دنیا کی تمام مہذب اقوام اپنے ماضی کے
کارہائے نمایاں ، درخشاں واقعات اور نا قابل فراموش آثار کو اپنا قیمتی
اثاثہ سمجھتی ہیں اور آنے والی نسلوں کو روشناس کروانے کے لئے نشانی کے طور
پر عالیشان اور نادر عمارات ، مجسمے ، مخصوص رسم و رواج اور ایام کی صورت
میں قومی تقریبات منعقد کرتی ہیں ۔یہ الگ بات کے ان کے مذاہب ، عقائد اور
سابقہ روایات کے مطابق وہ حسب اسلام یا خلاف اسلام طریقے اختیار کرتی ہیں
مگر یہ طے ہے کہ وہ اپنے ماضی کی عظمتوں اور سطوتوں کو کسی نہ کسی طور
مستقبل سے ضرور جوڑتی ہیں ۔اسی طرح وہ اپنے مشاہیر اور واقعات کو زندہ و
جاوید رکھتے ہوئے ان کی شان میں خراج تحسین پیش کرتی ہیں تمام ایسی شخصیات
جنہوں نے مذہب ، ملک و ملت ، دفاع وطن یا انسانیت کی خدمات کے حوالے سے
گرانقدر خدمات اور قربانیاں پیش کی ہوتی ہیں اس طرح یہ ان کی خدمات اور
قربانیوں کا اعتراف ہوتا ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی نشانی قائم کر دی جائے ۔
اگر ہم ماضی کی بے شمار یادگاروں کا عمیق نظری سے جائزہ لیں تو جیسے مثال
کے طور پر مغلوں کے سنہری دور حکومت میں محبت کے نام پر تعمیر کیا گیا تاج
محل مغل فن تعمیر کی عظمت رفتہ کی بہت بڑی نشانی اور یادگار ہے جو آج بھی
ایک جاہ و جلال والے بادشاہ کی لازوال محبت کی داستان ہے ۔مصریوں کے
عجائبات ، مجسمے اور دیگر اقوام کی تعمیر کردہ یادگار تعمیرات اور مشاہیر
کے حوالے سے جاری کردہ تقریبات ہر دفعہ عظیم شخصیات اور قوم کے محسنوں کی
یاد تازہ کر دیتی ہیں ۔ اہم شخصیات کے ذکر کے لئے تو ایک دفتر بھی کم ہے
اور تاریخ کے آئینے میں ہر شخصیت کا تذکرہ ایک حوالے کے طور پر کیا جاتا ہے
تاکہ لوگ ان قصہ ہائے پارینہ کا مطالعہ کر کے ان کی زندگیوں سے سبق حاصل کر
کے اپنی زندگیوں کو کامیاب و کامران اور انسانیت کے لیے مفید ترین بنا سکیں
۔اس طرح ہٹلر اور چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے سفاک ، جارح اور ظلم و بر
بریت بپا کرکے اقوام عالم کی تاریخ پر دکھ و درد بھری داستانیں رقم کر کے
نابود ہوجانے والے بے شمار لوگوں کی کہانیاں آج بھی خدمت خلق اور درد دل
رکھنے والے سماجی اور عوامی لوگوں کو اپنی زندگیاں راہ راست پر رکھنے پر
آمادہ و تیار کرتی ہیں ۔
آج دولت مند غیر مسلم اقوام مختلف طریقوں سے مسلم ممالک کی مالی معاونت کر
کے ان کی عمومی طور پر غیرت ، خوداری ،رسم و رواج اور خصوصی طور پر مذہب ،
قانون اور دفاع کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں ۔ کیونکہ جن ممالک کے
حکمران ذاتی لالچ ، کمیشن اور لوٹ مار کے رسیا ہوتے ہیں وہ ممالک انھیں در
پردہ ، خفیہ ، پوشیدہ اور کھلے انداز میں بھی قرضے اور مختلف ناموں پر مالی
امداد فراہم کرتی ہیں جبکہ ایسے حکمران منصوبہ بندی سے بیرونی قرضوں کی
رقوم کی لوٹ مار اس طرح کرتے ہیں کہ اگر 10ارب روپیہ مالی امداد حاصل کی تو
5 ارب تو علی الحساب لوٹ لیتے ہیں اور بقیہ میں سے کافی حصہ کی رقم متعلقہ
