سینیٹ میں جب انتخابی اصلاحات ایکٹ2017سابق وزیر قانون
زاہد حامد پیش کررہے تھے تو مسلمان ہونے کے حلف نامے کے عنوان سے ختم بنوت
کے قانون پر یقین رکھنے کے قانون پر پہنچے توجمعیت علماء اسلام کے سینیٹر
حافظ حمداﷲ نے نے نشاندہی کرائی کہ یہاں الفاظ کی ہیر پھیر کی جارہی ہے اصل
لفظ حلف اٹھاتا ہوں ناکہ اقرار کرتا ہوں ۔ یہ لفظ قانون کا حصہ 1973کے آئین
سے موجود ہے جو اب تبدیل کیا جارہا ہے اس سے قانون میں خرابی آئے گی اور
معاملات میں خلل واقع ہوگا، اس کی تائید قائد ایوان راجا ظفر الحق اور
سینیٹر ز نے بھی کی ۔ یہ ابتدا ء تھی اس دھرنے کی جو 22دن تک اسلام آباد
اور روالپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آبا دانٹر چینچ پر ہوا اور جس نے جڑواں
شہروں کے عوام کے معاملات زندگی کو مسلسل متاثر کئے رکھا۔ یہ ملک میں نئی
بحث کے چھڑ جانے کا پیش خیمہ تب بنا جب زاہد حامد نے اسے ٹائپسٹ کی غلطی
قرار دے کر اپنے سر سے بلی اٹھانے کی کوشش کی ۔ نقطہ ء اعتراض پر اسے
معمولی غلطی قرار دیا گیا جبکہ یہ آئینی غلطی تھی البتہ بعد میں اسے درست
کرنے کی یقین دھانی کروائی گئی تاکہ بات ختم ہوجائے۔ شاید یہ بات یہیں ختم
بھی ہوجاتی مگر اس معاملا پر ابلاغ عامہ میں تبصروں نے اسے کہیں سے کہیں
پہنچادیا اور اس پر حکومت کی جانب سے ایسی دلیلیں دی گئیں ، وہ وہ موضوعات
زیر ِ ِبحث لائے گئے کہ یہ معمولی غلطی سے پہاڑ بن گیا۔ حکومتی اراکین و
وزرا ء کے اس پر جواب اور دفاع میں ان کے اپنے مسلمان ہونے پر شک گزرنے لگا۔
اپوزیشن والے تو پہلے ہی حکومت کے خلاف کوئی موقع ڈھونڈ رہے تھے یہ ترمیم
ان کیلئے موقع غنیمت ٹہری اور اس نے پورے نظام حکومت کو ساقط کردیا۔ سیکولر
اور لبرل کہالنے والی سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی مگر دبے لفظوں میں
، غالباً انہیں کسی اور شے کا بھی انتظار تھا، دینی جماعتوں کی جانب سے بھی
سخت رویہ نہیں دیکھا گیا ، ان کی جانب سے بھی مبہم اور غیر واضح انداز میں
ملامت کی گئی ، تاہم ممتاز قادری کی پھانسی سے سیاسی عمل میں آنے والی
جماعت تحریک ِ لبیک یارسول اﷲ ﷺ نے خادم حسین رضوی کی قیادت میں اسے
مسلمانوں کے ایمان کے سودا کرنے کے مترادف قرار دیدیا اور فیض آباد مقام ِ
دھرنا طے ہوا۔ دھرنے والوں کامطالبہ صرف ترمیم ک درستگی نہیں تھی بلکہ زاہد
حامد کو وزارت سے فارغ کیا جانا تھا۔ حکومت ترمیم تک کا مطالبہ تسلیم کرنے
کے حق میں تھی ، وزیر کی قربانی کا تصور غلط خیال کہا گیا۔تحریک ِ لبیک کے
مطالبے کی گونج ایوانِ اقتدار سے عام لوگوں تک پورے ملک میں سنی گئی ،
ردعمل آنا بھی شروع ہوگیا کہ آخر کیا وجہ تھی ، کون سے ضرورت آن پڑی تھی جو
اس حلف نامے کو چھیڑا گیا۔ جب جب تحریک ِ لبیک والوں کا اصرار بڑھا ، حکومت
نے عوامی آگاہی کیلئے اشتہاری مہم چلا کر معاملا رفع دفع کرانے کی کوشش کی
جو بارآور ثابت نہ ہوئی لہٰذا سابق وزیراعظم اور نون کے صدر میاں نواز شریف
درمیانی راستہ نکالنے کو آئے اور راجا ظفر الحق کی سربراہی میں ایک کمیٹی
تشکیل دیدی جو وجوہات کا تعین کرتی اور ذمہ داروں کا تعین کرنے میں معاون
