طلباء سیاست کی تاریخ کی بات کی جائے تو اس حوالے سے
پاکستان میں طلبا سیاست کئی عروج و زوال سے بھری پڑی ہے جس کی مثال ہمیں
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اٹھنے والی طلبا تحریک میں ملتی ہے۔
طلباء سیاست کیوں ضروری ہے اور پاکستان میں اس پر کیوں پابندی لگائی گئی؟
اس سوال کو تلاش کرنا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو پاکستان میں صحیح معنوں
ہیں سیاست کرنا چاہتا ہے ہر وہ شخص جو سیاست میں عام آدمی کی بات کرنا اور
سیاسی عمل میں اس کی شمولیت دیکھنا چاہتا ہے اس کو اس سوال کو ضرور سمجھنے
کی ضرورت ہے۔
ملک کی دو نسلوں نے طلبا سیاست کا اصل روپ نہیں دیکھا اگر کسی حد تک دیکھا
بھی ہے تو وہ جمیعت کی غنڈہ گردی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا جس سے نا صرف
طلبا نے راہ فرار اختیار کی بلکہ والدین اور کالج یونیورسٹوں نے بھی برا
سمجھا۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ طلباء کو سیاست سے دور رہنا چاہیے وہ اس طرح کے دلیل
دیتے نظر آتے ہیں۔
ان کی پہلی اور آخری دلیل یہی ہوتی ہے کہ طلباء سیاست ہو گی تو اس سے
تعلیمی اداروں میں غنڈا گردی میں آضافہ ہو گا اور طلباء تعلیم کی طرف توجہ
نہیں دے سکیں گئے۔
کچھ سیاسی جماعتیں جو آمروں کے کندھوں پر بیٹھ کر آتی ہیں کیوں کہ ان کی
عوام میں کوئی جڑیں نہیں ہوتیں اور زور اور طاقت کے بل بوتے پر آتے ہیں وہ
ہمیشہ طلباء کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا موقف یہ ہوتا ہے
کہ طلباء اگر سیاست میں آئیں گئے تو سیاست پر ان کی جو اجارہ دارہ قائم ہے
وہ ختم ہو جائے گی۔
اپنی لازوال جدوجہد سے طلباء تنظیموں نے بہت سے حاصلات بھی لیں جن میں
ابتدائی بنیادی تعلیم کا مفت ہونا، بسوں اور ٹرینوں کے کرایوں میں خصوصی
رعایت، تعلیمی اداروں میں کھیل اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں کاانعقاد
کروانا جیسی کامیابیاں سرفہرست ہیں۔
طلباء تنظیموں کا یہ خاصہ بھی رہا ہے کہ تعلیمی معاملات خصوصاً نصاب کی
ترتیب، نئے کالج اور یونیورسٹیوں کا قیام اور اسی کی مناسبت سے ہوسٹلوں اور
میس کی تعداد میں بڑھوتری وغیرہ شامل ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ملک کی عمومی
سیاست و ثقافت میں ایک اہم عنصر کے طور پر طلباء تنظیموں کا وجود رہا ہے۔
پاکستان میں بائیں بازو اور طلباء سیاست کی بیناد رکھنے والی طلباء تنظیم
کی کریں تو ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن وہ واحد طلباء تنظیم تھی جس نے طلباء
کے مسائل کو پہلی بار اجاگر کیا اور فیسوں کے خلاف آواز بلند کی جسے حکومت
نے فوراۤ بین کر دیا اور بعد ازاں ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں نے
نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن وہ واحد طلباء
تنظیم تھی جس نے نا صرف طلباء کے مسائل کی بات کی بلکہ ملکی سیاست میں میں
ایک اہم کردار ادا کیا۔
مرد حق مرد مومن نے جمعیت کے ہاتھ اسلحہ دیکر تعلیمی اداروں میں دھنگے شروع
کروا دئیے جس سے طلباء یونین کو بین کرنے کا بہانہ مل گیا اور 1984 میں
طلباء یونین پر پابندی لگا کر جمعیت کو کھلے عام بدمعاشی کرنے کی چھٹی مل
گی اور بائیں بازو کی سیاست کرنے والے تمام تنظیموں پر تعلیمی اداروں میں
کام کرنے پر پابندی لگا دی گی۔
2008 میں کچھ ساتھیوں نے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی دوبارہ بنیاد رکھی اور
عدلیہ بحالی تحریک میں حصہ لیا جس سے پنجاب سمیت سندھ اور کے پی کے کے
طلباء نے حصہ لیا اور 2011 میں فیصل آباد میں اپنا پہلا کنونشن کروانے میں
کامیاب ہو گئے اور اس طرح 2011 میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کا باقاعدہ آغاز
ہو گیا۔
پہلے کنونشن میں عرفان چوہدری کو صدر جبکہ عالیہ امیر علی کو جنرل سیکرٹری
منتخب کیا گیا اور تین سال تک نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کو پنجاب سمیت ملک کے
دوسرے صوبوں تک پھیلانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
اور اس سلسلے میں دوسرا کنونشن 2014 میں شیخو پورہ میں منعقد کیا گیا لیکن
اس کنونشن میں منتخب ہونے والی قیادت زیادہ دیر اپنی جدوجہد جاری نا رکھ
سکی اور جلد ہی خاموش ہو گئی۔
13 اکست 2017 میں ایک بار پھر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (آزاد) کے نام سے ایک
تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جس کی قیادت احمد خان کر رہے ہیں۔
نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (آزاد) نے اپنا پہلا تربیتی سکول پاکپتن میں25/26
نومبر کو منعقدکیا جو کہ پورے پاکستان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے
ساتھیوں اور طلباء کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
تعلیم کی نجکاری کی وجہ سے جہاں پرائیویٹ تعلیمی ادارے تیزی سے پھیل رہے
ہیں ایسے میں طلبا سیاست کو ایک بار پھر سے منظم کرنے کی ضرورت ہے اور
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے تمام لوگ جو طلباء سیاست کو تعلیمی اداروں میں
پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں وہ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (آزاد) کی رہنمائی
کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تحریک کو منظم کرنے میں مدد بھی فراہم کریں۔ |