وائس آف امریکہ نے یہ خبر شائع کی ہے کہ امریکہ کی سپریم
کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کو چھ مسلمان ملکوں کے شہریوں کی امریکہ
آمد پر لگائی جانے والی پابندی کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی اجازت دیدی ہے
البتہ پابندی کی قانونی حیثیت کے متعلق ذیلی عدالتوں میں مقدمات جاری رہیں
گے۔
پیر کو سنائے جانے والے فیصلے میں سپریم کورٹ کے نو میں سے سات ججوں نے
پابندی کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کے حق میں فیصلہ دیا۔
عدالتِ عظمیٰ کے دو لبرل ججوں – رتھ بیڈر اور سونیا سوٹومیئر – نے اکثریت
کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ذیلی عدالتوں کی جانب سے صدارتی حکم
نامے کی جزوی معطلی برقرار رہنی چاہیے۔
عدالت نے اپنے فیصلے کی وجوہات بیان نہیں کی ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سفری پابندی سے متعلق جاری کیا جانے والا یہ
تیسرا حکم نامہ تھا جس میں چھ مسلمان ملکوں – ایران، لیبیا، صومالیہ، شام،
یمن اور چاڈ - کے علاوہ شمالی کوریا اور وینزویلا کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
لیکن امریکی ریاستوں میری لینڈ اور ہوائی کی عدالتوں نے ٹرمپ حکومت کے اس
حکم نامے میں دو شرائط شامل کرتے ہوئے اس پر جزوی عمل درآمد کی اجازت دی
تھی جس کے خلاف ٹرمپ حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
ذیلی عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں حکم نامے میں شامل چھ مسلمان ملکوں کے ان
شہریوں کو امریکہ میں داخلے کی اجازت دیدی تھی جن کے امریکہ میں قریبی رشتے
دار موجود ہوں یا جن کا کسی امریکی ادارے یا کمپنی سے باضابطہ تعلق ہو۔
لیکن عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اب چاڈ، ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور
یمن کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی مکمل طور پر نافذ العمل ہوگی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے حکم نامے میں شمالی کوریا کے شہریوں اور وینزویلا کی
حکومت کے بعض عہدیداروں کے امریکہ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی
لیکن ذیلی عدالتوں نے ان پابندیوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا جس کے باعث
وہ پہلے سے ہی نافذ العمل ہیں۔
نئی پابندیوں کے حکم نامے کو امریکی ریاست ہوائی اور امریکہ میں شہری آزادی
کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم 'امریکن سول لبرٹیز یونین' نے بھی سپریم کورٹ
میں چیلنج کر رکھا تھا جن میں درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ سفری پابندی
سے متعلق صدر ٹرمپ کے نئے حکم نامے میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک
برتا گیا ہے جو امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔
امریکہ کی طرف سے آئے دن مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی خبر شائع ہوتی رہتی
ہے اور ان خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں پاکستانی میڈیا کے علاوہ
امریکی میڈیا ہمیشہ پیش پیش رہا ہے امریکی میڈیا جیسے بی بی سی اور وائس آف
امریکہ اردو زبان میں جھوٹی اور من گھڑت خبریں شائع کرنے میں اپنی مثال آپ
ہیں ۔ لیکن اس میں ان کا اپنا کوئی خاص کمال نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی اپنی
بے حسی اور آپس کے اختلافات ہیں ۔
اس طرح کی خبریں مسلمانوں کو ان کی اصلیت دکھانے کے لئے بھی نشر کی جاتی
ہیں تا کہ ان کو پتا چلے کہ تم لوگ امریکہ کے رحم و کرم پر ہو اور امریکہ
جب چاہے جیسا چاہے کر سکتا ہے کوئی اسے روک نہیں سکتا ہماری بدبختی یہ ہے
کہ ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ بس ہمارے ساتھ امریکہ کے تعلقات اور روابط اچھے
ہیں باقی جائیں جہنم میں ہمیں کیا لیکن ہم لوگ یہ نہیں سوچتے کہ آج جو
پریشانی دوسرے اسلامی ممالک پر آئی ہے کل ہم پر بھی آ سکتی ہے شائد آپ
لوگوں کو یاد ہو گا کہ دوبیلوں کی دوستی اور اتفاق کی کہانی اسی طرح ایک
بوڑھے کسان کی لکڑیوں کے گٹھے کی کہانی جس سے وہ اپنے بیٹوں کو اتفاق کی
مثال دیتا اور سمجھاتا ہے لیکن اب یہ سب بچوں کی کہانیاں ہیں جو فریشمنٹ کے
لئے بیان کی جاتی ہیں ۔
امریکہ کی طرف سے لگائی جانے والی اس طرح کی پابندیوں کا بہترین حل یہی ہے
کہ مسلمان ممالک اپنے اختلافات ختم کریں اور مل کر امریکہ سے بائیکاٹ کر
لیں صرف ایک بائیکاٹ سے ہی امریکہ کی آنکھیں کھل جائیں گی لیکن مسلمان ایسا
کبھی نہیں کریں گے اور نہ ہی امریکہ مسلمانوں کو اس قسم کے قدم اٹھانے کی
اجازت دے گا کیونکہ کوئی بھی کسی دوسرے کی خاطر اپنے مفادات کا سودا نہیں
کر سکتا۔ |