بھوک کشمیر کو بنگال بنا دیتی ہے : تجزیاتی مطالعہ

معاصر اردو افسانہ نگاروں میں اشتیاق سعید ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے الگ ہٹ کر اپنے افسانوں کی دنیا آباد کی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ معاصر عہد کی تصویر کو نِت نئے نئے تجربات کے ذریعہ پیش کیا ہے۔ جس میں ان کے ذہنی فکر کی گہرائی،گیرائی اور اونچائی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا ذہنی سفر اپنے ارد گرد کے ماحول میں طواف کرتا رہتا ہے اور اسی سے اپنے افسانوں کی دنیا کو تعمیر کرتے ہیں۔ وہ اپنے آس پاس کے ماحول اورزندگی کے تلخ حقائق سے آنکھیں نہیں چراتے ہیں بلکہ ان حقائق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈا ل کران کی روح کی گہرائیوں کا ایکسراتی مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں۔ جس کے مطالعہ کے بعد قاری معاصرتی ،نفسیاتی اور جنسیاتی مسائل سے رو برو ہوتا ہے۔وہ اس فکریاتی و جمالیاتی مطالعہ اور تجزیہ کو قاری کے لیے برائے مطالعہ نذر کرتے ہیں۔ استیاق سعید کے افسانے کی سب سے بڑی فکری اور فنی خوبی یہ ہے کہ جنسی معاملات کو پیش کرتے وقت وہ جنسیت کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی افسانے کا دامن ان کے ہاتھوں سے چھوٹتا ہوا نظر آتا ہے بلکہ وہ ایک کامیاب افسانہ نگار کی طرح بڑی بیباکی اور چابکدستی کے ساتھ افسانے پر شروع سے لے کر آخر تک اپنی گرفت کو قائم رکھتے ہیں۔

اشتیاق سعید کا افسانہ ’بھوک کشمیر کو بنگال بنا دیتی ہے‘ ایک کامیاب تمثیلی افسانہ ہے۔ جس میں افسانہ نگارنے سماجی اور جنسی پہلو کو بہت ہی خوبصورتی اور فنی لطافت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بھوک چاہے پیٹ کی ہو یا جنس کی ہودونوں صورتوں میں بھوک انسان کوفطری طورپر مضطرب کرتی ہے اور اس بھوک کو مٹانے کے لیے انسان اپنی عزت اور آبرو تک کا بھی سودا کر لیتا ہے۔ اسی طرح کی کہانی اس افسانے میں پیش کی گئی ہے۔ اس افسانے کا ایک اقتباس خاطر نشیں ہو:
’’شگفتہ جوں ہی کھڑکی پر آن کھڑی ہوئی اس کی نگاہ سامنے سے ؤتے ہوئے ایک بائیس تیئس سالہ خو برو نوجوان پہ جا ٹکی۔ اسے دیکھتے ہی اچانک اس کے دل میں ہزاروں آرزوئیں کروٹیں لینے لگیں۔لاکھوں خواہشیں مچلنے لگیں۔ خواہشیں اورایسی خواہشیں کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے تن بدن میں ایک عجیب قسم کی سنسناہٹ پھیلنے لگی اور اندرون میں لاکھوں چیونٹیاں ایک ساتھ رینگتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ سینہ جستہ جستہ پھولنے لگا جس کے سبب کسا ہوا بلاؤز مزید کسنے لگا تھا اس کے بر عکس پیٹی کوٹ کی ڈور ڈھیلی ہوتی گئی۔ ساڑی تو آج اس نے باندھی ہی نہ تھی۔ الغرض صبح ہی سے وہ اسی کیفیت سے دو چار تھی۔

گزشتہ دو مہینوں سے رہ رہ کے اس پر یہ کیفیت طاری ہو رہی تھی۔ جب بھی اس پر اس کیفیت کا نزول ہوتا اس کے برتاؤ میں ایک وحشی پن در آتا۔ وہ ایک ایسے حیوانی جذبے کے زیر اثر آ جاتی جو دنیا کا سب سے زیادہ شدید اور طاقتور جذبہ ہوتا ہے۔ جس کے مداوا کی خاطر وہ گاؤ تکیہ لے کر پہلو میں سمیٹ لیتی اور دیر تک خود کو بستر پر الٹتی پلٹتی رہتی یا اسے رانوں کے درمیان اڑس کے زور زور سے دباتی۔ اس عمل سے جب اکتا جاتی تب بستر پر اٹھ کھڑی ہوتی اور اپنے پیروں سے تکیہ کو یوں بے تحاشہ ٹھوکریں مارنے لگتی گویا وہ تکیہ نہیں کوئی فٹ بال ہو۔ ایسا کرتے ہوئے اس کی سانسیں بے نگم ہو جاتیں اور وہ تھک کے بستر پر ڈھیر ہو جاتی۔‘‘

