مستشرقین کی سازشیں اور تحفظ ناموس رسالت ﷺکے عصری تقاضے

قرونِ وسطیٰ میں جب کہ مسلمانوں کے علم و فن کا آفتاب نصف النہار پر پورے آب و تاب سے روشن تھا اسی مغرب(یورپ) میں یہودی و عیسائی دانش وروں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جس نے اسلام پر ریسرچ و تحقیق کو اپنا مقصد قرار دے لیا۔ اس طبقے کو مستشرق کہا جاتا ہے اور ان کی تحریک کو ’’استشراق‘‘۔یہاں یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ کیا وجہ تھی کہ دانش ورانِ مغرب نے اسلام کو محورِ تحقیق بنایا؟ لیکن یہ سبب بھی پوشیدو مخفی نہیں کہ زمانہ اورتقاضے ساتھ ساتھ چلا کرتے ہیں۔ اسلام نے بھی زمانہ سازی کا جو درس دیا ہے اس میں شرع کی حدود میں رہ کر ضروریاتِ عصر کے تصفیہ کی اجازت دی ہے۔ تو جب مسلسل شکست و ریخت نے یہود ونصاریٰ کو زوال سے دوچار کر دیا اور مسلمان ہر محاذ پر حتیٰ کہ علم و فن کے میدان میں اپنی کام یابی کے پرچم لہراتے چلے گئے تو مغرب کے اعلیٰ ذہنوں نے لائحۂ عمل مرتب کیا اور اسلام سے ذہنوں کو متنفر کرنے کی غرض سے اسلامی دنیا کے علوم میں مہارت پیدا کی۔ اپنے جامعات و یونی ورسٹیوں میں علوم شرقیہ کے شعبے اور ڈپارٹمنٹ قائم کیے؛ اس طرح کے شعبے آج بھی پورے آب و تاب کے ساتھ امریکہ، ہالینڈ، برطانیا،اور دوسرے اماکنِ یورپ میں قائم ہیں۔

ان کے مطالعہ کی بہت سی جہتیں ہیں مثلاً: حدیث، تفسیر، اسلامی تمدن و تہذیب، عرب ثقافت، مشرقی جغرافیہ اور سیاست، مسلمانوں کا نظام معاش و معاشرت، مشرقی زبان و ادب، اساطین اسلام و مشاہیر ملت کی حیات و خدمات،بالخصوص مطالعۂ سیرتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہمہ جہت پہلو، تصوف و تعلیماتِ صوفیا، تاریخ اسلام، محدثین علما و فقہا کے احوال و آثار نیز تصنیفات و مخطوطات و مؤلفات وغیرہ۔

مستشرقین کے کاموں کو دو پہلوؤں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛(۱)مثبت (۲)منفی۔ حالاں کہ ان کا وجود ہی منفی امور کی انجام دہی کے لیے ہوا، لیکن اسلام کی صداقت و سچائی نے بہت سے دلوں کو صداقت کے اظہار و اقرار پر مائل کر دیا اور ان لوگوں نے بڑے اہم اہم کام انجام دے لیے۔ مطالعۂ سیرتِ پاک نے بعض کو قبولِ حق پر مائل کیاایسے محققین کی فہرست بھی طویل ہے۔ اسلامی کتب کی ذکر کردہ موضوعات کے حوالے سے اشاعت میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ کتب حدیث پر ان کی تحقیق و تدقیق ان کی جاں فشانی کو ظاہر کرتی ہے،یوں ہی تصوف و اس کی تاریخ پر بھی۔

ان کی سرگرمیوں کو دیکھ کر ایک طرف حیرت ہوتی ہے تو دوسری طرف سرور کائنات جان عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مخفی علوم سے آگہی کا پہلو بھی متوجہ کرتا ہے کہ بہت بعد کو پیدا ہونے والے مستشرقین کے طبقے کی سرگرمیوں کی صاف وضاحت فرمادی ہے، طبرانی کبیر میں ہے (من حدیث حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص) رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ان اللّٰہ لیؤید الاسلام بر جال ماھم من اھلہ ’’اﷲ تعالیٰ اسلام کی تائید ایسے لوگوں سے کرائے گا جو خود مسلمان نہ ہوں گے۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے( من حدیث انس واحمدوالطبرانی ) ان اللّٰہ تعالٰی یؤ ید ھذاالدین باقوام لاخلاق لھم فی الآخرۃ ’’اﷲ تعالیٰ اس دین کی تائید ایسے لوگوں سے کرائے گا، جن کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔‘‘ (اسلام اور عصری ایجادات، طبع دہلی ۲۰۰۲ء ص۱۰۳۔۱۰۴)

اعجازِ نبوی و اکرامِ رسول ﷺ دیکھیے کہ جنھیں دین سے کچھ تعلق نہیں وہ سیرتِ طیبہ پر تحقیقی کام کر رہے ہیں، چناں چہ مستشرقین یورپ نے بہت سی نادر و نایاب کتابیں شائع کروائیں، مخطوطات و مسودات کو مدون و مبوب کیا۔ بڑی بڑی کتابوں پر فاضلانہ مقدمے لکھے۔ اس کے لیے اسفار بھی کیے۔ ماضی کا تجزیہ کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب ہندوستان پر انگریز قابض تھے اس وقت انگریزوں نے بہت سی نادر کتابیں جو ہمارے اسلاف کی یادگارتھیں انھیں برطانیا منتقل کر دیا،جن میں تصوف کا ایک خاصا سرمایہ بھی شامل ہے۔

