میں نے کھانے کی ٹرے کھولی کانٹے سے گوشت کا ٹکڑا اٹھایا
ہونٹوں کے قریب لے کر آیا مگر منہ میں ڈالنے سے قبل رک گیا۔
مجھے محسوس ہوا یہ گوشت شاید حلال نہ ہو
میں نے یہ خیال آتے ہی کانٹا ٹرے میں رکھ دیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا
غیر ملکی ائیر لائینز میں یہ معاملہ روٹین ہے
یہ لوگ حلال حرام کی تمیز نہیں رکھتے چنانچہ ان کی خوراک بالخصوص گوشت میں
حرام کی گنجائش موجود ہوتی ہے
میں نے ٹرے آگے کھسکائی اور سیٹ کے ساتھ پشت لگا کر لیٹ گیا۔
میرے ساتھ درمیانی عمر کا ایک خوبصورت امریکی بیٹھا تھا۔
وہ مزے سے کھانا کھا رہا تھا ہم نیویارک سے شکاگو جا رہے تھے۔
میں نے ایک دن شکاگو میں رک کر آگے نکل جانا تھا۔
آپ کو انٹرنیٹ پر مختلف ”پے اینگ“ میزبان مل جاتےمل جاتے ہیں۔
آپ ویب سائیٹس پر جائیں اور کسی منزل کا نام ڈالیں۔
آپ سے مختلف فیملیز رابطہ کریں گی۔
یہ لوگ معمولی رقم لے کر آپ کو چند دنوں کےلئے اپنے گھر میں ٹھہرا لیتے
ہیں۔
آپ کو ان ویب سائیٹس پر ایسی فیملیز بھی مل جاتی ہیں جو آپ کو اپنے پاس فری
ٹھہرا لیتی ہیں۔
ان کا مقصد اجنبی لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے۔
یہ لوگ اجنبیوں کو اپنا گھر اپنا ٹاﺅن دکھانا چاہتی ہیں چنانچہ یہ لوگ اپنا
گھر سال میں چند دنوں کےلئے اجنبیوں کےلئے کھول دیتے ہیں۔
میں نے شکاگو سے دو گھنٹے کی مسافت پر ایک گاﺅں میں ایسا ہی خاندان تلاش
کیا تھا۔
یہ لوگ مکئی کاشت کرتے تھے اور سال میں ایک بار کسی ایشیائی باشندے کو اپنا
مہمان بناتے تھے۔
میں نے انٹر نیٹ پر اس خاندان کو تلاش کیا اور اب میں نیویارک سے ان کے پاس
ٹھہرنے اور شکاگو کی دیہاتی زندگی کو انجوائے کرنے جا رہا تھا لیکن جہاز
میں حلال خوراک کا ایشو بن گیا۔
میں نے لمبی سانس لی اور آنکھیں بند کر لیں ” برادر یہ کھانا حلال ہے آپ
کھا سکتے ہیں“
یہ فقرہ اچانک میری سماعت سے ٹکرایا میں نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں میرا ہم
سفر امریکی مسکراتی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔
اس نے میری آنکھوں میں حیرت پڑھ لی وہ دوبارہ بولا آپ کا کھانا حلال ہے۔
آپ اطمینان سے کھا سکتے ہیں۔
میں نے اس سے پوچھا آپ یہ دعوے سے کیسے کہہ سکتے ہیں۔
اس نے اپنا کانٹا نیچے رکھا میری ٹرے سے کھانے کا ریپر اٹھایا اور اس کے
کونے پر انگلی رکھ دی۔
ریپر پر سبز لفظوں میں حلال لکھا تھا۔
میں حیران ہو گیا میں نے اطمینان سے کھانا شروع کر دیا کھانے کے دوران میں
نے اس سے اس کے وطن کے بارے میں پوچھا اس نے جواب دیا ” میں امریکی ہوں‘
آرلینڈو میں رہتا ہوں“
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ” کیا آپ مسلمان ہیں“ اس نے بلند آواز میں ”الحمد
اللہ“ کہا اور پھر بولا ” میں نے سات سال قبل اسلام قبول کیا تھا" میں آج
کل عربی سیکھ رہا ہوں“
میری حیرت میں اضافہ ہو گیا میں نے اس سے پوچھا ” لیکن امریکن ائیر لائین
میں حلال کھانا کیسے آ گیا“
وہ مسکرایا اور نرم آواز میں بولا ” میں جب بھی ہوائی سفر پر نکلتا ہوں میں
ائیر لائین کے کچن میں فون کر کے پانچ حلال کھانوں کا آرڈر کر دیتا ہوں“
میں نے پوچھا ” پانچ کیوں؟“
اس کا جواب بہت دلچسپ تھا