اس افسانے کا مرکزی کردار شگفتہ ہے۔ جس کی شادی عقیل سے تین برس قبل ہوئی تھی۔ شادی کے وقت عقیل ایم ایم آر ڈی اے(MMRDA) کے پروجیکٹ سانتا کروز چیمبو لنک اوور بریج کے تعمیراتی کام میں ٹھیکیدار کے ساتھ ویلڈرکی حیثیت سے کام کرتا تھا ۔ اسی درمیان یہ پروجیکٹ بند ہو جاتا ہے۔ بیروزگاری کے عالم میں عقیل چار مہینے تک ادھر ادھر بھٹکا لیکن اسے کوئی کام نہ مل سکا۔ اسی دوران اس کو دو سال کے لیے کویت میں کام مل جاتا ہے اور وہ دو سال کے لیے کویت چلا جاتا ہے۔ اس کو گئے ہوئے اب سولہ مہینے ختم ہو چکے ہیں۔ اس کی بیوی شگفتہ اپنے خاوند کا انتظار کرتے کرتے تھک جاتی ہے۔ وہ سولہ مہینے سے جنسی سطح پربھوکی ہے اورسڑک پر اپنے بھائی کے گھر کا پتہ پوچھ رہا شخص تین دنوں سے بھوکا ہے۔شگفتہ فلیٹ میں تنہا رہتی ہے اور یہ تنہائی اس کو اکثر ڈستی رہتی ہے لیکن آج شگفتہ کو جنسی بھوک شدید طور پر مضطرب کرتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ذہنی اور جسمانی دونوں سطح پر قابو نہیں رکھ پاتی ہے اور وہ سڑک پر پتہ پوچھ رہے گبرو نوجوان کو دیکھ کر اس کے بدن میں جنسی حرارت اور تمازت پیدا ہو جاتی ہے ۔وہ اسے اپنے فلیٹ پر بلاتی ہے اور اس کی دلجوئی کرتی ہے ۔ ایک عورت کی جنسی نفسیات کو اشتیاق سعید نے بہت ہی خوش اسلوبی اور فنی مہارت کے ساتھ برتا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’نوجوان جوں ہی فلیٹ میں داخل ہوا شگفتہ نے جلدی سے دروازہ بولٹ کر دیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے سیدھے بیڈ روم میں لے جاتی ہے اور کیف و مستی سے سرشار لہجہ میں بولی۔
’’یہاں تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ اسے اپنا ہی گھر سمجھو اور جیسے چاہو آرام کرو‘‘۔
وہ بیڈ پر بیٹھ گیا اور شگفتہ کی جانب ملتمس نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا۔’’بھابھی جی۔۔ میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا‘‘۔
شگفتہ اسی مستی کی کیفیت میں ریت کی دیوار کی مانند اس پر ڈھہ گئی اور شوخ لہجہ میں بولی۔’’ارے بے دال کے بودم۔۔۔ بھابھی اور دیور کے درمیان کم بخت یہ احسان کہاں سے گھس آیا‘‘۔ اور اس کے چوڑے سینے سے اپنا محراب دار اور گداز دار سینہ مس کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے اسے پورا یقین تھا کی جلدہی اس کے جذبات برانگیختہ ہو جائیں گے اور وہ اس کی گل بدنی کو اپنی باہوں کے حصار میں لے کر اس کے شباب میں اپنی مردانگی کو پیوست کرنے کے لیے بیقرار ہو جائے گا۔ لیکن کافی دیر کے بعد بھی اس کے اس عمل سے نوجوان کے اندر نہ ہوس کے بھیڑیئے غرائے نہ ہی آنکھوں میں واسنا کی مہتابیاں چھوٹیں۔ وہ بس یوں ہی بے جان لاش کی طرح پڑا خلا میں تکتا رہا۔ شگفتہ جھنجھلا گئی۔’’ کہیں اس کی مردانگی ناکارہ تو نہیں۔‘‘ پھر اسے خیال آیا کی کچھ مردوں کو مشتعل کرنے کے لیے رجھانا پڑتا ہے۔اس خیال کے آتے ہی وہ اچھل کے فرش پر آن کھڑی ہوئی اور دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر بھر پور انگڑائی لی ایسا کرتے ہوئے اس کا سینہ اس قدر تنا کہ بلاؤز پر ٹنکے تین بٹنوں میں درمیانی بٹن بلاؤز سے جدا ہو کے فرش پہ آ رہا۔ اس پر بھی نوجوان کی آنکھوں میں نہ شہوت کا چمن زار آباد ہوا نہ ہی چہرے پر ہیجان کی کلیاں چٹکیں۔ وہ چونک پڑی۔