ثابت ہوتی۔ کمیٹی کی تشکیل ہوئی ، راجا ظفرالحق نے رپورٹ پارٹی سربراہ کو
دی البتہ نہ یہ رپورٹ منظر عام پر آئی اور نہ ہی ذمہ داروں کا تعین کیا گیا۔
یہ صورتحال ایک اور یقینی کیفیت پیدا کرنے کا سبب بنی اور دھرنے کو اس سے
مزید توانائی ملی۔نون لیگ کی اخلاقی ساکھ کی تباہی کا ایک موجب بھی سمانے
آگیا اس سے قبل نواز شریف کی نااہلی نے اس کی ساکھ کو بہت حد تک پامال
کررکھا تھا۔میاں شہباز شریف کو پارٹی کی ساکھ عزیز تھی اور پنجاب کی سیاست
میں ابھی زندگی گزارنے کی خواہش بھی تھی سو انہوں نے بھی ذمہ داروں کے تعین
اور ان کیخلاف انتہائی اقدام پر اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا ،
شہباز شریف کے سوا دیگر صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو اس سے غرض و غایت نہیں تھی
چنانچہ ڈھکے چھپے لفظوں میں کہیں کوئی بیان دیدیا ہو ، وہ تو بس اپنے صوبے
کے مسائل میں ہی اپنا سر دھنتے دکھائی دئے ۔
پاکستان میں مذہب سے متعلق پی پی پی زیادہ تر زبان کھولنے سے گریز کرتی ہے
، ان کے یہاں سیاست سیکولر اور لبرل ازم پر قائم ہے اور سلمان تاثیر کی
ہلاکت بھی ان کیلئے وجہ ہے کہ وہ اس پر اپنی رائے دینے سے گریزاں رہی ،
قومی اسمبلی میں قائد ِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے اس ترمیم کی مذمت کی اور
حالات کو قابو میں لانے کیلئے فوج کے تعاون کا مشورہ دیا۔ تحریک انصاف ملک
میں تیسری بڑی سیاسی قوت ہے ، اس میں پارٹی مسائل اتنے ہیں کہ یہ انہیں ہی
سلجھانے میں لگی رہتی ہے ، 2018کے انتخابات کی الگ فکر اسے دامن گیر ہے ،
وہ سیاسی لوگوں کو ایک پارٹی سے کاٹ پی ٹی آئی میں ضم کرنے میں کوشاں ہے
اور سب سے اہم مسئلہ نون لیگ کو کرپٹ ظاہر کرنے کی اہم مہم پر چیئرمین سمیت
دیگر رہنما مصروف عمل ہیں ، چنانچہ اس قدر مصروفیت نے انہیں کھل کر اس اہم
مسئلہ کی جانب متوجہ ہی نہیں ہونے دیا۔ جے یو آئی نے حکومت کا ساتھ دینا ہے
لہٰذا فرض کفایہ سمجھ کر اپنی اور حکومت کی جانب سے نماز کی ادائیگی کی اور
سب کی جانب سے معافی مانگ لی ۔جماعت اسلامی جس نے تحریک ِ ختم ِ بنوت کے
قانون میں آئین کی تیاری کے دوران بھرپور اور موثر کردار ادا کیا اور بانی
جماعت جو قادیانیوں کیخلاف کتاب لکھنے کی پاداش میں پابندِ سلاسل رہے ، اس
نے بھی آئینی دائرے میں رہ کر ایوان تک آواز بلند کی حالانکہ انفرادی طور
پر جماعت کے کارکن اس دھرنے کا حصہ تھے جس نے حکومت کے دن رات کا سکون تباہ
کردیاتھا۔دھرنا جوں جوں دنوں سے ہفتوں میں تبدیل ہوتا گیا، عوامی مشکلات
میں اضافہ ہوا اور ساتھ ساتھ خادم حسین رضوی کے مطالبات بھی بڑھتے چلے گئے
، بات چیت کے دروازے بند ہونے لگے ، بات اسلام آباد ہائی کورٹ تک جاپہنچی ،
آپریشن کی نوبت آگئی ، فوج کو بلوانا چاہا لیکن آرمی چیف نے تدبر اور تحمل
سے معاملہ حل کرنے کی تجویز دی ، فوج نے ثالث ہونے کردار ادا کیا، دھرنا
کٹک ہوگیا، حکومت نے تمام مطالبات سر تسلیم ِ خم قبول کئے ، زاہد حامد کو
مستعفی ہونا پڑا ، اب جزو وقتی ہے یا مستقل بنیادوں پر ، طے کرنا باقی ہے
کیونکہ ماڈل ٹاؤن واقعہ میں پنجاب کے وزیر ِقانون مستعفی ہوئے تھے ، بعد
