رُسل انھیں کا تو مژدہ سُنانے آئے ہیں:بشارتوں کے مبارک سلسلے
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
انسانیت جب کبھی اندھیرے سے دوچار ہوئی،
کسی نجات دہندہ نے حق اور سچائی کی راہ دکھائی، ایمان کے نور سے کفر کی
تاریکی کافور ہوئی۔ جب کبھی گناہ عام ہوا، ظلم پھیلا، حقوق کو دبایا گیا
اور عصبیت کو ابھارا گیا، انسانیت کو اس کے مقامِ بلند پر فائز کرنے کے لیے
ایک اولوالعزم نبی جلوہ گر ہوا۔ یہ ہدایت ہر قوم کے لیے جاری رہی، قرآن میں
ارشاد ہوتا ہے:
’’اور جو کوئی گروہ تھا سب میں ایک ڈر سنانے والا گزر چکا‘‘ (سورۃ فاطر:۲۴)
ہدایت کو انبیا آئے، قوموں کو راہِ حق دکھائی، ایمان کی طرف دعوت دی، اور
اس راہ کی نشان دہی کی جس پر چل کر قومیں نجات یافتہ ہوتی ہیں،اور اس ذات
کی نشان دہی کی جو انسانیت کے وجود کا سبب ہیں، جن کے لیے کائنات کو سجایا
اور بزمِ ہستی کو سنوارا گیا۔ گویا ان کی نبوت کوئی ایک خطے کے لیے نہیں ہو
گی، پورے عالم کے لیے ہو گی، حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام نے اپنی دعوت
کے بارے میں فرمایا تھا:
’’میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا
گیا۔‘‘ (متی ب۲۴/۱۵)
اور حکم الٰہی سے محبوب الٰہی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: یٰٓاَ
یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (پ۹،ع۱۰)
’’اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اﷲ کا رسول ہوں‘‘…… ہاں ہاں اسی ذات پاک ختم
المرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کی بشارت انبیاے کرام نے
سنائی، جستجو کا یہ سفر جاری رہا، ایک اولوالعزم پیغمبر جاتا اور بشارت سنا
جاتا، ختم المرسلین کے میلاد کا یہ فطری اسلوبِ بیاں انبیا کی زبان سے ہوتا
رہا، بشارت کے محسوس الفاظ کانوں میں رس گھولتے رہے، کعب بن لوی جو عربی کا
بڑا شاعر تھا وہ تمناے دل کو اس طرح بیان کرتا ہے:
یالیتی شاھداً فحواء دعوتہ
حین العشیرۃ تبغی الحق خذلانا
ترجمہ: اے کاش میں اس کی دعوت کے وقت زندہ رہتا، جب کہ اس کے اہل خاندان حق
کی اعانت سے ہاتھ اٹھا لیں گے۔ (ضیاے حرم نومبر ۱۹۸۷ء،ص۱۳)
حضرت عیسیٰ کی بشارت:
انجیل برنباس(The Gospal of Barnabas) میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے
سے خدائی پیغام بیان کیا گیا ہے: ’’جب میں آپ کو دنیا میں بھیجوں گا تو
اپنا رسول نجات بنا کر بھیجوں گا اور آپ کا کلام ایسا سچا ہوگا کہ زمین و
آسمان فیل ہو سکتے ہیں لیکن ترا دین کبھی فیل نہ ہو گا، آپ کا مبارک نام
محمد ہے۔‘‘ (مرجع سابق جنوری ۱۹۸۴ء ص۱۷) اسی میں ایک اور مقام پر حضرت آدم
علیہ السلام کے حوالے سے ہے:
’’آپ کا بیٹا جو عرصۂ دراز کے بعد دنیا میں تشریف لائے گا اور میرا رسول ہو
گا، جس کی خاطر میں نے ساری چیزیں پیدا کی ہیں، جب وہ آئے گا تو دنیا کو
نور بخشے گا جس کی روح تخلیقِ کائنات سے ساٹھ ہزار برس پہلے ملکوتی شان میں
رکھی گئی تھی۔‘‘ (نفس سابق) مفکر اسلام مولانا محمد مصطفی رضا نوریؔ نے بر
محل کہا ہے:
کیسا تاریک دنیا کو چمکا دیا