اس کا کہنا تھا ” امریکن ائیر لائین میں عموماً چار پانچ مسلمان مسافر ہوتے
ہیں۔
میں مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کا مسئلہ سمجھتا ہوں۔
میں جہاز میں سوار ہو کر عملے کی مدد سے مسلمان مسافروں کو تلاش کرتا ہوں
اور بعد ازاں یہ حلال کھانا انہیں پہنچا دیتا ہوں۔
میں جب فلائیٹ میں سوار ہوا تو میں نے لسٹ میں آپ کا نام پڑھ لیا چنانچہ
میں نے آپ کےلئے حلال خوراک کی درخواست کر دی اور یوں آپ کو بھی حلال کھانا
فراہم کر دیا گیا“
میں نے اس سے پوچھا ”لیکن جہاز کا عملہ آپ کو مسافروں کی لسٹ کیوں دے دیتا
ہے“
اس نے قہقہہ لگایا اوربتایا ”میں ایف بی آئی میں کام کرتا ہوں۔
میرا سروس کارڈ یہ مرحلہ آسان بنا دیتا ہے“۔
وہ عبداللہ تھا۔ اس کا پرانا نام ایڈم تھا۔
وہ آرلینڈو کا رہنے والا تھا مگر ان دنوں وہ نیویارک میں کام کر رہا تھا،
ٹریننگ کےلئے شکاگو جا رہا تھا۔
اس کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بھی اس کی شخصیت کی طرح حیران کن تھا،
اس نے بتایا، وہ ٹیلی کام انجینئر تھا،
وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا تھا،
اس کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا۔
والد دہریہ تھا،
وہ بوڑھا ہو کر اولڈ پیپل ہوم میں پڑا تھا،
اس کا اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ جھگڑا ہوا،
یہ جھگڑا طول پکڑ گیا،
وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوا اور اس ڈپریشن نے اسے شراب،کوکین اور چرس کا
عادی بنا دیا۔
وہ چوبیس گھنٹے نشے میں ڈوبا رہتا،
اس کی راتیں شراب خانوں میں گزرتیں،
وہ دھت ہو کر شراب خانے میں گر جاتا اور شراب خانے کے ملازمین اسے اٹھا کر
فٹ پاتھ پر پھینک جاتے،
وہ اگلے دن اٹھتا تو گرتا پڑتا گھر پہنچتا۔
اس کی نوکری چلی گئی،اس کے سارے اثاثے بک گئے،اس پر دوست احباب کا قرض چڑھ
گیا اور وہ پوری دنیا میں تنہا رہ گیا،
وہ بری طرح برباد ہو چکا تھا لیکن پھر اس کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا،
وہ ایک رات نشے میں دھت ہو کر شراب خانے میں گرا شراب خانے کے سٹاف نے اسے
اٹھایا اور فٹ پاتھ پر لٹا دیا،
وہاں سے ایک نوجوان گزرا اس نے اسے اٹھایا وہ اسے اپنے فلیٹ میں لے آیا،
گرم تولئے سے اس کا جسم صاف کیا صاف سلیپنگ سوٹ پہنایا اور اسے صاف بستر پر
لٹا دیا صبح اس کی آنکھ کھلی تو اس نوجوان نے اسے ناشتہ کرایا،
اپنے کپڑے پہنائے اور اسے اس کے فلیٹ پر چھوڑ آیا،
وہ اس رات دوبارہ شراب خانے گیا،
اسے اس رات بھی حسب معمول فٹ پاتھ پر لٹا دیا گیا،
وہ نوجوان دوبارہ آیا، اسے اٹھایا اور اپنے فلیٹ پر لے گیا اور اس کے بعد
یہ معمول بن گیا،
وہ روز رات کے آخری پہر فٹ پاتھ پر گرا دیا جاتا،
وہ نوجوان آتا اور اسے اٹھا کر لے جاتا،
یہ اس اجنبی نوجوان کے ساتھ بدتمیزی بھی کرتا لیکن وہ ہٹ کا پکا تھا،
وہ مسکراتا رہتا اور اس کی خدمت کرتا رہتا،
اس سارے عمل کے دوران معلوم ہوا، وہ نوجوان فلسطینی مسلمان ہے۔
وہ پیزا ہٹ پر کام کرتا ہے اور فارغ وقت میں اس بگڑے ہوئے امریکی کی خدمت
کرتا ہے،
یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ دونوں دوست بن گئے۔