سیاسی عہدے داران ، بیوروکریسی اور ٹھیکداران بانٹ لیتے ہیں اور ایک محدود
رقم عوامی فلاح و بہبود پر صرف کر کے عوام الناس کو دھوکا دیا جاتا ہے کہ
ہم نے یہ کام بھی سر انجام دیا ہے اور آخرکار ماہر ترین چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس
قسم کے فراڈیوں سے حساب و کتاب تیار کروا لئے جاتے ہیں اسی طرح بیرونی
ممالک سے جو مالی امداد دستیاب ہوتی ہے اسے بھی اسی طریقہ کار سے ڈکار لیا
جاتا ہے اس سارے دھندے کے دوران پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سے جو بھی
خریدا ہوا ادارہ یا ہوشیار یا زرخرید دانشور ہوتا ہے وہ عوامی رائے تبدیل
کرتا رہتا ہے جس سے عوام اپنے پسندیدہ حکمران سے جڑے رہتے ہیں۔
دوسری طرف وہ سرمایہ کار ،قرضے اور امداد فراہم کرنیو الے ممالک اپنے در
پردہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنے اہداف پورے کرتے ہیں اور گھناؤنی منصوبہ
بندی سے دوسرے ٖغریب الحال اور مالی ہوس پرست حکمرانوں سے اپنی شرائط پوری
کرواتے ہیں ۔اس کی بے شمار مثالیں دی جا سکتیں ہیں ۔
جیسا کہ دنیا جانتی ہے کہ مسلمان جذبہ جہاد سے سرشار ہونے کیوجہ سے اپنے
مذہب ’’اسلام ‘‘ اور وطن پاک ’’پاکستان ‘‘کے وقار اور عزت و عظمت پر حرف
نہیں آنے دیتا ۔مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دیکر یہ ارض پاک حاصل کی ہے
اور تمام قربانیاں صرف اور صرف دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی ہیں ۔مسلم
اور غیر مسلم کی جنگ پیغمبر اسلام ؐسے لیکر قیامت تک رہے گی کیونکہ اسلام
ایک ایسامذہب ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جب تک ایک اﷲ کو ہر طرح سے
الہٰ واحد نہ مانا جائے اور نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کو دنیا و آخرت میں کامیابی کیلئے اپنا حتمی رہبر و راہنما نہ
مانا جائے اور ان کی سنت کی پیروی نہ کی جائے تو اس وقت تک وطن عزیز کی بقا
اور سالمیت بھی ممکن نہیں ہے تو ان دولتمند اقوام نے قرضے اور مالی امداد
دے کر نصاب تعلیم سے اولین طور پر جہاد کے مضامین اور جہاد کی شان اور
فرضیت بیان کرنے والی اسلامی قرآنی اور نبوی تعلیمات کو ختم کروایا اس کے
بعد تمام ایسی شخصیات کے تذکرے بھی ختم کروائے جن کی لازوال جہادی خدمات سے
اسلام کو طاقت اور وسعت ملی پھر اس کے بعد مساجد سے تبلیغ اسلام کی نشرو
اشاعت کیلئے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندیاں لگ گئیں ۔جبکہ بہانہ فرقہ
بندی پر مبنی تقاریر اور بیانات بنایا گیا تھا مگر گلی کوچوں سے خوانچہ
فروشوں اور ریڑھی بانوں کے لاؤڈ اسپیکر بند نہ کرواسکے جو ہمہ وقت ذہنی
اذیت کا باعث اور بے چینی کی علامت ہیں ۔اسلام کے بعض طبقات کو ہر طرح کی
تقریبات کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی لیکن بعض شخصیات پر قدغن عائد کر دی
گئی جو کہ انصاف کے تقاضوں کے لحاظ سے کھلا تضاد ہے ۔
