قربان کردینے والے انسان تھے۔انہوں نے اپنی موروثی جائداد ملک وملت پر،اس کی خوش حالی پر خرچ کرڈالی۔مگر قوم کے امتحان ابھی باقی تھے۔16دسمبر1951کے بعد ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ ہم اس ملک کے ابتدائی گیارہ برسوں کی بات کریں ،یا اس کی 70سالہ مکمل زندگی کااحاطہ کریں،بدقسمتی سے ہمیں آج تک ایسا وزیر اعظم ملا ہی نہیں جس نے بدعنوانی،نااہلی،اور نکمے پن کا مظاہرہ نہ کیا ہو۔ خواجہ ناظم الدین۔17اپریل1953محمدعلی بوگرا۔11اگست 1955چودہری محمدعلی.

12ستمبر1956حسین شہیدسہروردی۔18اکتوبر1957آئی آئی چندر یگر۔1دسمبر 1957فیروزخان۔ذوالفقارعلی بھٹو،محترمہ بینظیربھٹو،میاں نواز شریف ،یوسف رضاگلانی،اور پھر میاں صاحب کی باری آئی۔اس قوم میں میرجعفر،میرصادق تھے،اور انہوں نے ارض وطن کو ہرسو توڑا،اس قوم کواپنے محسنوں سے جدائی بھی سہناپڑی۔غم والم کی داستانیں بھی رقم کیں۔لیکن اس قوم کا نعرہ تب بھی یہی تھا۔ اور آج بھی یہی ہے۔ہم سب ایک ہیں۔

اس قوم کے نصیب میں روڑے نہیں تھے۔ملکی دفاع کمزوری سے مضبوطی کی طرف گامزن ہونے کو تھا۔دھرتی ماں اپنا جگر کاٹ چکی تھی۔رواں دواں وقت قوم کو ماضی کی داستان حیات پر کف ِافسوس ملنے نہیں دے رہاتھا۔طوفان بہت تھے۔کشتی بھنور میں تھی۔قریب تھا کہ کل کی بھولی قوم دوبارا اخوت کے رشتے کومضبوط کرتی،قوم پھریک لخت ہوئی۔16دسمبر1971ء مشرقی پاکستان کولسانی ،نسلی تعصب کی نظرکردیاگیا۔ پہلے برصغیرپاک وہند سے، ہندستان پاکستان بنے، اب مشرقی پاکستان الگ کرکے ، تم اور ،ہم اور کی دیوار کھڑی کردی گئی۔

ملک اس سال اپنی70بہار دیکھے گا۔ہزاروں زخم اپنوں کے دیے اپنے سینے میں سمویے ہویے ہے۔غیروں کی ستم ظریفی سے چور، اندرونی وبیرونی سازشوں سے نبرد ازماہے۔پانی ،روٹی،صحت سے قوم محروم ہے۔موزی امراض سے ہم آج تک لڑتے پھر رہے ہیں۔امیر کی امیری کو غریب دیکھ رہاہے ۔غریب کوحقارت وناپسندیدگی سے امیر دیکھ رہاہے۔ایوانوں مین بیٹھے سیاسی ہیرو،اور وطن کو نوچتے ان کے لوہے کے ناخن۔ملکی ترقی میں کارہائے نمایاں انجام نہ دینے والاپاکستانی۔سرحدوں کی حفاظت کرنے والے محافظ۔گلی ،کوچوں،چوراہوں میں مسلکی،مذہبی،لسانی دہشت گردی کرنے والے، اور ان کے آلہ کار۔فراموش عوام۔کرپشن کے گرو۔جوتے سینے والا موچی۔اس ملک پر محبتیں نچھاور کرنے والا ۔اس دھرتی سے شکواہ کناں۔ ساری زندگی سچائی سے محب وطن رہنے والا ۔یا اس میں قد غن لگانے والا۔ اس مرتبہ بھی حسب ِعادت سب نے یہی کہنا ہے۔ ہم سب ایک ہیں۔
کاش !! ہم سب ایک ہوتے۔؟
 

Ansar Usmani
About the Author: Ansar Usmani Read More Articles by Ansar Usmani: 99 Articles with 97355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.