میاں نوازشریف کی سپریم کورٹ سے پانامہ لیکس کیس میں
نااہلی کے بعدوہ آئین کے تحت پارٹی سربراہی کیلئے بھی نااہل ہوئے اس نااہلی
کوختم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کافیصلہ کیاگیااس فیصلے پر عملدرآمد کا
پہلا مشکل مرحلہ سینیٹ سے ترمیم کی منظوری کاتھاجس کیلئے حکومت نے زبردست
حکمت عملی کامظاہرہ کیااورسینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجوداس ترمیم
کومعمولی اکثریت سے منظورکرایاگیااگراس وقت تحریک انصاف کے سینیٹرزایوان
میں اپنی موجودگی یقینی بناتے توحکومتی جماعت اس ترمیم کومنظورکرانے میں
کامیاب نہ ہوتی سینیٹ سے ترمیم کی منظوری کے وقت پراسرارطورپریاتوخاموشی
اختیارکی گئی یاسنی ان سنی کرکے ترمیم کی راہ ہموارکی گئی جس کاواضح
مقصدیہی ہوسکتاہے کہ مذکورہ ترمیم نوازشریف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے حق
میں تھی ان میں سے کوئی بھی سیاسی راہنما یاسیاسی جماعت کاسربراہ کسی بھی
وقت نااہل ہوسکتاہے کسی کادامن صاف نہیں سب کسی نہ کسی طورکرپشن میں ملوث
ہیں اورنااہلی کی یہ تلوارکسی کی گردن پربھی پڑسکتی ہے لہٰذانااہل شخص
کوپارٹی سربراہ یاصدرکے طورپرقبول کرناتمام سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہے اسی
مجبوری کومدنظررکھتے ہوئے ترمیم کوسینیٹ سے منظورکرانے میں بلواسطہ
یابلاواسطہ معاونت کی گئی مگربعدکے حالات وواقعات کے پیش نظرپیپلزپارٹی نے
نوازشریف کوٹف ٹائم دینے کیلئے سینیٹ سے اپنی اکثریت کے بل بوتے اس ترمیم
کی منسوخی کیلئے ایک بل منظورکرایاجسے قومی اسمبلی سے پاس کرنے کیلئے
ممطلوبہ اکثریت دستیاب نہیں تھی بل پیش کرنے والوں کوبھی اس بات کا بخوبی
علم تھاکہ وہ یہ بل قومی اسمبلی سے منظورنہیں کرواسکیں گے کیونکہ قومی
اسمبلی میں اپوزیشن کی تمام پارٹیاں مل کربھی حکومت کے مقابلے میں کہیں کم
ہیں مگربل کودھوم دھڑاکے کے ساتھ قومی اسمبلی میں پیش کیاگیااگراس بل کی
منظوری اس قدراہمیت کی حامل ہوتی تو تحریک انصاف کے سربراہ ووٹنگ عمل میں
حصہ لیتے مگرانہوں نے بل پیش کئے جانے کے دن قومی اسمبلی میں حاضری بھی
یقینی نہیں بنائی شائدانہیں علم تھاکہ یہ مسئلہ سیاسی پوائینٹ سکورنگ کیلئے
اٹھایاگیاہے اورپیپلزپارٹی اس سے فائدہ اٹھاناچاہتی ہے پیپلزپارٹی نے اس
حوالے سے کافی سے زیادہ سرگرمی دکھائی ،اسمبلی فلورپرتقریریں ہوئیں،
شورشراباکیاگیا، برابھلا کہاگیا، طعنے دئے گئے اورخودکوپارساثابت کرنے
کیلئے ایڑھی چوٹی کازورصرف کیاگیامگراس ساری اٹھاپٹخ شورشرابے اورتقاریرسے
وہ کچھ توحاصل کیاگیاجسے حاصل کرنامقصودتھامگرعوام کی بھلائی ،قانون کی
بالادستی ،اوربدعنوانی کی روک تھام کیلئے کچھ نہ کیاجاسکاجیساکہ میں
اوپرعرض کرچکاہوں اگرواقعی اپوزیشن کی جماعتیں کرپشن روکنے کیلئے مخلص
ہوتیں،کرپٹ سیاسی راہنماؤں کاراستہ روکنامقصودہوتا،مطمح نظرکرپشن کی روک
تھام ہوتاتوسینیٹ سے بل کوپاس ہی نہیں ہونے دیاجاتاجہاں حکومت کواکثریت
حاصل نہیں وہاں سے توحکومت نے بڑے آرام سے یہ ترمیم منظورکرائی مگرجہاں
حکومت کوواضح اکثریت حاصل ہے وہاں سے یہ ترمیم مستردہوجاتی اس بات کی توقع
ہی دیوانے کاخواب ہے دراصل تقریباًتمام سیاسی جماعتیں کرپشن کے روک تھام کی
خواہاں نہیں وجہ اسکی صاف ظاہرہے کہ 99.99%سیاستدان گلے گلے تک کرپشن میں
دھنسے ہوئے ہیں اگریہ جماعتیں کرپشن کی روک تھام میں مخلص ہوتیں تو روزانہ
اربوں روپے کرپشن کی نظرنہ ہوتے،روزانہ اس ملک کاغریب بھوکوں نہ مرتا،دووقت
کی روٹی کیلئے دردرکی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں اورہردفترمیں نذرانوں
کادوردورہ نہ ہوتاجن جماعتوں نے نااہلی بل پوائینٹ سکورنگ کیلئے قومی
