اثرات!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
اُڑی ہوئی دھول تو چھٹ رہی ہے، کچھ
روز بعد مطلع صاف ہو جائے گا۔ مگر بہت سے واقعات اور معاملات ایسے ہوتے ہیں،
جو گزر تو جاتے ہیں، مگر اپنے وجود کے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں، ان کے
اثرات ایک عرصے تک مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ حکومت نے ’’آبیل، مجھے مار‘‘ کے
محاورے پر عمل کرتے ہوئے، ختمِ نبوت کے قانون سے چھیڑ خانی کی، کوئی ذی
شعور یہ اندازہ لگانے سے قاصر ہے کہ کیا اسمبلی سے بل منظور کروانے کا
معاملہ کسی غلطی کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟ یہ بات عام فہم تھی کہ یہ کسی سازش
یا شرارت کا کیا دھرا ہے۔ یہ خیال بھی عام طور پر ہی پایا جاتا تھا کہ وزیر
قانون کی قربانی کے بغیر یہ گناہ معاف ہونے والا نہیں۔ اگرچہ یہ وزیر قانون
کا تنہا کارنامہ نہ تھا، ان کے کچھ ساتھی بھی ہوں گے، جن کی مشاورت سے یہ
سب کچھ ہوا۔ بات سازش کرنے والوں تک بھی محدود نہیں، آخر اس کی منظوری کے
مراحل تو اس وقت پورے ہوئے جب معزز ممبرانِ اسمبلی نے اس کی تائید وتصدیق
کی۔ یوں ملبہ وزیر قانون پر ڈال کر پوری اسمبلی کا کفارہ ادا کر دیا گیا۔
ستم تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے حکم پر راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں
بنائی جانے والی کمیٹی کی رپورٹ بھی منظر عام پر نہ لائی گئی، ظاہر ہے
حکومت کو تو وہ رپورٹ آغاز میں ہی پیش ہو گئی ، کوئی اقدام کیا ہوتا؟ وزراء
کی عارضی قربانی کی روایت تو یہاں پہلے سے ہی موجود ہے، رانا ثناء اﷲ، رانا
مشہود، مشاہداﷲ خان اور پرویز رشید وقت آنے پر قربان کئے گئے، سوائے پرویز
رشید کے، تینوں کو وزارتوں پر دوبارہ بحال کیا گیا، اب بھی اگر ایسے ہو
جاتا تو سب کو معلوم تھا کہ وقتی طور پر ہنگامہ ختم کروانے کے لئے ایسے
اقدام کئے جاتے ہیں۔ مگر حکومتی رٹ کے نام پر خاموشی اختیار کی گئی، عوام
کی پریشانی کا خیال نہ رکھا گیا، آخر جب سوپیاز کھانے کا مرحلہ تکمیل کو
پہنچ گیا تو دوسرے آپشن کا رُخ کیا اور دونوں تکلیف دہ عمل کر کے اپنی
نااہلی اور قوت فیصلہ کی کمزوری کا بھر پور ثبوت دے دیا گیا۔ اگر یہی کام
پہلے کر لیا جاتا تو نہ دھرنے والوں کو کارروائی کرنا پڑتی، نہ عوام پریشان
رہتے، نہ معاشی نقصان کی داستانیں ہوتیں اور نہ ہی اس قدر حالات کشیدہ اور
خراب ہوتے۔
معاہدہ ہوگیا، معاملات طے پا گئے، دھرنے سے فارغ ہو کر واپس جانے والوں کو
ایک ایک ہزار روپے بھی دے دیئے گئے، بتایا گیا کہ ’’اوپر سے تو پانچ پانچ
ہزار ایشو ہوئے ہیں‘‘۔ رینجرز کے افسر پیسے دے رہے تھے، سوالات تو بہت سے
اٹھ رہے ہیں۔ سرکاری اور نجی املاک کو پہنچائے جانے والے نقصان کا تخمینہ
بھی کروڑوں سے تجاوز کر جائے گا، اس میں وہ نقصان بھی شامل ہو گا جو
کاروبار وغیرہ میں تعطل کی وجہ سے ہوا۔ مگر ایک بہت اہم سوال یہ بھی ہے کہ
کتنی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں؟ حالات یہ ہیں کہ کسی کو اصل تعداد کا
ہی علم نہیں۔ یقیناً ان کے لواحقین کو کچھ معاوضہ دے دیا جائے گا، شاید جان
سے جانے والوں کو اُن کے پارٹی قائدین اس بات سے مطمئن کر لیں کہ انہوں نے
عظیم تر مقصد کے لئے جان دی ہے، اُن کا خون رنگ لائے گا، لیکن ہوتا یہ ہے
کہ بہت سے ایسے گھرانوں میں اس وقت اندھیرا ہوجاتا ہے، جب گھر کا چراغ بُجھ
جاتا ہے، جب گھر کا واحد کفیل ہی دنیا سے گزر جائے تو پیچھے بیوی بچوں
وغیرہ کے لئے زندگی مزید سخت امتحان کی صورت سامنے آتی ہے۔ ستم بالائے ستم
یہ کہ ایسے لوگوں کے لواحقین کو بعد میں پوچھنے والا کوئی کم ہی ہوتا ہے،
جس سے زندگی میں المیے جنم لیتے ہیں، جن کے اثرات صدیوں اور نسلوں تک جاتے
ہیں۔حکومت نے اپنی کمزوری اور بے بسی کا ثبوت چینلز کو بند کر کے اور ملک
بھر میں دو روز تعلیمی اداروں کی تعطیل کرکے دیا۔ پھر اخبارات میں پورے
پورے صفحہ کے اشتہار شائع کرکے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ ہماری طرف سے
تو غلطی بھی کوئی نہیں تھی، سازش تو دور کی بات ہے۔ اور یہ بھی کہ اب ختمِ
نبوت کا قانون پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے(؟)ان تمام کارروائیوں کے
اختتام پر ایک بات ناقابلِ تردید موجود ہے، کہ آخر کو ئی بات تو تھی،جس سے
یہ ہنگامہ اٹھا اور حکومت کو جھکنا پڑا، یہی ایک بات ہے جو حکومت کے لئے
نحوست کا روپ دھار رہی ہے۔ |
|