کوئی بھی معاشرہ ثقافت کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ
سکتا۔ کیوں کہ انسان اور حیوان میں بنیادی فرق ثقافت ہی ہے۔ انسان کا رہن
سہن کا طریقہ، لباس، خوراک، بول چال اور زبان وغیرہ مل کر اس کی ثقافت کی
تشکیل کرتے ہیں۔ ثقافت کی بنیاد پر ہی دنیا میں قوم قبیلے اور مختلف
ریاستیں معرضِ وجود میں آئیں۔ مادرِ وطن پاکستان دو قومی نظریہ کی بنا پر
حاصل کیا گیا ہے اور دو قومی نظریہ کی اساس ثقافتی تفاوت پر قائم
ہوئی۔ثقافت زندگی گزارنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جسے مختلف تجربات اور تعلیم
و تربیت سے سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ باہمی تفاعل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسے مختلف
فنونِ لطیفہ سے اگلی نسلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ ثقافت مادی وغیر مادی ہر
دو صورت میں ہوتی ہے۔ مادی ثقافت میں تصویر سازی، مجسمہ سازی، طرزِ لباس و
رہائش جب کہ غیر مادی ثقافت میں زبان، شعر و سخن، موسیقی وغیرہ شامل ہیں۔
معاشیات کو سماجی سائنس کے طور پر جانا جاتا ہے کیوں کہ اس میں انسان مختلف
قسم کی اشیاء اور خدمات کی فراہمی کرتا ہے، پھر اسے معاشرے میں پھیلا دیا
جاتا ہے۔ معاشرہ اسے اپنی ضروریات کے تحت استعمال میں لاتا ہے۔ درحقیقت
معیشت انسانوں کی لاتعداد خواہشات اور محدود وسائل کے مابین ایک ایسا تعلق
ہے جسے انسان متبادل وسائل ڈھونڈ کر متوازن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ایڈم
سمتھ نے علمِ معاشیات کا تصور ۱۷۰۷ء میں دیا تو اسے شدید تنقید کا سامنا
کرنا پڑا اور علمِ معاشیات کو Pig phiolosphyکہہ کر رد کر دیا گیا۔ تاریخ
انسانی گواہ ہے کہ ثقافت اور معیشت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ثقافتی امور سے معیشت کا پہیہ رواں ہوتا ہے۔ انسان کے مختلف امور معیشت پر
انحصار کرتے ہیں خواہ وہ معاشرتی امور ہوں یا سیاسی یا مذہبی امور ہوں۔ ہر
کام کی ادائیگی کے لیے معیشت یعنی پیسہ درکار ہوتا ہے۔ مسلمان ہر سال ایام
حج میں حجاز مقدس کا رخ کرتے ہیں، عید الاضحی پر قربانی پر کڑوڑوں جانور
خدا کی راہ میں ذبح کیے جاتے ہیں، رمضان میں زکوٰۃ کی ادئیگی سے معیشت
مستحکم ہوتی ہے۔ عید میلاد النبی جیسے مذہبی تہوار پر کڑوڑوں روپے کا
کاروبار ہوتا ہے۔ محرم الحرام کے دوران نیاز لنگر وغیرہ پر کثیر سرمایہ صرف
ہوتا ہے۔ اسی طرح کرسمس پر عیسائی برادری بہت جوش و خروش سے رقم خرچ کرتی
ہے۔
دنیا بھرمیں انسانوں کا حلیہ اور شکلیں ایک جیسی ہوتی ہیں لیکن انسانوں کا
رنگ، نسل، رہن سہن کا طریقہ ، زبان، طرزِ لباس، اسلوبِ بیان و دیگر محرکات
مختلف ثقافتوں کو جنم دیتے ہیں۔ ثقافتوں کا تصادم بھی ہوتا رہتا ہے۔ یہ
تصادم کبھی کبھار خوش رنگ نئی ثقافت دیتا ہے جیسے ہندوستان میں مختلف
زبانوں کے ادغام سے اردوزبان وجود میں آئی۔ جب کہ کبھی کبھار یہ ثقافتی
تصادم مستقل تقسیم کی شکل اختیار کر کے پاک و ہند جیسی ریاستوں کے قیام کا
باعث بن جاتا ہے۔
سائنسی ایجادات نے ثقافت میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ دنیا سمٹ کر
ایک سمارٹ فون میں سمٹ آئی ہے۔ عہدِ حاضر میں ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل
میڈیاکے ذریعہ ایک خطہ کی ثقافت سرعت سے دوسرے خطہ میں پھیل رہی ہے۔ دنیا
میں گلوبل ویلج کے بعد گلوبل کلچر یعنی عالمی ثقافت کو تصور ابھر رہا ہے۔
ایک ثقافت کی مختلف پیداوری اشیاء ہوتی ہیں جن میں فلم سازی، مصوری، ادب
وغیرہ نمایاں ہیں۔ ان سرگرمیوں کی ثقافتی پیداور کے ذریعہ لاکھوں لوگ
روزانہ زر کماتے ہیں۔ ایک فلم سے مربوط لاکھوں افراد روزانہ پیسہ کما رہے
ہیں۔ ایک گلوکار اپنے گانے سے ریکارڈ پیسہ کماتا ہے۔ جب کہ ایک مصوراپنے
ایک فن پارہ کے ذریعہ پیسہ کماتا ہے۔ ایک ادیب اپنی تحریر کردہ کتب کے
ذریعے حصول معاش کرتا ہے۔ ان تمام ثقافتی امور سے مختلف معاشی سرگرمیاں
چلتی رہتی ہیں۔ ان ثقافتی سرگرمیوں سے حکومت کے محصولات میں بھی اضافہ ہوتا
ہے۔ وطنِ عزیز میں فلم انڈسٹری کے زوال سے ہزاروں خاندان معاشی طور پر
متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت وقت کو ایسے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے جس سے ثقافت
کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں آئیں ۔ ہرحکومت ایسی قانون سازی یا سرگرمی
سے گریز کرتی ہے جو مقامی ثقافت کے منافی ہو۔ ایک معاشرے کے ثقافتی معیار
کے خلاف کبھی کوئی شے متعارف کروا کر کاروبار نہیں کیا جاتا ہے۔ چائنہ ایسے
کھلونے بناتا ہے جو مقامی ثقافت کے مطابق ہوں ۔ ان کھلونوں میں موسیقی ایسی
ہوتی ہے جو مقامی ثقافت کی آئنہ دار ہوتی ہے۔ طولِ تاریخ کا مطالعہ بتاتا
ہے کہ قومیں اپنی ثقافت کی بقا کی خاطر جنگ کا خطرہ مول لیتی ہیں۔ جنگ
ہمیشہ میعشت کو متاثر کرتی ہے ۔ معیشت کو ثقافت پر قربان کیا جا سکتا ہے
لیکن ثقافت کو معیشت پر قربان نہیں کیا جا سکتا ہے۔
|