ایڈم فلسطینی نوجوان عبداللہ کے رویئے اور خدمت سے متاثر ہوا اور آہستہ
آہستہ اسلام کے حلقے میں داخل ہونے لگا اور پھر ایک دن اس نے اسلام قبول کر
لیا۔
یہ اس کہانی کا ایک باب تھا۔
کہانی کا اگلا باب اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا۔
ایڈم نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام عبداللہ رکھا اور اسلام کا مطالعہ
شروع کر دیا،
مطالعے کے دوران اسے معلوم ہوا اسلام میں والدین کا بہت مقام ہے۔
والدین کی خدمت کرنے والے لوگ جنتی ہوتے ہیں۔
یہ معلوم ہونے کے بعد عبداللہ سیدھا اولڈ پیپل ہوم گیا اور اپنے والد کو
اپنے گھر لے آیا،
اس کا والد کینسر کے مرض میں مبتلا ہو چکا تھا
وہ دہریہ تھا وہ کسی مذہب اور خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا،
اس نے پوری زندگی کوئی عبادت کی اور نہ ہی کسی مذہب کا مطالعہ۔
اس نے بس گستاخی میں پوری عمر گزار دی،
عبداللہ ایڈم والد کو گھر لے آیا اور اس نے والد کی خدمت شروع کر دی،
وہ ایک سٹور میں چار گھنٹے کام کرتا اور اس کے بعد گھر آ کر اپنے فلسطینی
دوست کے ساتھ مل کر والد کو نہلاتا تھا،
وہ اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا بھی کھلاتا تھا۔
اسے ویل چیئر پر بٹھا کر سیر کے لئے بھی لے جاتا تھا۔
وہ اسے کتابیں پڑھ کر سناتا تھا اور اس کی باتیں سنتا تھا۔
والد کےلئے یہ رویہ عجیب تھا۔
امریکا میں بچے اپنے والدین کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتے،
وہاں والدین کی آخری عمر ہمیشہ تنہائی اور اولڈ پیپل ہوم میں گزرتی ہے لیکن
نو مسلم عبداللہ نے یہ روایت بدل دی۔
اس نے والد اور والد کے دوستوں کو حیران کر دیا۔
یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ والد کینسر کی آخری سٹیج پر پہنچ کر ہسپتال
داخل ہو گیا۔
عبداللہ ہسپتال میں بھی والد کی خدمت کرتا رہا،
اس خدمت کا یہ نتیجہ نکلا اس کا وہ والد جس نے زندگی بھر اللہ کے سامنے سر
نہیں جھکایا تھا، اس نے انتقال سے چھ ماہ قبل اسلام قبول کر لیا
وہ ایمان کی حالت مین دنیا سے رخصت ہوا،
والد کے انتقال کے بعد عبداللہ نے مختلف جابز کیں، وہ ان نوکریوں سے ہوتا
ہوا ایف بی آئی میں پہنچ گیا۔
وہ اس وقت میرے ساتھ بیٹھا تھا،
وہ مسلمان تھا مگر اس کا حلیہ مسلمانوں جیسا نہیں تھا،
وہ حلئے سے امریکی لگتا تھا۔
میں نے اس سے پوچھا ”آپ نے داڑھی کیوں نہیں رکھی“ اس نے اس سوال پر ایک
عجیب انکشاف کیا،
اس نے بتایا ”ہم نے امریکا میں تبلیغ کا ایک نیٹ ورک بنا رکھا ہے، ہم لوگ
اپنا حلیہ نہیں بدلتے ہم امریکا میں امریکی بن کر زندگی گزارتے ہیں ہم غیر
مسلموں کو صرف
اپنے رویئے خدمت اور محبت سے مسلمان بناتے ہیں“
میں نے اس سے عرض کیا
لیکن آپ یہ کام داڑھی رکھ کربھی کرسکتے ہیں۔
عبداللہ نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا
”ہاں لیکن ہمارا خیال ہے ہم نے اگر اسلامی حلیہ اپنا لیا تو شاید امریکی
لوگ ہمارے قریب نہ آئیں اور تبلیغ کیلئے دوسرے فریق کا آپ کے قریب آنا
ضروری ہوتا ہے“
میں نے اس سے پوچھا آپ کی یہ تکنیک کس حد تک کامیاب ہوئی۔
اس نے ہنس کر جواب دیا ” ہم الحمداللہ اس تکنیک سے سینکڑوں لوگوں کو مسلمان
بنا چکے ہیں"۔
|