کچھ لوگ ایسے کردار کے حامل ہوتے ہیں جو زمانے کی لگی
لپٹی سے آزاد ہو کر اپنی ذاتی سوچ اور نظریے کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اور
چاہے دنیا لاکھ برا سمجھے مگر وقت ثابت کر دیتا ہے کہ ان کی سوچ بالکل صحیح
اور ان کا فیصلہ مبنی بر حق اور صد فیصد ٹھیک ہوتا ہے.اکثر ایسے لوگ منافقت
سے پاک اور مصلحت سے آزاد ہوتے ہیں اور منفرد سوچ کی بدولت ایسے کارہائے
نمایاں سر انجام دیتے ہیں کہ ان کی قدر کا اندازہ اس وقت نہیں ہوتا مگر وقت
گزرنے کے بعد ہی ان کی سوچ کی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے. زمانہ ایسے لوگوں
کے پیچھے چل کر آتا ہے نہ کہ وہ لوگ زمانے کے پیچھے چلتے ہیں.
"باغی" کی گھر واپسی کا علم ہوا .یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کی گئی
تین سال کسی سیاسی جماعت کی پشت پناہی کے بغیر بھی ہاشمی صاحب نے سیاست میں
اپنی حیثیت کو برقرا رکھا.یہی وجہ تھی کہ "اس بہادر آدمی" کے پیچھے نواز
شریف جیسا انسان بھی تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر چل پڑا اور آخر کار
اسے مسلم لیگ میں شامل کروا لیا اگرچہ میاں نواز شریف کی جانب سے اس نیکی
میں دیر کی گئی مگر بہر صورت اب عمر کے اس حصے میں بھی "محسن جمہوریت "کے
احسانات کا بدلہ چکایا جاسکتا ہے.
اس صورت حال میں یہ امر انتہائی قابل تشویش ہے کہ جہاں ایک جانب ان کی "آمد"
کو لیگی حلقے خوش آئند قرار دے رہے ہیں وہیں دوسری طرف ان کے حلقہ انتخاب
میں چند "بلدیاتی اراکین" ان کی واپسی کی سرعام مخالفت کرتے دکھائی دیتے
ہیں.
اس صورت حال میں پارٹی اندورنی طور پر کمزور بھی ہو سکتی ہے. مگر دیکھنا
ہوگا کہ مسلم لیگ ن اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی
ہے.
چونکہ "باغی" نے جس انداز میں مسلم لیگ سے دیرینہ تعلق کو خیر باد کہا تھا
وہ لیگی حلقوں کے لیے ناقابل برداشت تھا مزید برآں "باغی " نے دیرینہ
وابستگی کو توڑ کر جس مدمقابل جماعت کا انتخاب کیا تھا اس کے "منچلوں" نے "باغی"
کو "داغی" بنا ڈالا مگر جمہوریت پسند طبقے نے "باغی" سے داغی بنانے کی
بجائے "محسن جمہوریت" کے لقب سے نوازا تھا کیونکہ اگر اس وقت "باغی" نے
بغاوت نہ کی ہوتی تو "جمہوریت مخالفین" ایک بار پھر جمہوریت کو پٹڑی سے
اتار سکتے تھے مگر سلام ہے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سوچ کو
جنہوں نے اپنی ذات اور اپنے ادارے کو سیاست سے پاک کرنے کے لیے بھر پور
کردار ادا کیا. بعد ازاں چند ماہ قبل جب "عدلیہ" میں پانامہ کا پنڈورا بکس
کھلا اور بات "اقامہ" سے ہوتی ہوئی نا اہلی کے "پروانہ" پر جا کر اختتام
پذیر ہوئی تو میرے ذہن میں خیال آیا تھا. میں نے اس کا اظہاربرادرم محمد
عبداللہ صدر پاکستان رائٹرز ونگ سے بھی کیا تھا اور آج میں سپرد قلم بھی
کیے دیتا ہوں "اگر سیاست کی طرح عدلیہ میں بھی ایک 'باغی ' موجود ہوتا تو
شاید یہ کہنے کی نوبت ہی نہ آتی "مجھے کیوں نکالا......"
بہر حال یہ دستور دنیا ہے جب کسی کو نکالنا مقصود ہو تو "وجوہات" نہیں"
بہانے" تلاش کیے جاتے ہیں مگر میاں صاحب کی بدقسمتی دیکھیے کہ عدلیہ میں
بھی کوئی" باغی" نہ تھا وگرنہ وزارت عظمی نہ گنوانی پڑتی. باغی کی آخری
"بغاوت "( تحریک انصاف کو چھوڑنا) سے لے کر اب تک چونکہ میاں صاحب وزارت
عظمی کی ذمی داریوں اور بعد ازاں "پانامہ کیس کی دریافت "اقامہ" کی پاداش
میں گھر واپسی کا پروانہ " وصول کر کے احتساب عدالت میں مصروف تھے مگر اب
شاید میری طرح میاں نوازشریف صاحب نے ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر عدلیہ میں "باغی
" کی کمی کو محسوس کیا ہوگا اور اسی سوچ کے باعث میدان سیا ست میں فی الوقت
دستیاب "باغی کی فی الفور گھر واپسی" کی راہ ہموار ہو گئی.اور اب ایک بار
پھر "محسن جمہوریت " پھر اسی آن ,شان اور جی جان سے پکارے گا
ہاں میں باغی ہوں........ |