اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے داعی ڈاکٹر سید نزیر گیلانی کا انٹرویو

اقوام متحدہ میں نمائندگی کی حامل ''جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس'' کے سربراہ ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے کہا ہے کہ امریکہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا بڑا داعی رہا ہے،اب وہ کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کا ساتھ نہیں دے سکتا،عالمی مسئلے کے طور پر کشمیر اور فلسطین میں کوئی فرق نہیں، کشمیریوں کا قتل عام حق خود ارادیت کے قتل کی مہم ہے۔ہندوستان نے کشمیریوں کو قتل کرنے پر لاکھوں کے انعام رکھے ہیں،ہندوستان منصوبہ بندی سے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ کی قرار دادیں ہی مسئلہ کشمیر کی جان ہیں اور کشمیریوں کے ہاتھ میں واحد ہتھیار ہیں ، وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روایتی تقریر سے ہٹ کر اچھا خطاب کیا ہے، پاکستان کا یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی ،سفارتی ،اخلاقی مد د کرتاہے ، پاکستان کو آزاد کشمیر میں موجودگی کا جواز اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں،پاکستان نے اقوام متحدہ کی قرارردادوں کی روشنی میں آزادکشمیر کے ساتھ آئینی اشتراک کیا ہے ، آزاد کشمیر کے صدر وزیر اعظم اپنے آئینی مینڈیٹ کا ادراک کریں۔

مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے ایک پینل انٹر ویو میں کہا کہ اقوام عالم نے شماری کرانے کے لئے طے کر کے ایک پروگرام دیا ،اس پر ہندوستان اور پاکستان آمادہ تھے،دونوں ملکوں نے تحریری طور پر لکھ کر دیا اور دونوں ملکوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر میں رائے شماری کرانے کے اپنے عہد کی تجدید کی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کشمیر میں رائے شماری کرائے جائے،اب جو لوگ اس سے ہٹتے ہیں اور آئوٹ آف باکس،انڈر دی باکس،اوور دی باکس کی بات کرتے ہیں، ان کی بات کرنا بلاجواز ہے۔ہمیں ذمہ داری سے یہ دیکھنا ہے کہ کشمیر میں رائے شماری اپریل سے اکتوبر 1949 میں ہونا تھی ،آخر ان چھ ماہ میں ایسی کون سی قیامت آئی کہ کشمیر میں رائے شماری نہ ہو سکی،پہلی قیامت یہ ہوئی کہ رائے شماری کا ایڈمنسٹریٹر امریکی ایڈمرل مقرر ہوا ،کمیشن میں شامل چند ممالک نے کہا کہ یہ جانبدار ہے،امریکہ کیوں مداخلت کرے،رائے شماری کا ایڈمنسٹریٹر غیرجانبدار ہو،ہندوستان نے بھی امریکی ایڈمنسٹریٹر کے تقرر پر اعتراض کیا ۔ ایڈمنسٹریٹر کے لئے دوسرا نام عالمی ریڈ کراس کے صدر کا نام آیا۔اگر اس وقت ہم نے اس بات پر ،اگر ہم اس وقت امریکی ایڈمنسٹریٹر کے تقرر پر اعتراض کرتے اور عالمی ریڈ کراس کے صدر کی تعیناتی ہوتی تو رائے شماری ہو چکی ہوتی،کیونکہ ہندوستان کو عالمی ریڈ کراس کے صدر کو ایڈمنسٹریٹر رائے شماری بنانے پر کوئی اعتراض نہ تھا،انہیں اعتراض امریکی تقرر پر تھا،کیونکہ اس وقت انڈیا اور امریکہ کے تعلقات خراب تھے۔