کسی گاؤں میں ایک بزرگ رہتے تھے جن کے دو بیٹے تھے ۔
بزرگ نے سوچا کہ اپنے بچوں کا مستقبل بناؤں ، کیوں نا شہر میں کوئی
کاروبارکیا جائے ۔لہٰذا اس نے اپنے خواب کو حتمی شکل دی اور شہر میں آ کر
کاروبار شروع کر دیا ۔ بزرگ کا بڑا بیٹا قدرے کاروباری سوچ کا حامل نو جوان
تھا اور کچھ پڑھ لکھ کراس قابل بھی ہو چکا تھا کہ وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹا
سکے ۔گویا اس نے کاروباری معاملات میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا
کچھ عرصے بعد وہ بزرگ چل بسا اور اس نے اپنی بیوی کو نصیحت کی کہ میری
اولاد میں اتفاق کی کڑی صرف تم ہی ہو اسی لئے چھوٹے بیٹے کو تلقین کر نا کہ
بڑے بھائی کا اسی قدر احترام کرے جیسے میرا کرتا تھا ۔ کاروباری معاملات
اور لین دین میں لالچ و حسد کبھی اپنے ذہن میں نہ لائے کہ میں اتنی جائیداد
چھوڑے جا رہا ہوں کہ تمہاری اگلی نسلیں بھی بیٹھ کر کھا سکیں گی۔اتنے میں
اس کا چھوٹا بیٹا بھی سمجھ دار ہو چکا ہوتا ہے اور دنیا داری میں وہ بھی
اپنے بڑے بھائی کا ہاتھ بٹانے لگتا ہے ان کے اس اتفاق میں اﷲ بھی برکت
ڈالتا ہے اور وہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے آئے دن شہر سے صوبہ ،
صوبے سے ملک اور ملک سے ممالک تک کا سفر کاروباری دنیا میں طے کرتے چلے
جاتے ہیں ،ہر جگہ کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں ۔لیکن ایک دن ان کے ساتھ
ایسا ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ حکومت کے
بدلنے سے ان کا کاروبار حکومتی تحویل میں لے لیا جاتا ہیں اس طرح باہمی
مشاورت سے سوچتے ہیں کہ کیوں نا سیاسی میدان میں اترا جائے ۔فیصلہ ہو جاتا
ہے اور ظاہر ہے کہ بڑے بیٹے کو ترجیح دی گئی اور وہ بھی صوبہ میں حکومت
بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں دولت و طاقت کے نشے میں چور اب ان دونوں
بھائیوں کیلئے حلال و حرام میں فرق نہیں رہ جاتا اور وہ دونوں ہاتھوں سے
دولت سمیٹنا شروع کردیتے ہیں ۔ دونوں بھائیوں کی شادی ہوتی ہے اور بڑے
بھائی کے ہاں ایک بیٹی اور دو بیٹے جبکہ چھوٹے کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے
دونوں اپنی اولادوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں اولاد سے محبت کا حق ادا کر
دیتے ہیں بڑے بھائی کی بیٹی قدرے عمر میں بڑی اور پڑھ لکھ کر لبرل بن جاتی
ہے اسی لئے اس کا رشتہ اس کی مرضی سے ہو جاتا ہے جبکہ چھوٹے بھائی کے بیٹے
کی شادی کہیں اور اس طرح ایک دوری کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ بڑے بھائی کے
باقی دو بیٹے جن کی تعلیم و تربیت بیرون ملک کی جاتی ہے اور وہیں وہ اپنے
باپ سے پیسے لے کر کاروبار بھی شروع کر کے سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس
مقابلے میں چھوٹے بھائی کا بیٹا بھی پیسہ لے کر ملکی سطح پر کاروبار شروع
کر دیتا ہے ۔لیکن سب سے بڑی طاقت سنتہ اور کرسی کی ہے۔،یہ سبھی سمجھتے ہیں
