سیاست ایک ایسی گیم ہے جس میں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ آنے
والے دن میں کیا ہوگا ؟ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میاں نواز شریف کی
باہر ممالک میں کھربوں روپے کا حساب ان کو ایک دن دینا پڑے گا وہ بھی اپنی
ہی حکومت میں ۔ پناما لیکس انکشاف اور عمران خان کا کرپشن کے خلاف جدوجہد
نے ان کی سیاست ہی ختم کرڈالی ۔ پناما کے بعد پوری نون لیگ حکومت کی بھر
پورا کوشش تھی کہ کسی طرح ان سے چھٹکارا مل جائے جس کیلئے انہوں نے ججز کو
خریدنے سے لے کر عالمی ممالک امریکا ، برطانیہ ،سعودی عرب اور دبئی وغیرہ
کی حکومتوں سے مدد اور سمجھتوں کیلئے سرتوڑ کوشش کی لیکن اس میں ان کو کوئی
ایسی کامیابی نہیں ملی جس سے ان کی جان چھوٹ سکیں ۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے
یورپ اور امریکا میں یہاں تک پروپیگنڈا کیا کہ عمران خان تو طالبان خان ہے
ان کی سوچ اسلامی ہے لیکن ہم لبرل یعنی دین سے آزاد ہے۔ ان سب کوششوں کے
باوجود ہاتھ میں کچھ نہ آیا تو نجانے عالمی دنیا کو خوش کرنے یا اپنی سیاسی
بقا کی جنگ میں انہوں نے ناموس رسالت قانون کو چھڑا اور اس میں ترمیم کی
کوشش کی ۔ اس ترمیم کی کوشش پر میں کچھ حقا ئق اپنے قارئین کے سامنے لانا
چاہتا ہوں ۔ کسی بھی قانون میں تبدیلی یا نئے قانون بنانے کا طریقہ یہی
ہوتا ہے کہ جس طرح انہوں نے ابھی الیکشن بل میں ترمیم کیلئے کیا کہ حکومت
نے بل لایا جس کیلئے قومی اسمبلی کی کمیٹی بنی اس کمیٹی میں ان کی
تجویزکردہ نکات پر بحث ہوئی جس میں اپوزیشن کی ساری جماعتوں کی نمائندگی
بھی تھی اپوزیشن نے اپنی تجویز بھی دی جس پر کچھ تجاویزپر عمل اور بعض کو
ری جیکٹ کیا گیا یعنی پی ٹی آئی کی جانب سے تجاویز آئی کہ الیکشن کمیشن
مکمل بااختیار کیا جائے، بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق
دیا جائے ، الیکشن کو جدید طریقے یعنی بائیومیٹرک سسٹم سے کرایا جائے اور
دوسرے تجاویز بھی دیے جس کو حکومت نے نہیں ماننا۔ اس بل میں موجود تمام
نکات پر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے بحث بھی ہوئی ۔ اس بل میں بعد ازاں
چھپ کر حکومت نے ختم نبوت قانون میں ترمیم بھی ڈالی جس کو ڈسکس ہی نہیں کیا
گیا۔ بعد ازاں اس کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں لایا گیا سینٹ میں جمعیت
علما اسلام کے سینیٹر حمداﷲ نے اس کو دیکھ کر تھوڑی بات کی کہ اس میں ختم
نبوت کو کیوں شامل کیا گیا اس طرح قومی اسمبلی میں شیخ رشید نے بات کی اور
بعدازاں معلوم ہونے پر پی ٹی آئی کے دو تین ارکان نے بات کی لیکن یہاں یہ
بات قابل ذکر ہے کہ اس بل کے حق میں جمعیت علما اسلام سمیت سب نے دستخط اور
ووٹ کیا لیکن تحریک انصاف نے اس کا بائیکاٹ کیا ۔ بعد میں جب یہ میڈیا اور
خاص کر سوشل میڈیا میں یہ بات آئی تو عوام کی جانب سے اس پر کافی ری ایکشن
آیا جس پر حکومت نے اس بل میں ترامیم واپس کرنے اور کمیٹی بنانے کا اعلان
کیا ۔ قومی اسمبلی نے اس میں ختم نبوت کے حوالے سے قانون میں تبدیلی کو
واپس کیا جبکہ نون لیگ کے سینئر رہنما راجہ ظفرالحق کے سربراہی میں بننے
والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ بھی بنائی جو تاحال حکومت نے عام نہیں کی۔