نہرو نہیںچاہتا تھا کہ رائے شماری میں امریکہ کی کسی قسم کی مداخلت ہو،نہرو رائے شماری چاہتا تھا لیکن امریکہ کی نگرانی میں نہیں۔یہ پہلی غلطی ہوئی ہم سے کہ عالمی ریڈ کراس کے صدر کو جو غیر جانبدار تھا،اس کے مقابلے میں ہم نے امریکہ کے شہری ایڈمرل چنا جس نے نو سال تک کچھ کام نہیں کیا ۔اور اس پرکولمبیا نے سخت اعتراض کیا کہ امریکی ایڈمنسٹریٹر کے تقرر سے ہندوستان رائے شماری سے پیچھے ہٹ جائے گا،ہندوستان کو ہٹنے نہ دیں،عالمی ریڈ کراس کے صدر کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جائے۔کولمبیا نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ یہ کشمیریوں کے ساتھ اچھی بات نہیں کی جا رہی کہ نیو ٹرل آدمی کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکن شہری کو ایڈ منسٹریٹر بنا یا جائے۔اگر اس وقت ہم سمجھدار ہوتے ، ہماری ڈپلومیسی اچھی ہوتی اور سفارت کاری میں وژن ہوتا ،ظاہر ہے کہ1948میں پاکستان کے سفیر سیکھنے کے مرحلے میں ہی تھے،اس وقت کے بارے میں زیادہ اظہار نہیں کر سکتا ،ہر زمانے کا اپنا ایک علم ہوتا ہے،اپنا نظرئیہ ہوتا ہے ۔دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ہندوستان کہتا تھا کہ ہم کشمیر میں اپنے اکیس ہزار فوجی رکھیں گے،یو این نے کہا کہ نہیں ہندوستان کی فوج بارہ سے سولہ ہزار رکھی جائے،پاکستان نے کہا کہ اٹھارہ ہزار رکھیں،یہ اٹھارہ اور کیس کا جھگڑا تھا،اس وجہ سے آج مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی دس لاکھ فوج ہے۔ہندوستان کے تین ہزار زیادہ فوجی ہمارا کیا بگاڑ سکتے تھے۔اس وقت پونچھ کے لوگ جنگ عظیم دوم سے واپس آئے تھے اسلحہ لیکر۔اس وقت پونچھ میں بہت اسلحہ تھا۔یہ دو بنیادی نکتے ہیں جن کی وجہ سے رائے شماری کا عمل رک گیا۔ اس کے بعد ہم نے ہندوستان کے پہئیے کو چلنے دیا اور ہندوستان کا پہیہ1948سے اب تک نہیں رکا۔جبکہ ہم رکے ہوئے ہیں ،ہمین کچھ پتہ نہیں کہ ہمیں کس طرف جانا ہے۔

ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے کہا کہ امریکہ پہلے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا لیڈر تھا، فرنٹ لائین پہ تھا۔ہم نے امریکہ کے اس رول کو سامنے رکھ کر امریکن لوگوں کو یاد دلانا ہے کہ آپ لوگ تو ہمیں اگست1951میں عالمی عدالت انصاف(ICJ)میں لیجانا چاہتے تھے ، امریکہ کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف میں ہندوستان کے اس استدلال کو منہدم کرائیں گے کہ ہندوستان کا کشمیر سے الحاق ہوا ہے۔ہمیں امریکہ کو اس تناظر میں چیلنج کرنا ہے امریکہ صرف ٹرمپ نہیں ہے اگلے دوسالوں میں وہ ہو گا ہی نہیں کہیں۔کوئی اور صدر بن جائے گا۔امریکن کشمیر اشو پہ ہمارے حامی رہے ہیں،جتنی ان کی حمایت رہی ہے ،اسے ہمیں آگے لانا ہے ۔امریکہ آج بدل نہیں سکتا،بیچ دریا امریکہ اپنے گھوڑے تبدیل نہیں کر سکتا ۔آپ امریکہ کو گھوڑے بدلنے کی اجازت نہ دیں۔یہ ڈپلومیسی ہے ۔امریکہ کے اس 1951ء کی اس دستاویز کی وسیع پیمانے پر تشہیر کریںکہ یہ ہمیں ICJمیں لیجانا چاہتے تھے،آج کیسے امریکہ ہندوستان کے ساتھ ہو گیا ہے۔