پھرے ہے پیرہنِ سوگوار میں قاتل

میرے ساتھ کام کرنے والے ایک غیر ملکی نے سوال کیا ’’تمہارے ملک میں یہ کھادم حسین کون ہے؟‘‘ میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ میرا کوئی ہم پیشہ ایسا سوال کرے گا۔ شاید میں بھول گیا تھا کہ ہم سوشل میڈیا کے عہد میں جی رہے ہیں۔ ایک کلک پیغام کو پوری دنیا میں پہنچا دیتا ہے خواہ وہ پیغام خبر ہو یا افواہ۔ ابلاغ کی یہ طاقت کہیں نقصان دہ ہے اور کہیں سود مند…… خیر میرا وہ دوست مولانا خادم حسین رضوی کو پاکستان کا مفتی اعظم سمجھ رہا تھا۔ میرے لیے مشکل یہ تھی کہ اسے جواب بھی دیا جائے اور پاکستان میں جاری جنونیت کا بھی پردہ رکھ لیا جائے۔ سو میں نے یہی مناسب جانا کہ اسے بتایا جائے کہ یہ صاحب ایک روحانی سلسلے سے ہیں اور جسے آپ غصہ سمجھ رہے ہیں وہ دراصل ان کی جلالی کیفیت ہے۔ اور چونکہ یہ ماہ نبی کریم کا ماہِ ولادت ہے اس لیے آپ سے محبت کے اظہار میں ملک میں جلوس نکل رہے ہیں اور لوگوں کو کارِ نیک کی جانب دعوت دی جا رہی ہے۔ سادہ بندہ تھا مزید کچھ نہ پوچھا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔

سوچتا ہوں کہ ہم لوگ کب تک سچائیوں سے فرار ڈھونڈیں گے اور خوش فہمیوں میں زندہ رہیں گے۔ ایک شخص نبی کریم کی محبت کا دعوے دار بن کے نکلتا ہے۔ ہزاروں سادہ لوح مسلمان اس کا جذبہ دیکھتے ہوئے اس کی پیروی میں چل پڑتے ہیں۔ ایک جگہ مختص کر لی جاتی ہے اور وہاں بیٹھ کے بازاری زبان کا کثرت سے استعمال کیاجاتا ہے۔ جو لوگ آقائے دو جہان کی محبت میں شمعیں جلا کر نکلتے ہیں۔ وہی جہالت کے اندھیرے بانٹنے لگتے ہیں۔ اپنی دشنام طرازی کے دفاع میں آقائے دو جہاں اور ان کے صحابہ سے لغو روایات منسوب کرتے ہیں اور صبح شام ان کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں۔ آفرین ہے ان پیروکاروں پہ بھی جو ہر گستاخی پہ سبحان اﷲ اور ماشااﷲ کی گردان جاری رکھتے ہیں۔ کیا کسی مسجد، مدرسے یا درگاہ کے والی کو اتنی آزادی ہے کہ وہ اخلاق باختہ گفتگو کرے اور پھر اپنی گفتگو کے دفاع میں نبی کریم اور ان کے صحابہ پہ بہتان باندھے؟ کچھ نا سمجھ دیوانے اس بات پہ جھومتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ چونکہ علما و مشائخ ایسے بیانات میں روایات کا حوالہ دیتے ہیں اس لیے ان کے بیانات پہ شک کے زاویے سے غور بھی کرنا ایمان کے لیے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ان علما کا انکار نہیں بلکہ ان روایات کا انکار ہے جو ایمان کی بنیادات میں شامل ہیں۔

مجھے نہ تو اپنے عالم ہونے کا گماں ہے اور نہ ہی میں کسی کے ایمان کی تصدیق کے لیے مہریں اٹھائے گھوم رہا ہوں۔ لیکن اتنا فہم ضرور رکھتا ہوں کہ قرآن میں جو حکم آ چکا ہے اس کا رد نہ تو تاریخ سے ممکن ہے اور نہ روایت سے۔ جب قرآن صراحت کے ساتھ پاک اور نجس اشیا میں فرق بیان کرتا ہے جو کم سے کم علم رکھنے والا بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے تو خادم حسین رضوی یا پیر افضل قادری کے اذہان یہ سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں اور نہ صرف سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ یہ صاحبان ایسی روایات کی تشہیر میں بھی مکمل کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’حضرت امِ ایمن نے حضور کا پیشاب پی کر پیٹ کی تمام بیماریوں سے شفا پائی یا حضور جب رفع حاجت سے فارغ ہوئے تو حضرت جابر اسے کھانے کے لیے دوڑے‘‘ یا پھر دیگر صحابہ کے بارے ایسے ہی کلمات بیان کرتے ہیں جن میں حضور کا پیشاب یا خون پینے کا ذکر ہو تو ان کی عقل و فہم پہ ماتم کرنے کو جی کرتا ہے۔ ایک دین جس کی بنیاد ہی طہارت پہ قائم ہے اسے یہ نادان نجاست کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ اور ان صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کا سبب بن رہے ہیں جن نے تمام زندگی اﷲ عزوجل کے احکامات کی پابندی اور حضور کی اتباع میں گزاری۔ اس پہ مستہزاد یہ کہ ان علما کے مطابق ایسے واقعات کے دوران حضور نے صحابہ کو ان عوامل سے روکا بھی نہیں۔ عام لوگوں پہ تو کوئی گلہ نہیں کہ انھوں نے اپنی عقل پہلے ہی ان کے پاس گروی رکھ دی ہوتی ہے جنھیں وہ رہنما تصور کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اہلِ علم کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی چیزوں کو دین سے الگ کریں جو دینِ اسلام کی بنیادات کے ہی خلاف ہیں۔ خادم حسین رضوی یا پیر افضل ایسی لغویات کو دین سے جوڑ کر جس فتنے کے پھیلاؤ میں کردار ادا کر رہے ہیں اس کی گونج بہت دور تک جائے گی۔ خادم حسین یہ بات اچھے سے جانتے ہوں گے کہ راج پال نے جو کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ کے نام سے شائع کی تھی اس میں شامل سارا مواد ہماری ہی تواریخ و روایات سے لیا گیا تھا۔ لیکن تب وہ گستاخی کے زمرے میں شامل ہوا کیونکہ وہ سب ایک ہندو نے شائع کیا تھا۔ علم دین کے لیے تو دین رسول پاک سے محبت ہی تھا اور اس نے اپنے تئیں اس کا حق ادا کرتے ہوئے راج پال کا قتل کیا۔ اقبال بھی اس کی ستائش میں کلمات ادا کرنا نہ بھولے۔ لیکن کیا علما نے اس وقت کوئی علمی کردار ادا کیا؟؟؟ بہت سے جید علما اس وقت امت میں موجود تھے۔ کتنے علما نے اجتہاد کا راستہ اپنایا؟؟ کتنے علما نے سابقہ کتب کا ازسرِ نو جائزہ لیا اور ایسی چیزوں کو دیوار پہ دے مارا جن سے دینِ اسلام پہ یا آقائے دو جہاں کی ناموس پہ کوئی حرف آتا تھا؟؟؟ یقینا ایسا نہیں ہوا۔ اگر ہوا ہوتا تو آج یہی روایات علما کی زبان پہ جاری نہ ہوتیں۔ مجھے کہنے دیجیے کہ جہاں ہمارے معاشرے کے دیگر شعبہ جات میں کرپشن، دھوکہ دہی، جھوٹ، فریب اور ریاکاری غالب ہے وہیں مدارس و خانقاہوں میں بھی حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ علما و مشائخ کے پاس دل گرما دینے والے بیانات تو ہیں۔ فتوے کا کاروبار بھی ہے۔ غیر ملکی دورے بھی ہیں۔ تبلیغی اجتماعات بھی ہیں۔ خانقاہوں کی محافل بھی ہیں۔ لیکن وہ چیز نہیں ہے جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ صحیح اور غلط کا فرق بیان کرنا ان کی اولین ذمہ داری ہے لیکن جب یہ خود صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر پائیں گئے تو عوام کی رہنمائی کیسے ممکن ہے؟ اگر کوئی غیر مسلم یا عام انسان ایسی گفتگو کرے تو اس کے خلاف فتووں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ایک ہی سزا ’’سر تن سے جدا‘‘ کا نعرہ فضا میں گونجنے لگتا ہے۔ جگہ جگہ احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ عمارات کو آگ لگتی ہے۔ دکانیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ انسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور ایسے شخص کے عزیز اقربا کے لیے بھی زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ کیا ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ وہ کسی مسجد کے منبر پہ نہیں یا اس کے پاس کوئی گدی نہیں ہے جس پہ بیٹھ کے وہ اپنے معتقدین کو جیسے چاہے ویسے استعمال کرے؟ ہمارے معاشرے میں اس دو رخی رویے کی وجہ ایک ہی ہے کہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کے آپ جو بھی کریں آپ کسی کو جواب دہ نہیں ہوں گے۔ نہ آپ کے خلاف کوئی تحریک شروع ہو گی نہ ہی آئین کی شق ۲۹۵ آپ پہ لاگو ہو گی۔ لیکن اگر آپ کے پاس مذہبی لبادہ نہیں ہے تو آپ کا درست بھی غلط ہو سکتا ہے۔ معاشرے کی اس منافقت میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو خاموش رہتے ہیں۔ سب سمجھتے جانتے ہوئے بھی نام نہاد علما و مشائخ کے خلاف حق بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جانے وہ کون سے مصلحتیں ہیں جو محبانِ علم و دانش کو بھی زباں بندی پہ مجبور کر دیتی ہیں۔ شاید اس میں کہیں اپنے چاہنے والے سادہ لوح لوگوں کی ناراضگی کا بھی اندیشہ ہوتا ہو گا۔ یا پھر معاشرے میں اپنے مقام و مرتبے کے کھونے کا بھی ڈر ہو گا۔ یاد رکھیے کہ ساری دنیا بھی غلط کو درست کہہ دے تو غلط کبھی درست نہیں ہو سکتا۔ اس سمے جو لوگ مولانا خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کی گستاخیوں پہ شاد ہیں اور جو خاموشی کا بت بنے ہوئے ہیں۔ ان سب کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا جس دینِ اسلام کے وہ پیروکار ہیں اس کی بنیاد طہارت ہے یا نجاست۔ سوال کرنے والے کو جواب ضرور ملتا ہے اور جو خود سے یہ سوال کرے گا اس پہ سب منظر سہولت سے کھل جائے گا۔ کیا خبر:
پھرے ہے پیرہنِ سوگوار میں قاتل
یہ رسمِ نوحہ گری کوبکو فریب نہ ہو

دھرنا کیسے شروع ہوا۔ اس کے مقاصد کیا تھا۔ اختتام پہ کس نے کیا حاصل کیا اور کس نے کیا کھویا۔ یہ سب چیزیں تو بہت پیچھے رہ جائیں گی۔ البتہ تاریخ اس بات کو ضرور محفوظ رکھے گی کہ حضور اکرم کی ناموس پہ پہرہ دینے کا اعلان کرنے والوں نے خود ناموسِ رسالت کا بالکل پاس نہ رکھا اور اجتماعی سطح پہ ڈنکے کی چوٹ پہ وہ سب کیا گی اجس کے تصور سے ہی مومن کانپ جاتا ہے۔
Kashif Butt
About the Author: Kashif Butt Read More Articles by Kashif Butt: 25 Articles with 15759 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.