یوسفی کی آب گم ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ

آ ب گم مشتاق احمد یوسفی کی ایسی تصنیف ہے جو اپنے قاری کے فہم اور ادراک کے لیے ایسے دریچے کھولتی ہے جو اسے کبھی تو خوش نما وادیوں میں لے جاتے ہیں اور کبھی غم کی بوجھل گپھاؤں میں چھوڑ آتے ہیں
مشتاق احمد یوسفی اگرچہ پیشے کے اعتبار سے بینکار ہیں لیکن اقتصادیات اور شماریات کے خشک ساتھ نے بھی ان کی فطری شگفتگی کو ماند نہیں پڑنے دیا
اور یوں ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کے مطابق ،ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں،
یوسفی کی اولین تصانیف،چراغ تلے، اور ،خاکم بدہن، کے موضوعات اگرچہ روایتی تھے مگر اسلوب جدا گانہ اور یوسفی صاحب کی انفرادیت لۓ ہوۓ تھا اپنی انگلی تصنیف ،زر گزشت، میں وہ اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے پوشیدہ گوشوں کو اسی زندہ دلی سے سر عام بے نقاب کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں جو ان کی تحریروں کا خاصہ تو ہے مگر آپ بیتی کی روایات سے بالکل ہٹ کر ہے
آب گم موضوعاتی اعتبار سے سابقہ تمام تصانیف سے منفرد ہے کیونکہ اسکا بنیادی موضوعایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جو انسانی افعال اور اقوال کا مکمل اور ہمہ وقت احاطہ کۓ رہتی ہے جسے ناسٹل جیا ، یادش بخیریا، یا نشئہ ماضی کہا جاتا ہے
یوسفی صاحب نے اس کتاب میں نہ صرف اس مریضانہ کیفیت کی وجوہات اور تفصیلات پر روشنی ڈالی ہے بلکہ وہ نشتر بھی مہیا کیا ہے جس سے اس ناسور کی جراحی ممکن ہو سکے
آب گم بنیادی طور پر پانچ کہانی نما خاکوں پر مشتمل ہے بلکہ بقول
یوسفی صاحبfactاور fiction
کا ملغوبہ یعنی
Faction
ہے
حویلی کی کہانی" ایک متروکہ ڈھنڈار حویلی اور اسکے مغلوب الغضب مالک کے گرد گھومتی ہے جو ہر کسی کو حویلی کا فوٹو دکھا کر کہتے ہیں " یہ چھوڑ آئے ہیں"
“سکول ماسٹر کا خواب مولانا کرامت کی بےبسی اور بے چارگی کا بیان ہے جو نا موافق حالات میں بھی خود داری اور شکر گزاری کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے
کار، کابلی والا،اور الہ دین بے چراغ ایک ایسے زندہ دل پٹھان کی داستان ہے جس نے آخری دم تک موت کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا
جبکہ "شہر دو قصہ"میں بشارت علی فاروقی اپنے بچھڑے ہوئے کانپور سے دوبارہ ملاقات کرتے ہیں مگر ماضی کے دشت باز گشت میں اپنے ہمزاد کے خیمہ زنگار گوں کو پہچان نہیں پاتے
دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ "ایک قدیم قصباتی سکول اور اسکے ٹیچر کا کیری کیچر ہے
آب گم دراصل اس نسل کا طنزو مزاح سے مزین نوحہ ہے جو کسی قومی،اجتمای مقاصد کی خاطر یا انفرادی اور معاشی ترقی کی خاطر ہجرت اختیار کرتے ہیں چاہے وہ کانپور سے کراچی ہو یاکراچی سے لندن
یوسفی صاحب اپنے کرداروں کو ماضی پرست،ماضی زدہ،اور مردم گزیدہ کہ کر متعارف کرواتے ہیں جنہیں اپنا ماضی حال سے زیادہ پرکشش نظر آنے لگتا ہے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہو جاتاہے ایسا عموماً بڑھاپے میں ہوتا ہے مگر یوسفی صاحب نے خبردار کیا ہے کہ بڑھاپے کا یہ جوانی لیوا حملہ کسی بھی عمر میں بالخصوص بھرپور جوانی میں بھی ہو سکتا ہے
بڑھاپے کے اس جوانی لیوا حملے کا علاج بھی یوسفی صاحب تجویز کرتے ہیں تاکہ انکا قاری ڈپریشن اور یاسیت کا شکار نہ ہو جائے یوسفی صاحب کے مطابق ایسے افراد کا اصل رونا جغرافیۓ کا نہیں جوانی اور بیتے سمے کا ہے جو حیات امروز میں زہر گھول دیتا ہے چنانچہ ماضی کی یادگاریں کا جدید سفر انہیں افاقہ پہنچا سکتا ہے
جہاں آب گم کا موضوع منفرد اور اچھوتا ہے وہیں اس سجی سجائی خوبصورت ،رواں مگر نقش و نگار سے مزین تحریر کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک رنگوں سے بھرپور مصوری کا نظارہ کر رہے ہوں یا نگینوں اور موتیوںجڑا شاہی لباس ہاتھوں سے چھو کر محسوس کر رہے ہوں ایک ایک سطر اور جملے میں تشبیہات،تلمیہات لطافت اور مزاح کے کیا کیا ذخیرے پوشیدہ ہیں قاری کسی فقرے کو غیر اہم سمجھ کر سرسری انداز میں پڑھ کر گزر جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا
آب گم کو ایک بار پڑھے جانے والی کتاب نہیں یہ بار بار پڑھے جانے کے لئے ہے اور ہر مرتبہ نۓ معانی ، جذبات اور احساسات سے روشناس کراتی ہے۔
 
Aneela Shakeel
About the Author: Aneela Shakeel Read More Articles by Aneela Shakeel: 10 Articles with 17563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.