میں حالات قابو میں آنے کے ساتھ ہی رانا ثناء اﷲ نے پھر اس وزارت پر قابو
پالیا لیکن آمدہ خبروں کے مطابق ایک بار پھر وہ سیالوی شریف کے پیروں کے
زیر عتاب آنے والے ہیں ، ان پر فتویٰ دیا جارہا ہے کہ وہ دوبارہ کلمہ پڑھیں
ورنہ ۔۔۔۔ ان کیخلا ف دھرنا جاری ہے۔
یہ اس تفصیل کا ایک حصہ تھا، دوسرا حصہ اس سے بھی سنگین ہے کہ جب وزیر
داخلہ احسن اقبال شادمان و کامران ہوکر عدالت کو بتا نے آئے کہ ہم نے ملک
میں انتشار ، افراتفری ، ملک میں ہونے والی ممکنہ خانہ جنگی کی سازش اور
حالات خراب ہونے کے تمام خطرات کو تہہ تیغ کردیا ہے ، عدالتی سماعت میں
جسٹس شوکت عزیز رضوی نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا، انہیں انتظامیہ اور پولیس کی
تزلیل کا ذمہ دار ٹہرایا او رکہا کہ ہمیں معاملے کی حساسیت کا علم تھا لیکن
اس معاہدے سے یہ تاثر ملتا ہے گویا حکومت نام کی کوئی شے ملک میں موجود
نہیں ، کیا ہر مرض کا علاج فوج ہے ، معاہدہ کی ضرورت کیا تھی، عدالت کو تو
فیض آباد انٹر چینچ سے دھرنا ختم کرنے سے غرض تھا یہ معاہدہ کیونکر
ہوگیا۔انہوں نے فوج کو براہ راست مکاطب ہوکر کہا کہ فوج اپنے دائرہ ء آئین
میں رہے ، جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ حکومت کا دیا ہوا اسلحہ واپس
کریں ، ریٹائر ہوجائیں اور اپنا شوق پورا کرلیں ۔ معاہدہ اگر ہوا بھی ہے تو
اس میں عدلیہ کو دی جانے والی گالیوں سے متعلق معافی کی شق کیوں موجود نہیں
۔ عدالت نے کہا کہ فوج انتظامیہ کا حصہ تھی ثالث کس طرح بن گئی۔شوکت عزیز
نے ریمارکس دئے کہ ا نہیں فوج کا یہ کردار قابل ِ قبول نہیں کہ وہ قانون
توڑنے اور قانون کا نفاذ کرانے والوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے،
فوجی کیوں خواہ مخواہ ہیرو بنے پھرتے ہیں ۔ جسٹس شوکت صدیقی کافی سخت زبان
بول گئے لیکن یہ جراء ت اور بے باکی انہیں عدلیہ کے آزاد ہونے کی وجہ سے
اور قانون کی بالادستی کے قیام نے دی ہے ، انہوں نے خود ہی کہہ ڈالا کہ ان
کے اس انداز کو کس طرح لیا جاسکتا ہے ۔ وہ اس طرز عمل کے بعد کس قسم کے
رویے سے دوچار ہوں گے، وہ بھی ان افراد میں شامل ہوجائیں گے جنہیں لاپتہ
کہا جاتا ہے یا پھر سراراہ ان افراد کا نشانہ بن جائیں گے جو نومعلوم افراد
کے نام سے ملک میں قتل عام برپا کئے ہوئے ہیں۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ بادی النظر میں فوج نے جو کردار ادا کیا
ہے وہ آئین کے مطاب نہیں کیونکہ مسلح افواج ملکی قانون کے تحت مینڈیٹ سے
باہر جاسکتیں ۔ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کی گئی لیکن
حکومت اور ثالث نے دھرنے والوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ نہیں کیا۔عدالت
نے حکومت کو بطور ثالث فوج کے کردار کو واضح کرنے سمیت ذمہ داروں کے تعین
کیلئے نئی انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی ہے ۔
شوکت عزیز صدیقی نے حالیہ دھرنے میں فوج کے کردار پر جہاں سوال اٹھایا ہے
وہیں اس جانب بھی اشارہ ہوگیا ہے کہ حکومت مکمل طور پر ملک چلانے میں نااہل
ہوچکی ہے۔ حکومت سمیت دیگر سیاسی جماعتیں گزشتہ دس برسوں سے ملک میں
جمہوریت کو انجوائے کررہی ہیں ، انہیں عدلیہ اور قانون کی بالادستی پر بھی