یہ بہت اہم ہے۔وہ چاہے جو بھی کریںلیکن امریکہ میں ایک قوم بھی تو ہے ،ان کی کانگریس ہے ،ان کی سینٹ ہے ،ان کے تھنک ٹینکس ہیں،ان سب لوگوں میں اس حوالے سے سرگرم مہم چلانی چاہئے،امریکی مشکل میں پڑ جائیں گے،کہ اس وقت امریکہ ہندوستان کے کشمیر سے الحاق کو ختم کرانا چاہتا تھا تو آج کیسے ہندوستان کی حمایت کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے اس مرتبہ جنرل اسمبلی میں جو تقریر کی ،وہ پچھلی دو تقریروں سے مختلف تھی،اس کی کوئی وجہ ہو گی۔کشمیریوں نے انہیں لکھ بھیجا ہو گا کہ ہر مرتبہ کی تقریر روائیتی طور کی جاتی ہے۔اگر ہر مرتبہ الفاظ اوپر نیچے کر کے تقریر کی جاتی ہے تو اس سے دنیا کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔اس دفعہ اچھی تقریر تھی۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں جذبات ہو سکتے ہیں،اس میں ہمدردی ہو سکتی ہے لیکن ہمیں (کشمیریوں کو) جذبات اور ہمدردی کے ساتھ ساتھ حکمت چاہئے ،جو عالمی مارکیٹ میں بکتی ہے ،کیونکہ اقوام متحدہ،سلامتی کونسل میں آنسو نہیں چلتے وہاں حکمت چلتی ہے،حکمت یہ ہے کہ آپ کو قوام متحدہ کی قراردادوں کو پڑہنا ہے ،جس نے کبھی یونائیٹڈ نیشنز کے سپیلنگ نہیں معلوم ،وہ بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر بحث کرتا ہے۔یا تو آپ نے یہ قرار دادیں پڑھی ہیں تو پھر آپ بحث کریں کہ پرانی ہو گئی ہیں،اگر پرانی ہو گئی ہیں تو ہندوستان تو دوسرے دن پاکستان سے کہے گا کہ آزاد کشمیر کو خالی کر دو یہ ہمارا علاقہ ہے۔پاکستان کو آزاد کشمیر میں موجودگی کا جواز اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔جو لوگ اس فلسفے کو آگے لیجا رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرار دادیں پرانی ہو گئی ہیں کچھ اور راستہ نکالیں،وہ پاکستان کے گلے میں پھندا ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ اسے گھسیٹا جائے ۔پاکستان کو سیاسی سطح پر اسے '' ریوائز'' کرنا چاہئے،اگر یہ سفارتی سطح پر ہے تو ان کو اس پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہپاکستان کا فارن آفس کشمیریوں کا فارن آفس نہیں ہے،اگر سمجھا جاتا تو کشمیریوں کی مشاورت شامل ہوتی ۔یہ اسلامی مملکت پاکستان کا فارن آفس ہے ،یہ کشمیریوں کا فارن آفس نہیں ہے ۔یہ ہمارے وکیل کا فارن آفس ہے ۔یہ مسئلہ کشمیر کے ایک فریق پاکستان کا فارن آفس ہے۔ہر کشمیری کی یہی کوشش ہے کہ ہندوستان سے کیسے جان چھڑائی جائے۔اس کے بعد تو میراایک ہی ووٹ ہے۔اگر پاکستان کشمیریوں کو مشاورت میں شامل کرتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا فارن آفس۔اگر مشاورت کے معاملے میں ہم اجنبی ہیں ،مشاورت میں شامل نہیں ہیںتو یہ کشمیریوں کا فارن آفس نہیں ہے۔یہ کشمیریوں کا فارن آفس پھر ہو گا کہ جب کشمیری آئین کے آرٹیکل257کے ساتھ پاکستان سے الحاق کریں گے ۔ ایک سوال کے جواب میںانہوںنے کہا کہ پاکستان کس حد تک کشمیریوں کی سیاسی ،سفارتی اور اخلاقی مدد کر رہا ہے،اس بات کا فیصلہ کشمیری اصحاب رائے نے کرنا ہے۔