کانگریس کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کا سب سے بڑا لزام یہ
ہے کہ وہ جمہوریت پر نہیں بلکہ موروثیت پر یقین رکھنے والی جماعت ہے۔ راہل
گاندھی کی حیثیت ان کے نزدیک ایک موروثی رہنما سے زیادہ نہیں ہے۔ راہل
گاندھی نے ۲۰۰۴ میں امیٹھی سے انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے اس وقت وزیراعظم
مودی نے رکن پارلیمان کا بننے کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا ۔ ۲۰۰۹ میں جب
راہل گاندھی دوسری مرتبہ انتخاب لڑ رہے تھے تب بھی بی جے پی کو خیال نہیں
آیا کہ نریندر مودی کو پارلیمان میں بھیجنا چاہیے۔ ۲۰۱۴ میں جب مودی جی
نے پہلا پارلیمانی انتخاب جیتا تو راہل تیسری بار کامیاب ہوکر رکن ایوان
بنے اس طرح راہل کو مودی سے دس سال کا اضافی تجربہ ہے اس کے باوجود شہزادے
کہہ راہل کا مذاق اڑایا جاتاہے ۔
دنیا کی سب سے وسیع جمہوریت ہندوستان میں ایک طرف تو گاندھی پریوار کی
موروثیت ہے تو دوسری جانب ہر علاقائی پارٹی میں موروثی روایت چل پڑی ہے۔
لالو، ملائم ، پٹنائک، نائیڈو، بادل، مفتی ، عبداللہ اور سندھیا تک ہر جگہ
سیاستدانوں کی اولاد کا بول بالا ہے۔ بی جے پی کا حال یہ ہے کہ اکانامک
ٹائمز کی تحقیق کے مطابق اس کے ۴۰ فیصد ارکان پارلیمان سیاستدانوں کی دوسری
نسل ہیں اور یہ تناسب بی جے پی میں دوسری تمام جماعتوں سے زیادہ ہے۔ امریکہ
میں بھی جارج بش کا بیٹا جارج ڈبلیو بش صد بنا ۔ بل کلنٹن کی بیوی ہیلری
کلنٹن نے انتخاب لڑا اور کامیاب نہ ہوسکی اگلی بار ڈیموکریٹ براک اوبامہ کی
بیوی مشعل اوبامہ کو لڑانے پر غور کررہے ہیں جبکہ ٹرمپ نے بغیر الیکشن کے
ہی اپنی بیٹی اور داماد کو اہم سرکاری عہدوں پر فائز کردیا۔ یہ ہے جمہوریت
کے نام پر رائج موروثیت۔
سنگھ پریوار ہمیشہ ہی انگریزوں سے مرعوب اور اس کا وفا دار رہا ہے۔ آزادی
کی جنگ سے اپنے آپ کو الگ رکھنے والے ان جعلی دیش بھکتوں پر انگریزوں کی
جاسوسی کا بھی الزام لگ چکا ہے۔مودی جی کا حال یہ ہے کہ ہندوستان میں تو
کسی منہ نہیں لگاتے لیکن ملک کے باہر ہر کس و ناکس سے لپٹ جاتے ہیں۔ اس کا
ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ گاندھی پریوار کا مذاق اڑانے والے وزیراعظم نریندر
مودی امریکی دختر اول ایوانکا ٹرمپ کے دورہ ٔ بھارت کے دوران گلوبل
انٹرپرینورشپ سمٹ (جی ای ایس) میں شرکت کرنے کے لیے حیدر آباد پہنچ گئے ۔
ایوانکا نے ابھی تک کوئی انتخاب ہی نہیں لڑا۔ ان کی کوئی سیاسی و سماجی
حیثیت نہیں ہے۔وہ جو کچھ بھی ہیں پہلی بار انتخاب لڑ کر کامیاب والے ڈونالڈ
ٹرمپ کی بیٹی ہونے کی بدولت ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا کو وائٹ ہائوس کے مرکز ویسٹ ونگ
میں امریکی انتظامیہ کے تحت ایک دفتر دیا گیا تاہم ان کے عہدے کا کوئی
سرکاری نام نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی تنخواہ کی حقدار ہیں ۔ اس کے باوجود
ایوانکا کی خفیہ معلومات تک رسائی ہے۔امریکی اخبار پولیٹیکو کی ایک رپورٹ
کے مطابق ایوانکا صدر ٹرمپ کو متنوع امور پر مشاورت فراہم کرنے پر مامور کی
گئی ہیں ۔ایوانکا ایک فیشن برانڈ کی مالک ہیں۔ ان کے خاوند جیرڈ کشنر پہلے
ہی صدر ٹرمپ کے اعلی سطح کے مشیر ہیں۔ اس جوڑے کے امریکی صدر پر اثر و رسوخ
پر تشویش کا ا ظاکر کیا جارہا ہے ۔ اس میں مفادات کا سیدھا ٹکراوبھی ہے۔ یہ
عجیب بات ہے کہ جس طرح سونیا گاندھی کو راہل اور پرینکا کے سوا کسی پر
اعتماد نہیں ہوتا اسی طرح رونالڈ ٹرمپ بھی اپنی بیٹی ایوانکا اور داماد جیر
ڈکشنر کے علاوہ کسی کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے ۔ مودی جی کا حال بھی
مختلف نہیں ہے ان کو بھی پورے سنگھ پریوار اور ۱۳۰ کروڈ ہندوستانیوں میں
امیت شاہ کے علاوہ کوئی نہیں ملتا جوایک قتل کے مقدمہ میں جیل کاٹ چکے ہیں
اورجیٹلی کے سوا کوئی سجھائی نہیں دیتا جن کی نااہلی اظہر من الشمس ہو گئی
ہے۔
ایوانکا ٹرمپ کا دورہ سرکاری نہیں تھا بلکہ وہ گلوبل انٹرپرینورشپ سمٹ (جی
ای ایس) میں اپنے فیشن برانڈ کے فروغ کی خاطر امریکی سرمایہ داروں کے وفد
کے ساتھ حیدر آباد آئی تھیں ۔ ایسے میں وزیر اعظم کی اس کانفرنس میں شرکت
پر کانگریس کے ترجمان آنند شرما کی تنقید بجا معلوم ہوتی ہے۔ شرما کے
مطابق ایوانکا کے ساتھگلوبل کانفرنس میں شریک ہوکر مودی جی قوم کے وقار کو
ٹھیس پہنچانے کا کام کیا ہےاور اپنے عہدے کی توہین کی ہے۔ ویسے ایوانکا بھی
دو طرح سے ہندوستان کی تضحیک و تذلیل کرکے واپس ہوئیں۔ایوانکا سے یہ توقع
کی جاری تھی کہ وہ ہندوستان میں بنے کپڑے اور ہندوستانی ڈیزائنر کے لباس کو
زیب تن کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ برطانیہ میں مقیم ایک
ہندوستانی کے ڈیزائن پر انڈونیشیائی نقاش کے پھول پسند کیے۔ اسی کے ساتھ
مودی جی کی تعریف میں کہہ دیا کہ چائے بیچتے بیچتے وزیر اعظم بن کر انہوں
نے ثابت کردیا ہے کہ کتنی بڑی تبدیلی ممکن ہے۔ مودی جی سے تما تر اختلاف کے
باوجود وہ اپنے آپ کوجو چاہیں کہیں لیکناگر کوئی غیر ملکی انہیں چائے والا
کہے تو اچھا نہیں لگتا۔ |