۔جس کے حصول کیلئے ایک اندر ہی اندر سرد جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس چیز
کا انتظار کیا جاتا ہے کہ کب موقع ملے اور کرسی ہمارے پاس آ جائے ۔ دونوں
کی ماں درمیان میں ایک کڑی بنائے رکھتی ہے اور وہ یہ کہ بڑا بھائی ہر صورت
مکرم ہے اور یہی چھوٹے بھائی کی اولا د کو بھی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ جیسے
تایا مکرم ہے اسی طرح اس کی اولاد بھی مکرم ہے۔ لیکن چھوٹا بھائی بھی سیاست
میں آنے کیلئے بضد ہو جاتا ہے اس طرح دونوں کے درمیاں طے پاتا ہے کہ صوبے
میں وہ اپنی اجارہ داری قائم کر لے اور ملکی سطح پر بڑا ۔ اس طرح گاڑی چل
نکلتی ہے لیکن کہاں تک کوئی رفو گری کرے دل کی ، دنیا کسی کو جینے نہیں
دیتی اور لالچ تو انسان کے اندر اس طرح کوٹ کر بھرا ہے کہ کبھی پیٹ بھرتا
ہی نہیں آج دس ہے تو کل ہزار کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ کس طرح آتا ہے اس
کی بھی کوئی پرواہ نہیں ۔چھوٹے بھائی کی اولاد کے دوست احباب اسے ستاتے ہیں
کہ کیا تم ہمیشہ ایسے ہی ان کے چمچے بنے رہو گے؟ تمہارے اندر زیادہ
صلاحیتیں ہیں اور تمہارے تایا کی بیٹی وہ تو ایک عورت ہے وہ کیا کر سکتی ہے
؟ اور وہ اپنے باپ کو بھڑکاتا ہے ،اس طرح سے خانہ جنگی بڑھ جاتی ہے ۔
ڈھیروں جائیدادیں ، اتنے بڑے کاروبار ، رعب ، دبدبہ ، شان و شوکت اور سنتہ
سب کا غرور بھی اس کی وجہ بن رہا تھا کیوں کہ جب آپ لوگوں کی گردنیں دبوچ
کر، ان کا استحصال کر کے کسی عروج پر پہنچتے ہیں تو زوال اور وہ بھی عبرت
ناک آپ کا مقدر بن جاتا ہے ۔اسی اثناء میں بڑے بھائی جان کے خلاف ڈھیروں
روپے کرپشن کے الزامات لگتے ہیں جو کافی حد تک ثابت بھی ہونے لگتے ہیں اب
دونوں بھائیوں کو اپنی اپنی پڑ جاتی ہے بڑا بھائی چاہتا ہے کہ اس کے بعد اس
کی بڑی بیٹی سنتہ کو سنبھالے جبکہ چھوٹا بھائی چاہتاہے کہ میرا بیٹا آگے
آئے، اس کا حق بنتا ہے۔ یوں اندر ہی اندر سیاست میں دھڑے بندیاں شروع ہو
جاتیں ہیں جس میں کافی حد تک چھوٹا بھائی کامیاب بھی ہو جاتا ہے ۔ لیکن
چھوٹا بھائی جو سوچ رہا ہوتا ہے اس کے مطابق سب نہیں چلتا تو وہ ایک نئی
چال چلتا ہے جو عوام الناس کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی چال ہو تی ہے اور
سارا ملبہ بڑے بھائی پر ڈال دیا جاتا ہے ۔ خود ہی اس کے خلاف احتجاج کرواتا
ہے جس کی نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ لگتا ہے ابھی بڑا بھائی گیا اور اب گیا!
اور اس طرح پارٹی کے وہ دھڑے بھی کھل کر سامنے آ جاتے ہیں ۔ بڑے بھائی کا
پتہ صاف ہو جاتا ہے اور چھوٹا بھائی اپنی اجارہ داری بنانے میں کامیاب ہو
جاتا ہے ۔ یہ تو محض ایک کہانی تھی لیکن سوچیں تو یوں بھی لگتا ہے کہ اگر ن
لیگ کی شریف فیملی کے درمیان بھی کچھ ایسا چل رہا ہو اور ختم نبوت ﷺ والے
دھرنے اور اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں استعفے اور علیحدگیاں بھی اسی کی
کڑی ہوں تو کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟؟؟۔۔۔ |