اسمبلی میں پیش کیاانکی صوبائی حکومتوں میں کرپشن کاراج نہ ہوتاکوئی غریب
بھوکانہ مرتااورکسی سرکاری دفترمیں سائل کومٹھیاں نہ گرم کرنی پڑتیں اس بل
کے پیش کرنے کااصل مقصدحکومت کی اکثریت چیک کرناتھا،حکومت کی کمزوریاں
سامنے لاناتھا،حکومت کیلئے مشکلات پیداکرناتھا،سیاسی شوکرناتھااورحکومت کی
توجہ عوامی مسائل سے ہٹاناتھااگرواقعی یہی مقاصدتھے تویہ حاصل کرلئے گئے
اسمبلی میں تقریریں بھی ہوئیں ،حکومت کی مذمتیں بھی ہوئیں میڈیاکے ذریعے
بیانات بھی سامنے آئے اوراپنے حلقہء اثرمیں واہ واہ بھی ہوئی اسکے علاوہ اس
بل سے کوئی فائدہ نہ ہوسکااگریہ جماعتیں کرپشن کوروکنے کی خواہاں ہیں
اورکسی کرپٹ شخص کوعوامی عہدہ حاصل کرنے سے روکناچاہتی ہیں توایک ایسابل
پارلیمنٹ میں پیش کیاجائے جس کے تحت کسی بھی قسم کی اخلاقی اورمالی کرپشن
کرنے والے شخص پرکوئی بھی عوامی یاسرکاری عہدہ رکھنے کی پابندی ہو،وہ کسی
بھی سیاسی جماعت کاعہدہ رکھنے بلکہ اس میں شمولیت تک کااہل نہ ہو یہاں
کرپشن کے خلاف تقریریں توبہت ہوتی ہیں کرپشن کانام توکثرت سے لیاجاتاہے
دوسروں کوکرپٹ قراردیاجاتاہے اورانکی نااہلی کیلئے بھی ایڑھی چوٹی
کازورلگایاجاتاہے مگرکرپشن کے خلاف نظرآنے والے اقدامات نہ ہونے کے
برابرہیں کرپشن کی تحفظ کیلئے سب ایکاکرکے بیٹھے ہوئے ہیں اس ملک کاسب سے
بڑامسئلہ نوازشریف نہیں بلکہ وہ توایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں انہوں
نے اگرکوئی کرپشن کی ہے ،کسی بے قاعدگی میں ملوث پائے گئے ہیں کسی بدعنوانی
میں ان کانام موجودہے توانہیں اس کی سزابھگتناپڑرہی ہے وہ وزیراعظم ہاؤس سے
راندۂ درگاہ قرارپاگئے ہیں وہ آئے روزاحتساب عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں
اوران کاٹرائل جاری ہے ملک کے بڑے مسائل مہنگائی ہے،بجلی اورگیس کی
لوڈشیڈنگ ہے ،امن وامان کی خراب صورتحال ہے ،زندگی کاتحفظ ہے ، جمہوریت
کاتسلسل ہے، بڑھتی ہوئی آبادی ہے، ٹریفک کے مسائل ہیں،سڑکوں کی کمیابی
ہے،سرکاری اداروں میں کرپشن ہے ،پینے کاپانی ہے اورغربت وبیروزگاری ہے کسی
سیاسی جماعت کوتوفیق نہیں ہورہی کہ وہ ان مسائل کوپارلیمنٹ میں لائے ان
پربحث وتمحیص ہو عوامی نمائندے عوام کے حقیقی مسائل کو پارلیمنٹ میں
اٹھائیں اورحکومت کوان مسائل کے حل پرمجبورکریں نوازشریف کونااہل کرانے
کیلئے پارلیمنٹ میں بل پیش کرناپشتومحاورے کے مطابق ’’ہندوستڑے اوخدائے
ناراضہ‘‘ یعنی ہندونے خودکوعبادت کرکے تھکایااسکے باوجودخداناراض ہے والے
معاملے کے سواکچھ نہیں جب اپوزیشن پارٹیوں کوبخوبی علم بھی ہے کہ وہ قومی
اسمبلی سے کوئی بل منظورکرانے کی پوزیشن میں نہیں اسکے بعداس بل کوپیش کرنے
کامقصدہی فوت ہوجاتاہے اس سے بہترہوتاپیازٹماٹراورمٹرکی قیمتوں پربحث کیلئے
کوئی بل یاقرارداداسمبلی میں پیش کیاجاتاروزمرہ استعمال کی ان معمولی اشیاء
کی قیمتیں سو روپے کلوگرام سے کم نہیں ہورہیں کروڑپتی اورمراعات یافتہ
اراکین اسمبلی کو اسکی پرواہی نہیں جہاں سے گیس نکل رہی ہے آئینی طورپراس
علاقے کوترجیحی بنیادوں پرگیس مہیاکرناحکوت اورریاست کی ذمے داری ہے جوپوری
نہیں کی جارہی اسکے خلاف کسی سیاسی جماعت کوقراردادیابل لانے کی ضرورت ہے
جوکہ خالصتاً عوامی مسئلہ ہے سیاسی تقریریں ،الزامات اورجوابی الزامات ،پگڑیاں
اچھالنا،برابھلا کہناحتیٰ کہ گالم گلوچ کے مشاغل تواسمبلی کے باہربھی ہورہے
ہیں جلسوں دھرنوں اورٹاک شوزمیں بھی یہی کچھ ہورہاہے قانون سازاداروں کوان
الائشوں سے پاک رکھنے کی ضرورت ہے قومی اسمبلی میں نااہلی بل پیش کرنا کوئی
عوامی خدمت نہیں تھی بلکہ یہ ایک سیاسی شوتھاجوناکامی سے دوچارہوا۔ |