یہ تو تھے ان کے محرکات کے مثبت پہلو۔ منفی پہلو تو بڑا خطرناک ہے مثلاً: بیسویں صدی کے آغاز میں مشہور مستشرق جرجی زیدان نے عربی زبان پر ایک کتاب’’ فلسفۃ اللغۃ العربیہ‘‘لکھی اس میں اس نے عربی پر کئی تنقیدیں کیں اور عربی کا مصدر سنسکرت کو قرار دیا اس علمی طرز کے اشد فتنے کے سد باب میں امام المتکلمین علامہ پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری رضوی (تلیذ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی و صدر شعبۂ علوم اسلامیہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ)نے’’المبین‘‘ تصنیف کی۔ فضائل عربی پر بہ زبان اردو یہ کتاب عالمی سطح پر مقبول اور عدیم النظیرہے۔جس کی توصیف میں مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی ، مفتی عبداللطیف ، مفتی سید شیر علی پروفیسر جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن نے مضامین لکھے جن کی بالترتیب اشاعت ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ کے اگست و اکتوبر ۱۹۳۰ء کے شماروں میں ہوئی۔

اسی طرح اسلامی قوانین، سیرتِ نبوی،عائلی مسائل ، وراثت، حقوق نسواں و پردہ کے حوالے سے آئے دن مستشرقین مہمل اعتراضات کرتے رہتے ہیں، پھر سیرت پر انگشت نمائی بھی ان کی منفی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ بلکہ گزری دو صدیوں سے سیرتِ طیبہ اور شریعت پر ان کی نگاہیں مرکوز ہو کر رہ گئیں ہیں۔ معاند و گستاخ رشدی نے مستشرقین سے علم حاصل کیا گویا اس کی دریدہ دہنی کے لیے ذہن سازی مستشرقین نے کی۔ بنگلہ دیشی مصنفہ کی گستاخی کے پیچھے انھیں کا ذہن کار فرما ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ۱۹۷۳ء کا نافذ العمل ایکٹ برائے ناموس رسالت(ختم نبوت) کے سلسلے میں دبے چھپے انداز میں یہ مطالبہ بار بار دوہرایا جاتا رہا ہے کہ اس میں مجرم کی حد تعزیر میں نرمی لائی جائے،یعنی ختم نبوت کے منکر(قادیانیوں) سے اچھا سلاک کیا جائے،یہ بھی استشراق کی اپج ہے۔جس کی خفیہ سرپرستی امریکہ و ان کے حلیف کر رہے ہیں؛ جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ سلمان تاثیر نے تحفظِ ناموسِ رسالت قانون کی ہجو کی اور پھر انجام کو پہنچا، غازی ممتاز قادری نے اسے عشقِ رسول ﷺ سے سرشار ہو کر انجام کو پہنچایا، جو سزا حکومتِ پاکستان کو دینی تھی؛ اس سے پہلو تہی کے باعث غازی جیسے جیالوں کو سامنے آنا پڑا۔ اس کے بعد سے مسلسل ناموسِ رسالت کے لیے قانون میں ترمیم کی کوششوں نے بالآخر تحریک لبیک یارسول اﷲ ﷺ کا پلیٹ فارم ہموار کیا اور اس کے قائدین نے سروں سے کفن باندھ کر امن کے ساتھ تحفظِ عقیدۂ ختم نبوت کے لیے سرفروشانہ جدوجہد کی اور آج امریکہ نواز اقتدار لرزہ براندام ہے۔مستشرقین کی فکر سازی کے شکار اعلیٰ عہدوں پر براجمان اور ناموسِ رسالت مآب ﷺ کے تحفظ سے بے پرواہ اقتدار کی لالچ میں کوشاں ہیں۔
قوتِ فکرو عمل پہلے فنا ہوتی ہے
تب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

اِس دور میں مستشرقین نے ناموسِ رسالت سے کھلواڑ کی ایک مہم چھیڑ رکھی ہے جس کے اثرات ومحرکات اب پوشیدہ نہیں رہے۔ اہانت سے مملو متعدد کتابیں ماضی وحال میں یورپ سے شائع بھی کی گئیں، ان کے خطرات سے بچاؤ کے لیے بارگاہِ رسالت سے رشتوں کی استواری ضروری ہے اور فکر و نظر میں احترام نبوی کا رچا بسا ہونا بھی ،اسی طرح قوم کا دینی علوم سے مرصع ہونا بھی ضروری ہے جس کے لیے مسلمانوں کو علم کے میدان میں جدوجہد کرنی ہو گی۔ اور اعلیٰ علوم کے حاصل ہو جانے کے بعد بہر صورت اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھنا ہوگا۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.