کشمیریوں کی رائے میں جو امور قابل اعتراض ہیں اس بارے میں فارن آفس سے ملاقات کی جائے اور اپنے اعتراضات ان کے سامنے لائے جائیں۔کشمیر کے مسئلے سے بنیادی طور پر کشمیری مصائب اٹھا رہے ہیں،فارن آفس اس معاملے کو تکنیکی طور پر ہی دیکھے گا۔انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان کی ترجیحات میں مسئلہ کشمیر بہت نیچے چلا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان آزاد کشمیر کے ایکٹ 1974 ،جسے کئی لوگ پسند نہیں کرتے ہیں ،کہتے ہیں کہ یہ غلامی کی دستاویز ہے۔لیکن میں ایکٹ74ء کو دوسرے اینگل سے دیکھتا ہوں کہ ایکٹ74ء کے ذریعے پاکستان نے آزاد کشمیر میں حکومت آزاد کشمیر کے ساتھ ایک دستوری شراکت کی ہے،اس دستوری شراکت کی انہوں نے جو وجہ بتائی ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان کی ذمہ داری کے تحت ۔پاکستان نے کہا کہ ہم آزاد کشمیر کے ساتھ دستوری شراکت کر رہے ہیں تاکہ اقوام متحدہ کے تحت دی گئی ذمہ داری کو ہم پورا کریں۔یہ پاکستان کو ایک'' فٹ ہولڈ'' ملا ہے ،پائوں جمانے کے لئے ایک قانونی اور بین الاقوامی جواز ہے ۔ورنہ ہندوستان کہے گا کہ آپ کس لئے آزاد کشمیر میں بیٹھے ہیں۔ رائے شماری کی ذمہ داری آزاد کشمیر حکومت کی نہیں بلکہ سرینگر حکومت کی ہے ۔اقوام متحدہ نے سرینگر کی حکومت کو رائے شماری کی غرض سے با اختیار( جو فیصلے کر سکے) حیثیت دی ہے ،اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کے حوالے سے کشمیر میں الگ حکومت بنے گی ، مقبوضہ کشمیر میں قائم موجودہ اسمبلی نہیں۔کشمیر کی جو حکومت رائے شماری کے لئے ذمہ دار بنے گی اس میں آزاد کشمیر کی بھی نمائندگی ہو گی ۔جب وہ حکومت بنے گی تو ظاہر ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق ہے ،اس کو یہ دیکھنے کا حق ھاصل ہو گا کہ اس میں سب کی نمائندگی ہے یا نہیں ۔اس حد تک ہی کام ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں عملدرآمد کیا جائے لیکن پہلا کام یہ تھا کہ سرینگر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق تشکیل دی جائے ۔اس کا بڑا فائدہ یہ تھا کہ کشمیر میں ہندوستان کا اثر ختم ہو جاتا۔اقوام عالم کی مداخلت ہو جاتی ،پاکستان کی بھی جائز مداخلت ہو جاتی۔ہر ملک کو یہ دیکھنے کا حق تھا کہ حق خود ارادیت کے حوالے سے کشمیر کی حکومت صحیح طور تشکیل دی جائے۔ہم نے کبھی کشمیر میں اس حکومت کے قیام کا مطالبہ نہیں کیا کہ رائے شماری کے لئے ذمہ دار حکومت تشکیل دی جائے۔اقوام متحدہ کی قرار دادیں ہی مسئلہ کشمیر کی جان ہیں اور کشمیریوں کے ہاتھ میں واحد ہتھیار ہیں ۔اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے علاوہ کشمیری عوام کے ہاتھ کچھ بھی نہیں۔یہی قرار دادیں ہیں جو کشمیریوں کو ایک ''لیگل پرسینلٹی'' دیتی ہیں اور ہمیںایک جواز فراہم کرتی ہیں اور کشمیریوں کے حق کو تسلیم کرتی ہیں۔ورنہ ہندوستان اور پاکستان آئندہ سو سال بھی یہی کہتے رہیں گے کہ بات کرنی ہے یا نہیں کرنی۔

کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بنیاد عدد ہے کوبیک کی آزادی اس لئے نہیں ہوئی کہ ان کے حق میںتقریبا چون ہزار ووٹ کم ہو گئے،وہ کینڈا سے الگ ریاست ہو جاتی۔کشمیر میں سوا لاکھ لوگ مر گئے اور روز مر رہے ہیں،اس کا مطلب یہ ہے کہ حق خود ارادیت کا ایک ایک انگ مارا جا رہا ہے۔ایک لاکھ لوگوں کو مارنا حق خود ارادیت کا قتل ہے۔اس قتل کے خلاف ہم نے جدوجہد کرنی ہے اور ہندوستان کا جرم ثابت کرنا ہے۔اگر حکومت پاکستان کشمیریوں کے قتل عام پر بے رخی برتے گی تو حق خود ارادیت مر گیا پھر۔حکومت پاکستان کو ٹھوس اقدامات کرنے ہیںبین الاقوامی سطح پر۔ہندوستان بات کرے یا نہ کرے لیکن ہندوستان کو کشمیرمیں روزانہ ایک معمول کے طور چار پانچ ،دس کشمیریوں کو مارنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔یہ قتل عام،جو قتل غارت گری کا سلسلہ ہندوستان نے شروع کر رکھا ہے،اس کے خلاف میری اپیل ہے پاکستانی عوام سے بھی اور پاکستان میں مقیم کشمیریوں اور آزا کشمیر کے باشندوں سے بھی کہ وہ اس بات کا فوری بوٹس لیں کہ منصوبہ بندی سے کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے ،کشمیری نوجوانوں کو مارنے کی قیمت طے کی گئی ہے۔کشمیریوں کو پانچ کیٹگری میں تقسیم کرتے ہوئے کشمیریوں کو مارنے پر لاکھوں میں انعامی رقوم دی جاتی ہیں۔کشمیریوں کو اس طرح مارنے پر پاکستان کو فوری طور یہ معاملہ ہر سطح پر اٹھانا چاہئے۔اس معاملے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کشمیریوں کو پانچ درجوں میں تقسیم کر کے انہیں مارنے پر لاکھوں کے انعام دیئے جاتے ہیں ۔ہندوستانی جس کشمیری کو بھی مارتے ہیں ،اس کو کسی عسکری تنظیم کا فرد ظاہرکر دیتے ہیں۔لیکن مارے جانے والے کشمیری ہیں تو ریاستی باشندے ہی۔ہندوستان کے ظلم کے اس سلسلے سے نوجوانوں کو بچانا ہے،ہندوستان نے گزشتہ چھ ماہ سے کشمیریوں کے خلاف قتل و غارت گری،انتقامی کاروائیوں کی شدید تر مہم شروع کر رکھی ہے۔ہندوستان نے اب دعوی کیا ہے کہ آئندہ چار سال میں کشمیر کو حریت اور دہشت گردی سے پاک کر دیں گے ۔یہ بات سرکاری سطح پر ہندوستان نے کہی ہے ۔ہندوستان نے مالی معاملات میں حریت رہنمائوں کے خلاف کاروائی شروع کی ہوئی ہے لیکن ہم حریت کی تذلیل نہیں چاہتے ،ہندوستان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ریاستی باشندے کو کہے کہ تمہارے پاس پیسے کہاں سے آئے کیونکہ وہ ہندوستان کا شہری نہیں ہے ،اگر ہے بھی تو ریاستی حکومت پوچھے ۔دلی حکومت کو کوئی حق نہیں کہ وہ ریاستی باشندے سے کہے کہ تمہارے پاس چار کنال کی زمین کہاں سے آئی کیونکہ کشمیر متنازعہ ریاست ہے۔اگر حریت میں صلاحیت ،حکمت اور جان ہو اور واقعی وہ ذمہ داری سے مسئلہ کشمیر پر کام کریں تو دنیا کے 194ممالک ان کی مدد کر سکتے ہیںکیونکہ وہ لوگ حق خود ارادیت کی تحریک کے لئے اقوام متحدہ کے چارٹر میںپوری پوری گنجائش ہے ،فلسطین کی یو این کے بجٹ سے مدد کی جاتی ہے ۔جنرل اسمبلی میں شرکت کرنے والے فلسطینی وفد اقوام متحدہ کے بجٹ سے آتے ہیں۔