ایمان کی طرح پختہ یقین ہے لیکن آپ کسی بھی جماعت کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ
وہ فوج کے کردار سے مرعوب نہیں ، سوائے ان جماعتوں کے جن کا سیاسی وجود اس
قابل نہیں کہ وہ ملک کے عوام کو اپنے ہونے کا درست انداز میں پتا دے
سکیں۔کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت آئین کے مطابق خود کو ڈھالنے سے عاجز ہے
کیونکہ ان میں وہ خرابیاں موجود ہیں کہ اگر وہ اس پر عمل کرنے لگ جائیں تو
شاید وہ دیوار ہی سے نہ لگ جائیں۔نواز شریف فوج کی حکمرانی کو غیرآنئی قرار
دیتے ہیں لیکن عدلیہ پر بھی وہ بھروسہ نہیں کرتے نظر آتے ۔ پہلے وہ فوج کے
ہاتھوں ا ور اب عدلیہ کے فیصلے سبب نااہل ہوئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ احسن
اقبال بھی اس دھرنے میں کسی طرح سے عدالت کا سامنا کرپائے اور نہ ہی ایک
ماتحت ادارے سے کام لے سکے۔
30نومبر کو سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق ایجنسیوں کی رپورٹ کو
مسرد کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو بدنام کرنے کے ایجنڈے پر کام کیا جارہا ہے
جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے جہاں میڈیا کے کر دار
پر تحفظات کا اظہار کیا وہیں یہ بھی کہہ دیا کہ فوج حکومت سے الگ نہیں ، وہ
انتظامیہ کا حصہ ہے ، پالیمنٹ ، انتظامیہ اور عدلیہ کے علاوہ چوتھا ستون
میڈیا ہے ، پانچواں ستون کوئی نہیں ، انتظامیہ اور فوج میں کوئی تفریق نہیں
اگر کسی نے مثبت کردار ادا کیا ہو۔ہم فوج کے کردار کے خلاف نہیں اور نہ اس
بات پر یقین رکھتے ہیں فوج اپنے آئینی دائرہ سے باہر وہ کر کوئی کام کرے،
ورنہ آپ کوئی سانحہ ہو، ملک پر کسی قدرتی آفت آئے ، سیلاب ہو یا کوئی اور
یقینی صورتحال اور بالخصوص 16برس جاری پرائی جنگ نے جس طرح سے ہمارے ملک کا
امن تباہ کیا ہے اس میں بہتری کی جتنی کوشش پاک فوج کی ہے غالباً کوئی اور
اس طرح سے ملک کے کام آیا بھی نہیں ہوگا، ہزاروں کی تعداد میں افسر او
رجوانوں کے خون سے اس مملکت خداد میں بسنے لوگوں کو امان نصیب ہوا ہے ۔
حلف نامے میں غلطی آئینی تھی ، یا غلطی جان بوجھ کر گئی یا انجانے میں ہوئی
لیکن اس نے ہماری سیاسی ماعتوں کی فہم و فراست کی قلعی کھول دی ہے ۔ دوسری
جانب خادم حسین رضوی کی سیاسی تاریخ میں کامیابی ایک نئی تاریخ رقم کرگئی
ہے، اب یہ سمجھنا بھی مشکل ہوجائے گا کہ اگلے برس کے انتخابات کس بنیاد پر
لڑے جائیں گے ، ساتھ ہی یہ بھی طے ہونا باقی ہے کہ کیا واقعی ملک میں انصاف
اور قانون کی بالادستی سے متعلق جس قدر دعوے کئے جاتے ہیں ان پر عمل کیا
جائے گا، اور خاص طور جس طرح بے باک انداز انصاف متعارف کروایا جارہا ہے
کیا منصفوں کو زندہ رہنے کی بھرپور آزادی بھی میسر ہوگی یا شوکت عزیز صدیقی
کے مطابق ہر وہ آواز دبادی جائے گی جس نے قانون کی بات کی ، ہر وہ منصف
لاپتہ ہاجائے گا یا پھر نامعلوم افراد کا ہدف بنے گا۔ اﷲ شوکت عزیز صدیقی
کو استقامت عطافرمائے ، ان کے قلم اور گفتار کو اور طاقت عطا فرمائے ، یہ
جذبہ ء حب الوطنی ہے او ر اسے جذبہ ء ایمانی ہونے کا ثبو ت فراہم کرتا ہے۔ |