میاں صاحب کی سکیورٹی؟

 میاں نواز شریف کو یکایک یاد آیا کہ ان کی سکیورٹی کا ذمہ اﷲ تعالیٰ نے خود اٹھا رکھا ہے۔انہوں نے کوئٹہ میں جلسہ عام سے خطاب کرنے سے قبل ڈائس سے بُلٹ پروف شیشہ ہٹوا دیا، ان کا کہنا تھا کہ ’’․․․میری سکیورٹی کے لئے شیشہ لگایا گیا، لیکن میری سکیورٹی کا وارث اﷲ ہے، صرف اﷲ کی سکیورٹی چاہیے، شیشہ اس لئے ہٹایا کہ آپ کو ٹھیک سے دیکھ سکوں․․․‘‘۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم کی کوئٹہ آمد پر شہر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ قول وفعل میں تضاد کی جس قدر واضح اور روشن مثالیں سیاستدان پیش کرتے ہیں، کوئی اور وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لفظ ’’سیاست‘‘ کو دوغلی پالیسی، تضاد بیانی اوراسی قسم کے سخت الفاظ کے معانی میں استعمال کیا جاتا ہے، کوئی تھوڑا سا ڈبل گیم کرے تو فوراً کہا جاتا ہے کہ ’’وہ سیاست کر رہا ہے‘‘ ۔ کوئی ایسی بات کہے جس سے دو معانی نکلتے ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ’’سیاسی بیان دے رہا ہے‘‘۔ گویا سیاست کو غلط بیانی کی علامت بنانے میں اہم ترین کردار سیاستدانوں کا ہی ہے۔ اگر معاملہ اصول پرستی پر کیا جاتا، قول اور فعل میں یکسانیت ہوتی، سچ اور حق کا بول بالا ہوتا تو سیاست کے لفظ کو کون اور کیوں بدنام کرتا؟
 
سابق وزیراعظم کے اس فعل کا جائزہ لیا جائے تو یہی فارمولا سامنے آتا ہے کہ آخر یہی شیشہ تو ہمیشہ ان کے ڈائس پر رہا ہے، وہ جب بھی اور جہاں بھی گئے ، اسی قسم کے بلٹ پروف شیشے کے پیچھے کھڑے ہو کر ہی خطاب کیا۔ اب سکیورٹی کے وارث اﷲ تعالیٰ کو قرار دے دیا، خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر شہر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ بھئی اگر اﷲ وارث ہے تو پھر شہر میں بھی نظام معمول کے مطابق چلنے دیا جاتا۔ آپ تو جب سے نااہل قرار پائے ہیں، اس وقت سے بھی سکیورٹی کے حصار میں ہی رہتے ہیں، حتیٰ کہ ایک ملزم کی حیثیت سے جب پیشی پر جاتے ہیں تب بھی سرکاری سکیورٹی میں ہی جاتے ہیں، ان کے قافلے میں بلا مبالغہ بیسیوں گاڑیاں ہوتی ہیں۔ جو کہ وہ استحقاق کے بغیر ہی استعمال کرتے ہیں۔ مگر انہوں نے کبھی خود یہ نہیں کہا کہ اس قدر سکیورٹی کی ضرورت نہیں۔ جب میاں صاحب جلاوطنی کی سزا کاٹ کر واپس پاکستان پہنچے تھے توچند روز بعد ان سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ جاتی عمرا میں تین ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں، جس پر اُن کا رنگ مزید سرخ ہو گیا تھا، اور انہوں نے غصے کے عالم میں صحافی سے کہا کہ ’’آپ انہیں وہاں سے ہٹا دیں‘‘۔ وہ اقتدار میں تھے یا نہیں، مگر پروٹوکول ان کے ساتھ ہی رہا، لازم و ملزوم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کبھی لندن تشریف لے جاتے ہیں، اور سڑک کے کنارے کھڑے پائے جاتے ہیں، اور جب اُن کی گاڑی کا غلط پارکنگ کی وجہ سے چالان ہو جاتا ہے تو یار لوگوں کو یہ طنز کرنے کا موقع مل جاتا ہے کہ پاکستان میں تو اس قدر پروٹوکول ہوتا ہے، باہر جاکر کوئی پوچھتا نہیں۔

اگر میاں صاحب کی سکیورٹی کا وارث اﷲ ہے، تو شہر کیوں سیِل ہو جاتے ہیں، راستے کیوں بند کردیئے جاتے ہیں؟ لوگوں کو گھنٹوں کیوں خوار کیا جاتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بیسیوں گاڑیوں کے قافلوں سے قومی خزانے کو کس قدر نقصان پہنچایا جاتا ہے؟ میاں نواز شریف جب اقتدار میں تھے، تو وہ اسمبلی میں قدم رکھنا مناسب نہیں جانتے تھے، ممبران اسمبلی سے ملاقات تک کے روادار نہ تھے، کابینہ کے اجلاس تک منعقد نہ ہوتے تھے، کچن کابینہ کے فیصلے قوم پر مسلط ہوتے تھے۔ جونہی اقتدار سے محروم ہوئے، عوام میں گھل مل گئے۔ اس موقع پر ایک اور دلچسپ بات کی کہ میں نے یہ شیشہ اس لئے ہٹوا دیا ہے کہ میں آپ کو ٹھیک سے دیکھ سکوں ، گویا بلٹ پروف شیشے کی موجودگی میں عوام ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتے، (یا لیڈر عوام کو ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا)۔ تو اس سے قبل جتنے سال بلٹ پروف شیشوں کی اوٹ سے قوم کے ’’دلوں کی دھڑکن ‘‘ نے جتنے خطاب فرمائے وہ قوم کو ’’ٹھیک سے‘‘ دیکھے بغیر ہی فرمائے۔ یا یوں جانئے کہ قوم اپنے لیڈر کو ’’ٹھیک سے‘‘ دیکھ نہیں پاتی تھی۔ اب اچانک میاں صاحب کی سکیورٹی کا ذمہ اﷲ تعالیٰ کے پاس چلا گیا ہے، اب وہ اپنے جلسوں اور پیشیوں میں ایک ہی گاڑی میں تشریف لے جایا کریں گے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472473 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.