کشمیر اور فلسطین میں کیا فرق ہے۔یہاں پاکستانی فارن آفس کشمیریوں کی مدد کر سکتا ہے۔یہ نہیں کہ وہ کبھی چنار ی کی کسی خاتون کو ،کبھی بنجوسہ سے کسی کو وفد میں شامل کر کر بیرون ملک بھیجے۔کرنے کی چیز یہ ہے کہ ہمیں پاکستان کے پیسے کی ضرورت ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہندوستان کشمیروں کی حق خود ارادیت کی تحریک کو دبانے کے لئے بے تہاشہ پیسہ لگا رہا ہے، ہندوستانی عزائم کو کائونٹر کرنے ،اسے ناکام بنانے کے لئے اربوں کی ضرورت ہے۔ہندوستان سے جنگ آزادی لڑنا سو دو سو روپے کا کھیل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ '' را'' کے سابق چیف اے ایس دلت کی لندن میں کتاب کی تقریب رونمائی میں فاروق عبداللہ نے بھی شرکت کی ۔ دلت نے اپنی کتاب میں کشمیریوں کے بارے میں ''الٹ پلٹ'' لکھا ہے۔اس نے لکھا کہ گوجرانوالہ میں ایک کشمیری نے گاما پہلوان کو نیچے گرایا ہوا تھا، اس کو مار رہا تھا اور ساتھ رو بھی رہا تھا۔کسی نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو تو اس نے کہا کہ گاما اٹھ کر مجھے مارے گا۔تقریب میں انٹرنیشنل میڈیا موجود تھا۔میں نے دلت سے کہا کہ میں تمہاری عزت کرتا ہوں کہ تم اچھے گھر سے تعلق رکھتے ہو،وہ ایک اچھے نواب خاندان سے ہے اور تم نے کشمیر میں جو ظلم کیا وہ ایک طرف لیکن تم متعصب ہو،نسل پرست ہو۔ اس پر تقریب میں موجود کشمیری پنڈت کھڑے ہو گئے اور اعتراض کرنے لگے کہ کتاب کی رونمائی میں آئے ہیں یاگالیاں دینے۔میں نے جواب دیا کہ میں نے کتاب خرید کر پڑھی ہے اورمیں نے کتاب پر کمنٹس کرنے ہیں۔دلت نے کہا کہ میں کیسے نسل پرست ہوں؟ میں نے کہا کہ آپ نے تاریخی طور پرغلط حوالہ دیا ہے۔گاما پہلوان کشمیری تھا،اگر گامے کو دوسرا کشمیری مار رہا تھا تو تمہیںکیا اعتراض ہے۔یاد رہے کہ گاما پہلوان کی پوتی بیگم کلثوم نواز ہیں۔اس بات پر دلت کا رنگ فق ہو گیا۔دلت نے کہا کہ آپ کو میری تصہیح کرنا چاہئے تھی۔میں نے کہا کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ڈاکٹر نزیر گیلانی نے کہا کہ ہم جا کر دلت کو گلے نہیں لگاتے ،ہم اس کے ساتھ بھی استدلال کرتے ہیں ۔پاکستانی تو اس کو گلے لگاتے ہیں ،وسکی پیتے ہیں،مزے کرتے ہیں۔دلت نے اپنی کتاب میں ایک ذمہ دار پاکستانی کے بارے میںلکھا کہ مجھے ایک ذمہ دار پاکستانی نے اسلام آباد میں کہا کہ کمرہ آپ کا استعمال ہو گا اور وسکی میری گاڑی کی ڈگی میں ہے۔یہ ایک پاکستانی افسر اس سے کہتا ہے۔کوئی پاکستانی سو بوتلیں بھی پیتا ہو،اسے ہندوستان سے آئے ہوئے آدمی کے ساتھ شراب نوشی نہیں کرنا چاہئے۔

ملک کی آزادی کی تحریک چلانے کے لئے 194ممالک کے فارن آفس کی ضرورت ہے ۔ ہمارا مطالبہ اور کوشش ہونی چاہئے کہ194ممالک ہمارا ساتھ دیں ،194ممالک کشمیریوں کی سیاسی، مالی معاونت کریں۔ پاکستان کا یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی ،سفارتی ،اخلاقی مد د کرتاہے ،کشمیریوں کو تو 194ممالک کی سیاسی،سفارتی اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔دنیا میں جہاں جہاں کشمیری آباد ہیں وہ کشمیریوں کی تحریک کی مدد کریں۔