’’ارے ۱! یہ کیا! تشنہ دہن تو صحرا میں نخلشتان دیکھ کے خوش ہوتے ہیں اور یہ ہے کہ۔۔۔۔‘‘۔
پھر سوچا شائد وہ بے توجہی کا شکار ہو رہا ہو۔ چنا نچہ اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی خاطر بلاؤز سے جدا ہوئے بٹن کو فرش سے اٹھا کے اسے دکھاتے ہوئے قدرے اٹھلا کے بولی۔
’’لو بیٹھے بٹھائے ایک کام بڑھ گیا۔ اب اسے ٹانکنا ہوگا۔‘‘ پھر اسے للچائی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بلاؤز کے باقی ماندہ دونوں بٹنوں کو بھی ایک ایک کر کھول دیے اور بلاؤز کو بدن سے الگ کر دیا۔ اسی لہر میں کولہوں پہ اٹکی پیٹی کوٹ بھی اتار پھینکی اور کسی فیشن شو کے ماڈل کی مانند بیڈروم میں کیٹ واک کرنے لگی۔ قدرے توقف کے بعد ترنگ میں آکے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کے انگڑائی لی نیز گردن کو پشت کی جانب جھکاتے ہوئے بدن کو کمان بنا لی۔ اس کے اس عمل سے سینے پر آباد کبوتروں کا جوڑا گھونسلے سے باہر آنے کو پھڑپھڑانے لگے۔ اس پر بھی نوجوان کی آنکھوں کا سمندر پر سکوت رہا،دور تک شہوت کی کوئی بھی لہر نہ تھی۔‘‘
استعیاق سعید نے اپنے اس افسانے کے ذریعہ زندگی کی تلخ حقیقت اور بے رحم سچائی کی حقیقی تصویر کوبہت ہی فنکاری اور کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس افسانے میں عورت کے دل کے درد و کرب ،جنسی مسائل اور سماجی حالات کی عکاسی بہت ہی آسان زبان اور سیدھے سادے پیرائے میں بیان کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ایک شخص اگر تین دنوں کا بھوکا اور پیاسہ ہے تو وہ پیٹ کی آگ کو پہلے بجھانے کی کوشش کرے گا۔ اس کے بعد وہ بدن کی آگ یا جسمانی لذت حاصل کرے گا۔ شگفتہ ایک خوبصورت عورت ہے جو دلکش ہے وہ پورے طور پر جنسی لذت حاصل کرنا چاہتی ہے یہاں تک کہ وہ برہنہ ہو جاتی ہے لیکن نوجوان کے اوپر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ یہ زندگی کی حقیقی سچائی ہے کہ خالی پیٹ بھجن بھی نہیں ہوتا ہے اور یہ سچ ہے کہ بھوک کشمیر کو بنگال بنا دیتی ہے ۔شگفتہ کے کردار کے ذریعہ انھوں نے عورتوں کی نفسیات اور جنسی مسائل کو جس خوبصورتی اور عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے وہ قابل ذکر و فکر ہے۔اس افسانے کا ایک اقتباس خاطر نشان ہو:
’’پلیز، ایک گلاس پانی پلا دیں‘‘۔
’’ہاں ہاں! کیوں نہیں‘‘۔ کہتے ہوئے وہ کچن کی جانب لپکی۔ ساتھ ہی زیر لب بدبداتی رہی’’ارے ظالم ! پانی کیا میں تجھے اپنی جوانی پلانے کی جستجو میں سراپا صراحی بن چکی ہوں۔۔لیکن ! تیرے لب ہیں کہ اس جانب بڑھتے ہی نہیں۔‘‘
وہ بجائے پانی کے شیشے کے شفاف گلاس میں شربت روح افزا لے آئی اور اس کی جانب بڑھاتے ہوئے عاجزانہ لہجہ میں بولی۔
’’معذرت چاہتی ہوں، میں مہمان نوازی کے فرض سے غافل رہی۔۔۔‘‘
وہ کسی تاثر کے بغیر اس کے ہاتھ سے گلاس تھام کر گٹ گٹ سارا شربت حلق سے نیچے اتار لیا اور اسے پر ممنون نگاہوں سے تکنے لگا۔
’’ایک گلاس اور لاؤں؟‘‘ اس نے اس کے دیکھنے کے انداز پر استفسار کیا۔
’’کچھ کھانے کو۔۔ بچا ہو تو۔۔۔۔۔ بہت تیز بھوک لگی ہے۔۔۔ تین دنوں سے کچھ کھایا نہیں ہے نا !‘‘۔
’’اف میرے خدا۔۔۔ میں بھی کیسی بیوقوف ہوں‘‘۔ کہتی ہوئی وہ کچن کی جانب دوڑی۔ چندلمحے توقف کے بعد ایک رکابی میں سالن اور دوسری میں تھوڑا سا چاول اور دو روٹیاں لیے حاضر ہوئی۔
’’لو تمھاری قسمت کا اتنا ہی بچا تھا‘‘۔

