میڈیا اس وقت بڑی عجب صورت حال سے گزر رہاہے۔ایک طرف اس
کی طاقت اور وسعت بڑھ رہی ہے ۔چینلز کی تعداد ، عملہ اوردفاتر دوگنے چوگنے
ہوچکے ۔دوسری اس کی ساکھ کو شدید خطرات بھی لاحق ہیں۔ اس کی مشروط وسعت ایک
ایسی بارگین کو جنم دے رہی ہے۔جو اس کا وجود تو حجیم کررہی ہے۔مگر اس کی
روح کے درپے ہے۔عوام میں میڈیا کے کردار سے متعلق منفی رائے بڑھنے لگی
ہے۔ایک وقت تھاجب لوگ نیوز چینلز سے چمٹے رہنے کو باخبر رہنے والے تصور
کرتے تھے ۔بے سمت مواد کی بھرمار نے رجحان بد ل رہی ہے۔تصویرکے دونوں رخ
پیش کرنے میں کی جانے والی فنکار ی اصل رخ کو کہیں چھپا کر رکھ دیتی ہے۔
عام فہم آدمی کے لیے کسی نتیجے پر پہنچا مشکل ہے۔ٹی وی پر بیٹھے لوگ دانستہ
نا داستہ حقائق کو گڈ مڈ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔بجائے سچ کو نکھارنے کے
جانے کیوں یہ طبقہ جھوٹ کو سچ کے ہم پلہ ثابت کرنے کی کاریگری میں
لگاہواہے۔ اس بیڈ پریکٹس کے سبب عام آدمی کے دل سے میڈیا کا وقار اور ساکھ
نکلتی چلی جارہی ہے۔اب سوائے اہم ایونٹ کے میڈیا سے چمٹے رہنے کا کلچر گھٹ
رہاہے۔دن میں کئی بار میڈیا کے کسی نہ کسی چینلز سے جڑنے والے اب کسی نئے
شغل کے متلاشی نظر آرہے ہیں۔
اسلام آباد دھرنے کی لائیو کوریج کرنے پر نجی چینلز کی بندش کو لاہور ہائی
کورٹ میں چیلنچ کردیا گیاہے۔آمنہ ملک کی طرف سے ایک درخواست دائر کرکے یہ
اقدام چیلنچ کیا گیا۔دھرنا اپریشن کے آخر میں حالات یکدم بگڑ گئے تھے۔ملک
کے چپے چپے سے لوگ سڑکو ں پر آن موجود ہوئے۔مساجد میں اعلان کروائے گئے کہ
دھرنے کے مقام تک پہنچے ۔دھرنے والوں کا کسی بھی شکل میں ساتھ دیں۔ان
اعلانوں میں ایسے ایسے الفاظ استعمال کیے جو ملک کے طول و عرض میں مذہبی
اشتعال پیداکرنے کاسبب بن گیا۔ عام آدمی کے لیے گھرمیں بیٹھے رہنا مشکل
ہوگیا۔سڑکوں پر عوام کی تعداد بڑھتی چلی جارہی تھی۔ایسے حالات میں بدقسمتی
سے میڈیا نے بھی ذمہ داری سے کام نہیں لیا۔مولوی حضرات نے جتنے لوگوں کو
لاؤڈ سپیکر سے باہر نکالا۔میڈیا پر بیٹھے کچھ مہربانوں نے اس سے بھی زیادہ
افراد کو متوجہ کیا۔یہی وہ حالات تھے ۔جب حکومت نے لائیو کوریج پر پابندی
لگانے کا فیصلہ کیا ۔پیمرا کے حکم پر جب میڈیا نے کان نہیں دھرے ،لائیو
کوریج بند نہ ہوئی تو نیوز چینلز کو کچھ وقت کے لیے بند کردیا گیا۔اگر قدرت
حرکت میں نہ آتی تو شاید کچھ مولوی حضرات کی آواز کو میڈیا اپنی فلک شگافی
