کیا مسلم لیگ ن کی مقبولیت کم ہو رہی ہے ؟

یہ سوال اب شدت سے سامنے آرہاہے کہ فیض آباد اور لاہور کا دھرنا تو ختم ہوگیا کیا اس کے منفی نتائج مسلم لیگ کی مقبولیت کو کم کرسکتے ہیں ؟شہباز شریف کی وجہ سے ابھی تک پنجاب کے ووٹر مسلم لیگ کی جیب میں تھے لیکن تحریک لبیک یارسول اﷲ کے دھرنے کے دوران جس طرح حکومت کو ہر سطح پر پسپائی کا سامناکرنا پڑا اور بعدازاں تحریک لبیک یا رسول اﷲ نے الیکشن میں بطور سیاسی جماعت حصہ لینے کا اعلان کردیا۔ یہ تمام عوامل مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں حد درجہ کمی کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں عمران خان ٗ آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے لیے لوہے کاچنا ثابت ہوں گے۔ ان کے جلسوں میں جس قدر بڑی تعدادمیں لوگ شریک ہورہے ہیں اور جب بھی عمران خان نے انہیں کال کرتے ہیں تو کراچی سے پشاور تک کارکن کسی خوف کے بغیر دوڑے چلے آتے ہیں ۔کارکنوں کا یہی جوش وخروش دوران الیکشن کامیابی کی ضمانت بنتا ہے ۔ بے شک ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف پنجاب میں ہارتی چلی آئی ہے لیکن ووٹوں کا فرق دن بدن کم ہوتا جارہاہے اگر تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی بھی انتخابی اتحاد کرتی ہے تو نوازشریف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی یقینا مشکل ہو جائے گی ۔ احسن اقبال کے بقول حلف نامے میں تبدیلی کرنے والوں میں تحریک انصاف کے اراکین سمیت تمام جماعتوں کے لوگ شامل تھے ۔اگر ایسا ہے تو پھر حکومت نے دانستہ خاموشی کیوں اختیار کیے رکھی اور ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کا واقعہ حکومت کے خلاف ایک سازش ہی ہو ۔لیکن حکومت نے زاہد حامد کو بچانے کے لیے اپنی ساکھ کو داؤ پرلگا کر خود اپنے پاؤں پر کہلاڑی ماری اور دھرنے کی ساری کالک اپنے چہرے پر لگا لی اورمذہبی جماعتوں اور معروف گدی نشینوں کی نظرمیں خود کو گرا لیا ۔21 روزہ دھرنے کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی جو رسوائی ہوئی ۔اس نے ملک کی نیک نامی پر ایسا دھبہ لگا یا ہے جسے جلدی دھویا نہیں جاسکتا۔بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ٗ کراچی میں امن کا قیام ٗ ممکن حد تک دہشت گردی کا خاتمہ ٗ کرکٹ کی وطن عزیز میں واپسی ٗ درجن بھر موٹرویز کی تعمیر ٗاسلام آباد ائیر پورٹ کی تکمیل ٗ اور سی پیک جیسے کثیر الامقاصد منصوبوں کا کریڈٹ بلاشبہ مسلم لیگ ن کو جاتاہے ۔ لیکن ایک جانب نواز شریف کی اپنی شخصیت متنازعہ ہوچکی ہے وہ لاکھ کہیں کہ میں نے کرپشن نہیں کی لیکن وہ دنیا بھر میں کرپٹ مشہور ہوچکے ہیں اور جو شخص کرپٹ اور بدیانت مشہورہوجائے اسے زیادہ ووٹ نہیں ملتے ۔ اس وقت شہباز شریف وننگ لیڈر ہیں جن کی کارکردگی ہر اعتبار سے بہترین ہے بلکہ دنیا بھر میں ان کے کام کرنے کی رفتار مشہور ہوچکی ہے لیکن وہ بھی آجکل ماڈل ٹاؤن کیس کی زد میں ہیں انہیں اقتدار سے اتارنے اور ہر سطح پر بدنام کرنے کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری لاہوروارد ہوچکے ہیں ۔ عمران خان ٗ شیخ رشید ٗ چودھری برادران جیسے احتجااجی سیاست کے ماہر سیاست دان انکے گرد تیزی سے جمع ہورہے ہیں اگر انہوں نے بھی پنجاب حکومت کے خلاف شاہراہ قائداعظم پر دھرنا دے ڈالا پھر شہباز شریف کو بھی نجات کاکوئی راستہ نہیں ملے گا اور یہ پنجاب کی بدقسمتی ہوگی۔دوسری جانب سیال شریف کے گدی نشین حمید الدین سیالوی پنجاب حکومت کے خلاف میدان میں اتر چکے ہیں ان کے بقول 30 ایم پی اے اور ایم این اے کے استعفے ان کی جیب میں ہیں انہوں نے 10 دسمبر کو جلسے کا اعلان بھی کررکھاہے جس کی حمایت ڈاکٹر اشرف جلالی کرچکے ہیں ۔وہ رانا ثناء اﷲ کے استعفی پر مصر ہیں لیکن شریف برادران ایک بار پھر رانا ثنا ء اﷲ جیسے متنازعہ شخص کو بچانے کے لیے مسلم لیگ کی اچھی شہرت کو داؤ پر لگانے پر تیار ہیں ۔ رانا ثنا ء اﷲ کو ہر حال میں استعفی تو دینا ہی پڑے گا۔ چاہے وہ ماڈل ٹاؤن کیس کی وجہ سے مستعفی ہوں یا حمید الدین سیالوی کے مطالبے پر ۔ ان کا جانا اب ٹھہر چکا ہے ۔ اگر شریف برادران نے فیض آباد والی غلطی دھرائی تو حالات یہاں بھی بے قابو ہوسکتے ہیں ۔انہیں چاہیے کہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے نواز اور شہباز دونوں سیال شریف جاکر گدی نشین سے ملیں اور ان کی غلط فہمیاں دور کریں۔حالات کس طرف جاتے ہیں ان کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہاجاسکتا لیکن یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ آنے والے الیکشن مسلم لیگ کے لیے زیادہ سازگار نہیں ہوں گے ۔ شریف فیملی کی کر پشن کہانیاںٗ عدالتی فیصلے ٗ زاہد حامد اور رانا ثنا ء اﷲ جیسے بدنام زمانہ لوگوں کی پشت پناہی مسلم لیگ کو بحیثیت سیاسی جماعت مشکل میں ڈال سکتی ہے ۔ ختم نبوت میں تبدیلی کی وجہ سے مذہبی ووٹوں کی بہت بڑی تعداد مسلم لیگ کو خیر باد کہہ جا نے کے امکانات ہیں باقی کسر مسلم لیگ ن کے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات کی عوام سے دوری کام دکھائے گئی۔ جنہوں نے الیکشن جیتنے کے بعد دوبارہ اپنے حلقے کے عوام کو اپنی شکل بھی نہیں دکھائی بلکہ وہ موبائل سمیں ہی تبدیل کرڈالی جن کے نمبر کارکنوں کے پاس موجود تھے ۔مسلم لیگ کی ساڑھے چارسالہ کارکردگی بہترین ہے لیکن اس کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی صفر ہے جو یقینا نتائج پر اثر انداز ہوگی ۔ اس کا فائدہ عمران خان کو ملنے کی امید ہے جو وننگ پوزیشن کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں بلکہ مقتدر حلقوں نے انہیں کامیابی کا یقین بھی دلا دیا ہے ۔اگر مسلم لیگ ن نے بروقت اورصائب اقدامات نہ کیے اور ثناء اﷲ جیسے متنازعہ شخص کی پشت پناہی جاری رکھی تو حالات کنٹرول سے باہر ہوسکتے ہیں اور مقبولیت بھی کم ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784486 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.