وہ دونوں رکابیاں اس کے ہاتھ سے تقریباً جھپٹتے ہوئے بولا۔’’زندہ رہنے کے لیے اتنا بہت ہے‘‘۔

پھر وہ کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑا جیسے مہینوں بعد اسے رزق میسر آیا ہو۔ اس کے کھانے کے اس ڈھنگ پر اس نے تاسف سے سوچا۔ کاش ایسے ہی اس پر ٹوٹ پڑتا اور اس کے بدن کو خوب نوچتا کھسوٹتا، اس کی جوانی کا ریشہ ریسہ ادھیڑ دیتا۔ بہرحال ! دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دونوں رکابیاں صاف کر دیں۔ اس دوران شگفتہ پانی کی بوتل کے علاوہ ایک عدد سیب اور دو کیلے رکھ کے ٹائلیٹ کی جانب چلی گئی تھی۔
پانی پی کے نوجوان نے ایک ڈکار لی اور اپنے پروردگار کا شکریہ ادا کیا۔ پھر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لی۔ شگفتہ جب لوٹی تو دیکھا سیب اور کیلے یوں ہی دھرے ہیں اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر آنکھیں موندے پڑا ہے۔ چند لمحات وہیں کھڑی اسے ہوسناک نگاہوں سے تکتی رہی پھر قدرے لہکتی آواز میں بولی۔’’ارے ! تم نے یہ پھل نہیں کھائے؟‘‘۔
کہانی بیان کرنے کے فن میں اشتیاق سعید کو مہارت حاصل ہے۔ ابتدا سے لے کر آخر تک وہ قاری کو دلچسپی اور استعجاب کی کیفیت فراہم کرتے ہیں۔ جس سے افسانے میں استعجاب کی کیفیت برقرار رہتی ہے اور شگفتہ کی ملامت اور افسوس پر افسانے کا خاتمہ بہت ہی شاندار لطیف پیرائے میں ہوتا ہے۔ جب شگفتہ کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جسم کی بھوک سے کہیں زیادہ مقدم پیٹ کی بھوک ہوتی ہے کیوں کی اسی بھوک کو مٹانے کے لیے اس کا شوہر بھی اس کے حسن و شباب اور گل بدنی کی لذت ترک کرکے روٹیاں بٹورنے کے واسطے کوئیت چلا گیا ہے جہاں شائد اس کو روٹی میسر ہو سکے۔ افسانے کا آخری اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’تقریباً گھنٹہ بھر بعد شگفتہ کی مدہوشی زائل ہوئی۔ اس نے فوراً خود کو جوان کے پہلوسے الگ کر لیااور خود کو پشیمانی کے گرداب میں محسوس کرنے لگی۔ کیونکہ اب اس پر یہ انکشاف ہو چلا تھا کہ بھوکے پیٹ جنت نشان کشمیر بھی قحط زدہ بنگال معلوم ہوتا ہے۔اس لیے جسم کی بھوک سے کہیں زیادہ مقدم پیٹ کی بھوک ہوتی ہے اور اسی بھوک کے چلتے اس کا شوہر بھی اس کے حسن و شباب۔۔۔ اس کی خوش بدنی کی لذت تیاگ کر دیار غیر میں روٹیاں بٹورنے گیا ہے۔‘‘
اشتیاق سعید نے اپنے اس افسانوی پیش کش میں اس شفاف حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ پیٹ کی بھوک جنسی بھوک سے زیادہ وجودیاتی اہمیت و معنویت رکھتی ہے۔ اشتیاق سعید معاصر افسانہ نگاروں میں ایسے تخلیقیت کشا اور تخلیقیت کیش افسانہ نگار ہیں جنھوں نے عورتوں کے جنسیاتی اور نفسیاتی حقائق و مسائل پر خامہ فرسائی کی ہے۔
٭٭٭٭٭

Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 71920 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.