سے بلندکرتا رہتا۔ آنے والے دن کسی بڑے خون خرابے کا سامان کرجاتے۔قدرت نے
ایسی غیبی چال چلی کہ ساراطوفان جدھر سے اٹھایا گیا تھا۔ادھرہی کو سمٹ
گیا۔میڈیا کو دھرنا اپریشن کی لائیو کوریج روکنے کا حکم پیمرا کی جانب سے
جاری کیا گیاتھا۔جب ا س حکم پر عملدرامد نہ کیا گیا۔چینلز کی طرف سے بد
ستور لائیو کوریج جاری رہی تو حکومت نے تمام نیوزچینلز بندکردیے یہ درخواست
اسی اقدام کے خلاف دائر کی گئی ہے۔
میڈیا کو ہر دور میں مشکلا ت کا سامنا رہا ہے۔اب بھی اسے بدنام اور ناکام
بنانے والوں کی کمی نہیں۔اس کوبرداشت کرنا اس دھڑے کے لیے کسی طور ممکن
نہیں جو قانون اور آئین کے منکر ہیں۔جو دھونس اور جبر سے کام نکلوانے کے
عادی ہیں۔یہ دھڑا جنگل کا قانون چاہتاہے۔میڈیا ان کے مذموم ارادوں کے آگے
بڑی دیوار ہے۔جنگل کا قانون چاہنے ولے یہ دیوار ڈھانے کے لیے متواتر کام کر
رہے ہیں۔میڈیا کی طاقت عدلیہ بحالی تحریک کے دوران کھل کر سامنے آئی تھی۔تب
پہلے مشرف حکومت اوربعد میں زرداری حکومت نے جس طرح بے بسی میں اپنے دانتوں
سے اپنی ہی انگلیاں چبائیں دیکھنے کی بات تھی۔میڈیا نے اپنی روشنی سے دائیں
بائیں کا ماحول اس قدر نمایاں کیے رکھا کہ وکلاء ۔نوازشریف اور رمدے گروپ
کو منزل تک پہنچنا آسان ہوا۔میڈیا کی اس طاقت کو اہل اقتدار کبھی بھی نظر
انداز کرنے پر آماد ہ نہیں ہوپائے۔من مانی پالیسیاں۔خفیہ منصوبے۔اور گمنام
مشن ،اہل اقتدار کے لیے ان کی راہ میں میڈیاکا حائل ہونا کبھی بھی بھی پسند
نہیں رہا۔ اسے کسی بھی طرح بے اثر کرنے کی خواہش ہمیشہ سے موجود رہی۔اس پر
ہمیشہ کام ہوتارہا۔اس سلسلے میں میڈیا ہاؤسز او ر بڑے میڈیا پرسنز سے
بارگین کی کوشش دیکھی جاتی رہی ہیں۔میڈیا میں موجود اس طبقے کے لیے یہ بڑی
پریشان کن بات تھی جو میڈیا کوآزاد اور حق پرست ثابت کرنے کی ذمہ دار
نبھارہا ہے۔یہ طبقہ ایسی سازشوں سے مضطرب رہا ہے۔سازشی عناصرمال وزر کے
انبار لیے ہوئے ہیں۔ کسی کو بھی راستے سے بھٹکانے کے لیے پورا بندوبست
ہے۔کل تک میڈیا ہاؤسز کرائے کے دفاتر میں تھے۔مگر ساکھ او روقار تھا۔اب
ملٹی سٹوریز آفسز تو ہیں۔مگر عوام کی بے زاری کیوں بڑھ رہی ہے۔اس سوال کا
جواب ڈھونڈنا ہوگا۔سائیکلوں پر دفتر پہنچنے والے صحافی حضرات بڑے بڑے
بنگلوں میں تو پہنجچ گے۔مگر ان کے الفاظ کا دبدبہ اب جانے کہاں گم
ہوگیا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ میڈیا سے بغض رکھنے والوں نے اس کے خوف کا کوئی
نہ کوئی مناسب توڑ ڈھونڈ لیا ہے۔ |