اگر حریت والے حساب کتاب ٹھیک رکھیں تو ہندوستان کی کیا جرات ہے کہ وہ ان کو پکڑے گا۔مثال کے طور پر اگر میں نے آپ کو ایک ہزار روپے دیئے،آپ نے پانچسو کی دوائی لیکر دی،پانچسو کا کھانا تقسیم کیا ،تو ہندوستان یا پاکستان کیا پوچھ سکے گا۔کشمیر میں غربت کا علاج تو ریاستی حکومت کا ہے،اب اگر حریت ان کی مدد کرے تو ان کو کیسے بلیک میل کریں گے۔ہمیں ضرورت ہے اقوام عالم کی کلی امداد کی۔او آئی سی کے خالی تین پیراگراف کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے،ان کو تو ویسے بھی کوئی پوچھتا نہیں ہے ۔آپ یہ دیکھیں کہ دنیا کیسے چلتی ہے۔اسرائیل نے کہا ہے کہ ہمارا سعودی عرب کے ساتھ اچھے خاصے سفارتی لنک ہیں،کئی عرب ممالک کے ساتھ رابطے ہیں لیکن انہوں نے پابندی لگائی ہے کہ ابھی اسے عام نہ کیا جائے،تاہم اسرائیل نے بالواسطہ بات کو عام کر دیا۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر گیلانی نے کہا کہ پاکستان کا آئین بھی کشمیریوں کے حق آزادی کو محدود نہیں کرتا ،قرار دادیں تو بالکل بھی نہیں کرتیں کیونکہ ہندوستان کا مقدمہ الحاق ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان جس بات پہ اقوام متحدہ میں گیا تو کہا کہ ہم ان تین کاموں کے لئے اقوام متحدہ مین آئے ہیں کہ پہلا کام یہ ہے کہ کشمیریوں سے پوچھیں کہ کیا وہ ہمارے ساتھ کئے گئے الحاق کومستردتے ہیں اور الحاق پاکستان چاہتے ہیں تو ہندوستان کو کوئی اعتراض نہیں ،اگر اقوام متحدہ کے رکن بننا چاہتے ہیں تو بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں۔بعد میں چوائس دی گئی ہے۔بنیادی کیس ہے تین چیزوں کا ۔ وہاں پر ارجنٹینا نے وضاحت کی ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو الحاق تک محدود نہ رکھا جائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کشمیری آزاد رہنا چاہیں۔اس وقت ارجنٹائن بھی سیکورٹی کونسل میں تھا اور کمیشن میں بھی ارجنٹائن شامل تھا۔ہندوستان کے الحاق کو مسترد کرنے سے کشمیری آزاد ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد اگلا مرحلہ ہے الحاق کرنے یا نہ کرنے کا۔لیکن کچھ لوگوں نے خود مختار کشمیر اور الحاق پاکستان کے معاملے کوکنفیوز کرنے کی کوشش اچھی خدمت نہیں ہے کشمیر کاز کی۔سب سے پہلے ہندوستان کے الحاق پر ووٹ ہونا ہے ،کشمیریوں نے اس کی تائید کرنی ہے یا اسے مسترد کرنا ہے۔کشمیری کہہ سکتے ہیں کہ حق خود اردیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں ہندوستان سے چھڑا کر پاکستان کے حوالے کر دیں۔،یا پاکستان سے چھڑا کر ہندوستان کے حوالے کر دیں۔حریت کے آئین میںبھی یہ بات شامل ہے ۔حریت کا چیپٹر دو جو آئین ہے 31جولائی1993میںکیا،اس میں تینوں آپشن ہیں۔

مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لئے آزاد کشمیر حکومت کو بااختیار کئے جانے کے مطالبے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم آزاد کشمیروزیر اعظم پاکستان سے اتنا ہی کہے کہ آپ نے میرے ساتھ اشتراک کیا ہے ،وزیر اعظم آزاد کشمیر بہت باور فل ہے لیکن اگر اس کو اپنی قوت کا احساس ہو۔وہ آئین سمجھے،وہ کہے کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کا اشتراک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے ہے ،مجھے سمجھائیں کہ ہمیں کرنا کیا ہے ۔اگر کوئی اشتراک ہے،1970سے یہ اشتراک ہے 1974ء ،یہ اشتراک آگے چلتا ہی نہیں ہے،تب میں حمایت کروں گا۔وہ کہے کہ پاکستان نے آزاد کشمیر کے ساتھ آئینی اشتراک کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو آگے لے جائیں گے ۔پاکستان کشمیریوں کی وکالت کرتا ہے وہ کرے لیکن پاکستان نے آئینی طور پر آزاد کشمیر کے ساتھ شراکت کی ہے،اس شراکت کو انہوں نے فریز کر دیا ہے،شراکت کا استحقاق تو لیا ہے لیکن اپنی وہ ذمہ داریاں پوری نہیں کیں جن کا انہوں نے وعدہ کیا ہے۔آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ،صدر نے بہت محنت کرنی ہے ،جب وہ دستور کی حفاظت کریں گے تو حکومت پاکستان کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ہے ان کا ادب احترام کرنے کا۔انہوں نے آزاد کشمیر کے حوالے سے کہا کہ ہم پاکستان کے سامنے اپنا استدلال آج تک پیش نہیں کر سکے۔اقوام عالم کو کنوینس کرنا تو دور کی بات ہے ہم پاکستان کو قائل نہیں کر سکے۔جب آزاد کشمیرکا صدر،وزیر اعظم پاکستان کے فارن آفس کو اس بارے میں قائل نہیں کر سکے کہ کشمیر کے بارے میں کن شخصیات کا تعاون حاصل کرنا ہے۔آزاد کشمیر کے صدر وزیر اعظم نے بہت محنت کرنی ہے ۔آزاد کشمیر کے صدر وزیر اعظم کا ایک آئینی مینڈیٹ ہے ،آپ اس مینڈیٹ کے لئے برابر کی جنگ لڑیں ۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے اتنا ہی کہا تھا کہ کیا ایسے پاکستان سے میں الحاق کروں گا تو اس پر پاکستان میں کئی افراد کا سخت ردعمل آیا جو ناقابل قبول تھا۔اگر آزاد کشمیر کے صدر ،وزیر اعظم ہمارا دفاع نہیں کر سکتے تو وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا کیا دفاع کریں گے۔آزاد کشمیر کے پاس بیرون ملک دس لاکھ سفیر ہیں۔اگر وہ دس دس پائونڈ بھی کشمیر لبریشن سیل کر دے دیں تو دس لاکھ پائونڈ ہو جائیں گے۔آزاد کشمیر سے کشمیر کاز کے حوالے سے جنیوا ،بیرون ملک جانے والے وفود سے پوچھا جانا چاہئے کہ وہ وہاں جا کر کیا کرتے ہیں۔

''سی پیک منصوبے'' اور چین کے اثرات سے متعلق سوالات کے جواب میں ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے کہا کہ سی پیک کا بڑا اچھا جواب دیا ہے8جولائی1948میں سردار محمد ابراہیم نے ۔حکومت پاکستان کو سردار ابراہیم کا8جولائی1948کا لکھا ہوا خط میں '' سی پیک'' کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں کہوں گا۔چھ صفحات کا خط بطور صدر آزاد کشمیر۔سردار ابراہیم کے اس خط میں ہماری تعظیم بھی ہے ،ہماری عزت بھی ہے۔آپ ''سی پیک '' کو اس تناظر میں دیکھیں،ریسرچ کریں۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698814 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More