ریمارکس عدالتِ عظمیٰ کے ہوں یا عدالتِ عالیہ کے، اکثر
عوام کے دل کی آواز ہوتے ہیں۔ (واضح رہے کہ یہ جملہ ریمارکس کے بارے میں
لکھا گیا ہے، فیصلوں کے بارے میں نہیں)۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک معزز جج نے
جعل سازی کے ایک مقدمہ میں اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ’’․․․ افسر کرپشن
ختم نہیں کر سکتے تو اپنے حق میں قانون سازی کروالیں اور اپنا اپنا حصہ
مقرر کروالیں ․․․ معمولی تنخواہ لینے والا پٹواری اور تھانے کے تفتیشی
افسروں نے رشوت لینے کے لئے ماورائے قانون دس دس منشی پال رکھے ہیں ․․․
کرپشن نے ملکی جڑیں کھوکھلی کردیں، افسروں کی کرپشن اور نااہلی سے بڑے
سانحات جنم لے رہے ہیں ․․ غیر قانونی کام پر عدالتیں خاموش نہیں رہ سکتیں․․․‘‘۔
ان ریمارکس سے ایک بات تو یہ سمجھ آتی ہے کہ کرپشن ختم کرنے کا بھاری بوجھ
سرکاری افسروں کے ناتواں (نازک بھی کہا جاسکتا ہے) کندھوں پر ہے، انہوں نے
ہی یہ خدمت سرانجام دینی ہے، حالانکہ کرپشن کا آغاز ہی سرکار سے ہوتا ہے۔
عام آدمی یا ذاتی کاروبار کرنے والا کرپشن تو کر سکتا ہے، مگر قومی خزانے
میں نقب نہیں لگا سکتا۔ اگر کوئی ٹھیکیدار یا اسی قسم کا کوئی اور فرد
کرپشن کرتا ہے تو یقینا سرکاری افسر یا اہلکار وغیرہ کے تعاون سے ایسا ممکن
نہیں۔ چنانچہ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ جو لوگ خود کرپشن کے بانی ہیں، یا اس
راہ کے مسافر ہیں، وہ کفرانِ نعمت کا ارتکاب کیونکر کر سکتے ہیں؟
معزز جج نے کرپشن کرنے والے افسران کے لئے دوسرا راستہ یہ تجویز کیا ہے کہ
اگر وہ کرپشن کو ختم نہیں کر سکتے تو اپنے لئے قانون سازی کرکے اس ’خدمت‘
کو قانون کے حصار میں رکھ کر مخالفین سے محفوظ کرلیں۔ جنابِ عالی! عدالت سے
بہترکوں جانتا ہے کہ پاکستان میں بہت سے محکموں میں سرکاری افسران نہایت
دیانت دار اور اصول پسند ہیں۔ ان کے محکموں میں کمیشن کے معیارات طے شدہ
ہیں، کسی بھی ترقیاتی کام میں ہر سرکاری اہلکار کو اس کا حصہ بقدر جُثہ (گریڈ
یا اختیارات) مل جاتا ہے، اس کے لئے نہ تو اسے کسی کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے،
نہ کوئی تگ ودو کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی فکر مندی کی ضرورت ہوتی
ہے۔ یوں اس کارِ خیر کے لئے قانون سازی کی چنداں ضرورت نہیں، یہ وہ آئین ہے
جو سینہ بہ سینہ چلتا اور اس پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ ترقیاتی کام کروانے
والے سرکاری محکموں کے دفاتر کے باہر کھڑی (سائلوں کی) گاڑیوں سے بھی
محکموں کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا۔ جب کوئی ٹھیکیدار اپنے
متعلقہ محکمہ کے افسروں وغیرہ کو کمیشن دے دیتا ہے توپھر کام میں اس کی
اپنی صلاحیت ہے کہ وہ کس قدر بچت کر سکتا ہے۔ یہ کمیشن سسٹم ہی ہے جس کے
بارے میں ضرب المثل بن چکی ہے کہ ’’پاکستان میں یہ وہ کرپشن ہے جو نہایت ہی
دیانتداری سے پایہ تکمیل کو پہنچائی جاتی ہے‘‘۔
پٹواریوں اور تھانے کے عملے کے ’اختیارات‘ بھی اس قدر ہیں کہ جو اُن کی
گرفت میں آجائے اس کا خون نہایت آسانی سے نچوڑ لیتے ہیں، اُن کے افسران
عموماً قانون کی الف ب سے ناآشنا ہوتے ہیں، اس لئے زیادہ بوجھ نچلے طبقے پر
ڈال دیا جاتا ہے، نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام سے اپنی وہ وصولیاں بھی
کرلیتے ہیں، جو عوام کے ذمے واجب بھی نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان طبقات
کے بہت سے غریب خانے ہوتے ہیں، جگہ جگہ پلاٹ موجود ہوتے ہیں، گاڑیوں کی بھی
بہتات ہوتی ہے، طرزِ زندگی شاہانہ ہوتا ہے، (شکل سے خواہ وہ مسکین ہی
دکھائی دیں)۔ سیاستدان چیختے رہتے ہیں کہ آخر کرپشن کا الزام صرف اُنہی پر
کیوں؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ جب بااختیار ہوتے ہیں تو خود
کرپشن میں کسی نہ کسی طرح الجھ جاتے ہیں، اگر بچ بھی نکلیں تو وہ اپنا یہ
فریضہ نبھانے میں ہمیشہ کاہلی بلکہ نااہلی کا ثبوت دیتے ہیں کہ سرکاری
افسران اور اہلکاران کا احتساب کرکے انہیں سزا دے سکیں، اس راہ میں دیدہ
نادیدہ رکاوٹیں انہیں آگے نہیں بڑھنے دیتیں، یوں وہ کرپشن کو روکنے میں
ناکام رہتے ہیں ۔ ہر حکومت احتساب کا نعرہ بھی لگاتی ہے، اور سابق حکومت پر
یہ الزام بھی کہ کرپٹ مافیا کو کسی نے نہیں پکڑا۔بھئی کس نے پکڑنا تھا؟
ظاہر ہے حکومتوں نے اور فیصلے کرنے تھے عدلیہ نے، بلاشبہ عوام بھی اس میں
شامل ہیں، مگر اصل قصور بااختیار کا ہوتا ہے، بے بس تو بے چارہ ہوتا ہے۔ جب
تک طاقتور کرپٹ مافیا کو گردن سے نہیں پکڑا جائے گا، معاملہ الجھا رہے گا۔ |