سارے عالم میں کیسی ضیا کر چلے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے انجیل یوحنا کے باب ۱۶؍ کی ورس۷۔۱۴ میں
ہے:
’’یہ اس لیے ہوا کہ وہ قول پورا ہو جو ان کی شریعت میں آیا ہے کہ انھوں نے
مجھ سے بے سبب عداوت کی لیکن جب فارقلیط آئے گاجس کو میں تمہارے پاس (؟) کی
طرف سے بھیجوں گا یعنی روحِ حق جو (؟) کی طرف سے نکلتی ہے تو وہ میری گواہی
دے گا۔‘‘ (یوحنّا ۱۵:۲۵۔۲۶) [راقم نے قوس میں جو علامت’؟‘ لگائی ہے وہاں
عیسائیوں نے خدا کے لیے ’باپ‘ کا لفظ لکھا ہے۔جو درج کرنا مناسب نہیں۔]
فارقلیط (Parakletos ) کے معنی ہیں بہت تعریف کیا گیا جو لفظ ’’احمد‘‘ کا
مترادف ہے، اور یہاں بشارت آمد مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی واضح ہے۔
ورقہ بعثتِ نبی کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے انتظار میں تھے، انھوں نے
بہت سی بشارتیں سنیں، وہ ضیاے کونین کی جلوہ باری کا اس طرح بیاں کرتے ہیں:
ویظہر فی البلاد ضیاء نور
یقیم بہ البریۃ ان تموجا
ترجمہ: ہر طرف اس کے نور کی روشنی پھیل جائے گی جس میں لوگ گم راہی سے بچ
کر صحیح راستے پر آجائیں گے۔
حضرت موسیٰ کی بشارت:
دیکھو اﷲ کے عظیم نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کیا فرما رہے ہیں:
ٍ ’’اے میری قوم کے لوگو! جب وہ میرا مثیل نبی آئے تو اس کی اطاعت کرنا، اس
کی پیروی میں عار نہ سمجھنا۔‘‘
اسی میں اﷲ کریم کا یہ حکم بھی درج ہے: ’’میں ان کے لیے ان کے بھائیوں میں
سے تجھ (یعنی موسیٰ علیہ السلام) سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس
کے منھ میں ڈالوں گا۔‘‘ (استثنا،۱۸۔۱۹)
کیا اس کے جلوے کا اظہار اس آیت کریمہ سے نہیں ہوتا؟
’’اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انھیں کی
جاتی ہے‘‘ (سورۃ النجم:۳۔۴)
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ جب رحمت کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دنیا
میں تشریف آوری نہیں ہوئی تھی آمد کا چرچا پورے عالم میں ہو رہا تھا، پہلے
سے ہی ولادت کی یاد منائی جا رہی تھی، منانے والے بھی کیسے؟ انبیا اور ان
کے وہ اصحاب جنھیں مقبولیت کا درجہ حاصل تھا، انداز جدا جدا تھا، کہیں
محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اوصاف، کہیں دعوت کا ذکر، کہیں جود و سخا
کا ذکر تو کہیں اختیارات کا، یہ سب فطری امر کی طرف اشارہ تھا، دین اسلام
دینِ فطرت ہے اور میلادِ رحمت عالم منانا فطری تقاضا، اور یہ فطری تقاضا نہ
ہوتا تو انبیاے کرام ولادت نبوی کا ذکر کیوں کرتے؟ بات واضح اور مدلل ہے کہ
الٰہی اہتمام تھا آمد کی عظمت اجاگر کرنے کا، جو انبیا کی بشارتوں سے اجاگر
ہوئی، اب رہی بات ولادت طیبہ کے بعد آمد کے ذکر کی، تو یہ اظہارِ تشکر میں
ہے۔ یہ بھی فطری بات ہے کہ نعمت جس نے عطا کی اس کا شکر ادا کیا جائے گا،
رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ کی سب سے بڑی نعمت ہیں تو ان کی آمد
آمد کے دن اظہار تشکر بھی شان سے ہی ہوگا…… شاید اسی لیے ہر آنے والی ساعت
میں ذکر میں بلندی ہی ہو رہی ہے۔ اور یہ بھی حق ہے:
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
حضرت سلیمان کی بشارت:
بشارتیں سنانے والے اوالوالعزم انبیا نے بشارتیں سنائیں، حضرت سیدنا سلیمان
علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’خلو محمد یم زہ دودی زہ رعی۔‘‘ (تسبیحات سلیمان
پ۱۲/۵، بحوالہ ضیاے حرم جولائی۱۹۷۲ء ) یعنی ’’وہ ٹھیک محمد (صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم) ہیں وہ میرے محبوب ہیں اور میری جان۔‘‘
حضرت یحیٰ کی بشارت:
حضرت یحیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زور آور
ہے، میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لایق نہیں، وہ تمہیں روح القدس اور آگ سے
بپتسمہ دے گا، اس کا چھاج اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ کھلیان کو خوب صاف کرے
گا۔‘‘ (انجیل متی، بحوالہ ایضاً)
حضرت داؤد کی بشارت:
لحنِ داودی بھی اس محبوب رب علیہ الصلاۃ والسلام کے ذکر میں تر تھی، جس کی
مدح میں مرغِ سدرہ برسوں نغمہ سنجی کی سعادت پائے ہیں، بہ قول رضاؔ محدث
بریلوی:
چمنِ طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغِ سدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہو کر
حضرت داؤد علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مبارک ہیں وہ تیرے گھر میں بستے ہیں،
وہ سدا تیری حمد کریں گے، وہ بکہ (مکہ) سے گزرتے ہوئے ایک کنواں بناتے
ہوئے۔‘‘ (زبور باب۸۴، بحوالہ ایضاً)
اس میں درد ہے، سوز ہے، ہجر ہے، تڑپ ہے، کنایۃً شاہ حجاز کا ذکر ہے۔
قرآن کی بشارت:
اب ذرا اﷲ کی اس مقدس کتاب کی بھی سن لو جس میں شک کی جگہ نہیں، جو بلند
رُتبہ کتاب ہے، اسی میں محبوب کی بابت فرمایا گیا:
’’اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب
تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اﷲ کی لعنت
منکروں پر‘‘ (سورۃالبقرۃ:۸۹)
جب کائنات میں اس نور حق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد ہوئی تو اس رحمت
کاملہ پر خوشی منانے کا حکم رب تعالیٰ نے دیا:
’’تم فرماؤ اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔‘‘
(یونس:۵۸)
محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی نہ منانے یعنی نعمت کی یاد
سے غافل ہونے والوں کے لیے فرمایا گیا:
’’اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کر سکو گے بے شک آدمی بڑا ظالم بڑا
نا شکرا ہے۔‘‘ (ابراہیم:۳۴)
آج مسلمانوں پر جو حالات ہیں وہ پوشیدہ نہیں، یہود و نصاریٰ سبھی مسلمانوں
کو بارگاہِ رسالت سے دور کرنا چاہتے ہیں، ان دشمنان اسلام پر یومِ میلاد
مصطفی بڑا شاق گزرتا ہے، اسی لیے پیغمبر اسلام کی شان میں بے ادبی و گستاخی
کی مہم چھیڑ دی گئی ہے ایسے میں ضروری ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہ کر آمد
مصطفی کا جشن منا کر اپنی محبت و الفت کا اظہار کریں، اس لیے کہ بے عشق
مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کوئی عمل قبولیت نہیں پاتا، بہ قول اقبالؔ:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
٭٭٭ |
|