بعدازاں مذہبی جماعتوں اور دوسری سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر خاصہ
ردعمل بھی آیا تحریک لبیک کے سربراہ پروفیسر اشرف جلالی نے اسلام آباد میں
9دن کا دھرنا بھی دیا حکومت سے مذاکرات کے بعد اس دھرنے کو ختم کیا گیا جس
میں طے پایا کہ وزیرقانون زاہد حامد اور صوبائی رانا ثنااﷲ استعفے دینگے
اور راجہ ظفرالحق رپورٹ کو عام کیاجائے گا جس میں29اکتوبرکو20 دن کا وقت
دیا گیا لیکن اس دھرنے کے بعد تحریک لبیگ کے باغی گروپ خادم حسین نے دوسرا
دھرنا دیا جس کی تعداد پہلے والے سے بہت کم تھی لیکن انہوں نے راولپنڈی
اسلام کا مین سڑک کو بند کر دیا جس پر پندرہ دن تک ٹریفک کانظام اور عام
لوگوں کو شدید تکلیف بھی ہوئی ، نظام زندگی بالکل مفلوج ہوگئی تھی جس
پراسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیا تو حکومت جاگی ۔ یہاں یہ بھی حقیقت ہے
کہ دھرنے والوں نے دوتین راستے بند کیے تھے جبکہ حکومت نے پورا اسلام آباد
ہی کنٹینروں سے بند کیا تھا ۔ حالات اس وقت تبدیل ہوئے جب دھرنا مظاہرین پر
پولیس کی جانب سے تشدد شروع ہوا اور نون لیگ حکومت نے سوشل میڈیا سمیت
الیکٹرونگ میڈیا کو بھی بند کردیا جس سے افواہوں نے جنم لینا شروع کیا اور
عام مسلمانوں میں جن کا تعلق اس دھرنا سے نہیں تھا انہوں نے نہ صرف مری روڈ
راولپنڈی میں بلکہ پورے ملک میں حکومت کیخلاف احتجاج شروع کیا اور حکومتی
وزیروں اور ممبران کے گھروں پر حملے بھی شروع ہوئے جسکی وجہ سے حکومت نے
فوج سے مدد مانگی اور وزیراعظم ،آرمی چیف سے ملے اور مسئلے کاحل اور حالات
کو کنٹرول کرنے کی درخواست کی،جس کو فوج نے مان کر دھرنے والوں سے مذاکرات
کرکے مسئلے کو حل کردیا ۔
لیکن بعدازاں حکومت اور ان کے حواریوں کی جانب سے فوج کے خلاف پروپیگنڈا
شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ۔ اس تمام مسئلے میں ایک طرف حکومت کی ناکامی
اور نااہلی نظرآئی تو دوسری طرف یہ بات سب پر عیاں ہوئی کہ پاکستان کے
مسلمان ختم نبوت قانون میں کسی قسم کی تبدیلی برداشت نہیں کرسکتے اور اس
کیلئے اسلامی پارٹیوں سے زیادہ عام مسلمان اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار
ہے جوہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے۔ حکومت کی نااہلی دیکھیں کہ اس قانون میں
تبدیلی کرنے والوں کے خلاف آج تک خود کوئی کارروائی نہیں کی اور راجہ
ظفرالحق رپورٹ کو بھی عام نہیں کیا بلکہ آج بھی لاہور میں اس حوالے سے
دھرنا جاری ہے۔اس رپورٹ میں اورسازش کے پیچھے خاتون وزیرانوشہ رحمن کا نام
بھی لیا جارہاہے کہ انہوں نے اس قانون میں تبدیلی کی تھی جس کے پیچھے نون
لیگ قیادت کھڑی ہے۔
نواز شریف نااہلی کے بعد نون لیگ کی بحیثیت پارٹی بچنا کچھ ممکن تھا لیکن
ختم نبوت کے قانون میں سیاست کی وجہ سے ترمیم کرکے بچنا اب مجھ مشکل ہی نظر
آرہاہے انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ۔اب ان کی حکومت ہے ۔ممبران کو اربوں فنڈز
دیے جارہے ہیں لیکن کل جب یہ حکومت ختم ہوجائے گی تو یہ پارٹی نہیں رہے گی
۔ ان کا خاتمہ اب دور نہیں ہے ۔ جب دوسری طرف اب یہ پوری قوم کی آواز ہے کہ
اس ترمیم میں ملوث لوگوں کو نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ ان کو سخت سے سخت
سزا بھی دی جائے تاکہ آئندہ کسی کی جرات ایسی ترمیم کی نہ ہوسکے۔ |