اس طرح اپنے مشاہیر کے تاریخی کارناموں ، کارکردگیوں اور معرکہ آرائیوں کے
دن بھی مخصوص کئے گئے ہیں تاکہ عہد رفتہ سے سبق سیکھا جا ئے ۔مسرت کی بات
ہے کہ جتنی فتوحات اور انسانی خدمت کے کارنامے مسلمانوں نے سرانجام دئیے
ہیں و ہ کسی دیگر مذہب کے حصے میں نہیں آئے ۔یہ بات ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال
رہی ہے کہ آج ہمارے حکمران خود پرستی اور غیروں کی شرائط کو پورا کرتے کرتے
اس حد تک نا عاقبت اندیش ، اندھے اور گھٹیا ہو چکے ہیں کہ نصابی کتابوں سے
اپنے مشاہیر کے تذکرے ختم کر کے اپنی نام نہاد منحوس جعلی کارکردگیاں شامل
نصاب کروا رہے ہیں اور حکومتوں کے خوشامدی اپنی تحریرو تقاریر کے ذریعے دن
کو رات اور رات کو دن لکھ اور کہہ رہے ہیں۔ آج بانئی پاکستان اور تحریک
پاکستان کے مرد آہنوں کی تصاویر کی جگہ حکومتی شخصیات نے لے لی ہے جیسا کہ
قابل احترام ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کی چھٹی منسوخ کر دی گئی ہے ۔قبل ازیں
اقبال ڈے پر سکولوں ، کالجوں ،یونیورسٹیوں اور سماجی تنظیمو ں کے پلیٹ
فارمز پر پیغام اقبال اور فکر اقبال پر مبنی تقریبات منعقد ہوتی تھیں جن سے
نئی نسل کو جہد مسلسل ، خودی اور خود شناسی جیسے لازوال موضوعات پر علم اور
جذبہ عطا ہوتا تھا اور نظریہ پاکستان کی تفصیلات اور قیام پاکستان کی
وجوہات اور اسباب کا پتہ چلتا تھا تو اس چھٹی کو ختم کر کے نئی نسل کے ساتھ
ایک طرف ہاتھ کیا گیا ہے اور دوسری طرف بیرونی آقاؤں کی خواہشات کو رفتہ
رفتہ خفیہ طریقوں سے پورا کیا جا رہا ہے ۔اس طرح وطن عزیز کی جڑیں ہلا کر
اس تنا ور درخت کو کھوکھلا کرنے کی مذموم کاوش کی جا رہی ہے ۔جس کے اثرات
کھلے عام نظر آرہے ہیں کہ آج حکمرانوں کو اپنی عزت ، ناموس اور آخرت تک کا
خیال نہیں رہا ۔اندرون و بیرون ملک بدنامیاں ہیں ۔عدالتوں ، کچہریوں میں
کرپشن کے مقدمات ہیں ۔ناموس وطن کی حفاظت اور وقار پر اپنی جانوں کے نذرانے
پیش کرنے اور ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے شہریوں کیلئے فدا ہونے والے
جوانوں کے وقار کو متنازعہ بنانے کی ناپاک کاوشیں ہیں ۔عدلیہ کی بد نامیاں
کی جارہی ہیں اور سینہ زوری سے حکمران اداروں سے برسر پیکار اور آمنے سامنے
ہیں مگر عیاری و مکاری سے حقیقت اور جھوٹ میں مطابقت بتائی جارہی ہے ۔حق کا
نام جنوں اور جنوں کا نام حق رکھ دیا گیا ہے ۔عوام الناس کو اپنے اپنے
مفادات کی خاطر متنازعہ بنا دیا گیا ہے ۔میڈیا پر اصلاحی ، اسلامی اور
عوامی فلاح و بہبود کے پروگراموں کو کم اور عریانی و بے حیائی کے پروگرام
اکثریتی طور پر بڑھا دئیے گئے ہیں سوائے ان کے کہ جنھیں مسلمان اور
پاکستانی ہونے پر فخر ہے ۔
ان حالات میں خدارا تمام حکمران عقل کے نا خن لیں ۔ادارے بھی تعاون کی کمی
پوری کریں۔ اگر غلط فہمیاں ہیں تو ملک و ملت اور مذہب کے وسیع تر مفاد میں
دور کی جائیں تاکہ پاکستان کا مستقبل درخشاں رہے ۔ |