تاریخ لکھی جائے گی کہ یہودی اپنے مسیح الدجال کو خوش
آمدید کہنے کیلئے تمام تر انتظامات مکمل کر چکے تھے لیکن مسلمان حرس و ہوس،
بغض و لالچ ، انا و شخصیت پرستی ،فرقہ واریت ، نسل پرستی اور مغربی فلسفوں
جیسی غلاظت میں لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ۔ہمیں آزادی تو مل گئی لیکن ہم کبھی آج
تک آزاد زندگی نہیں گزار پائے ہیں ۔ ہماری نوجواں نسل میں اکیسویں صدی کے
آغاز کے بعد جس نئی تحریک نے جنم لیا ہے ، وہ سیکولرازم اور لبرل ازم ہے ۔
ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اسی طرح جس ترقی و استحکام اور تہذیبِ مغرب کے
پیچھے ہماری نسل بھاگ رہی ہے کیااس کے بارے میں کبھی اس نوجواں نسل نے
سوچنے کی بھی کوشش کی ہے ؟کبھی انہوں نے اس بات پر بھی سوچا ہے کہ ’’خاص ہے
ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ‘‘! بالکل بھی نہیں سوچا ہوگا ! لیکن ان کا جواب
میرے پاس ضرور ہے ۔ بے شک جیسی رعایا ہوتی ہے ویسے ہی حکمران مسلط کئے جاتے
ہیں اور میں نے اﷲ کے اس وعدے کو اپنی حیات میں پورا ہوتا دیکھا ہے ۔ یہی
وجہ ہے کہ ہماری حکومتیں اور راہ نما بھی لبرل اور سیکولر معاشرے کے قیام
کے نعرے لگا کر ووٹ بٹورتے نظر آتے ہیں ۔ ہم ذرا تاریخی مطالعہ کریں اور
1300ء سے 2010ء تک کے ادوار کا مبہم سا جائزہ لیں تو بخوبی جان سکتے ہیں کہ
اسلام کی آمد اور مسلمانوں کے عروج کے دور میں باقی دنیا خوابِ غفلت کا
شکار تھی ۔جہالت ، اخلاقی پستی، راگ رنگ، بے حیائی ، ظلم اور لوٹ کھسوٹ
مشرق سے مغرب تک سارے جہاں کا چلن تھا ۔اس میں صرف مسلم تہذیب و تمدن ہی
نگینے کی طرح چمک کر ساری دنیا کو منور کر رہا تھا ۔ 1258ء میں ہلاکو خان
نے بغداد کو تباہ کیا اور سارا علاقہ روند ڈالا مگر یورپ میں اس وقت بھی
مسلمانوں کا اقتدار قائم تھا اور اندلس ، ہسپانیہ پورے یورپ میں علم کا
گہوارا ، ترقی کا مرکز ، اخلاق ، کردار ، تہذیب ، جہانبانی و حکمرانی کا
جیتا جاگتا ہیرا تھا ۔ جب سارا یورپ اندھیروں اور جہالت میں گم تھا ، مسلم
سپین اس سے مستثنیٰ تھا ، وہاں اس وقت بھی علم اور ترقی تھی اور رات کو
سٹریٹ لائٹ کا اہتمام تھا ، سڑکیں اور گلیاں پختہ تھیں ۔ ’’ہر کمالے را
زوال‘‘مسلمانوں کو زوال آگیا تو یورپ نے جاگ کر علمی اور سائنسی ترقی کا
سفر وہاں سے آگے شروع کر دیا جہاں مسلمانوں نے اسے چھوڑا تھا۔ 1492ء میں
سقوط غرناطہ ہے مگر اﷲ تعٰلیٰ نے اس سے پہلے 1453ء میں مسلمانوں کے ہاتھوں
قسطنطنیہ فتح کرا کے مشرق کی طرف سے یورپ میں اسلام کیلئے ایک شاہدرہ بنا
دیا تھا ۔ یورپی اقوام کے اہل علم و دانش نے بوجوہ اپنے علمی سفر اور
تہذیبی تعمیر کی بنیاد اسلام دشمنی پر رکھی۔ عیسائیت پہلے ہی تثلیث پر قائم
تھی ، علمی ترقی نے عقل پر تالے توڑے تو عیسائیت کیتھولک اور پروٹسٹنٹ میں
میں تقسیم ہو گئی ۔ یورپی عوام کی صنعتی ترقی کے ساتھ مضبوط ریاستیں وجود
میں آئیں تو ایک خاص سوچ اور منصوبہ کے ساتھ ریاست اور مذہب ، کا رشتہ بھی
کاٹ دیا گیا جس سے سارے ریاستی وسائل اور ان کا استعمال کسی اخلاق اور
قانون سے آزاد ہو گیا ۔اخروی محاسبے کا تصور تو مذہب نے دیا ہے جب مذہب
ریاست سے الگ ہو گیا تو ملکی اہل کار اور بادشاہ سے لے کر عام سرکاری ملازم
تک سب ذاتی مفاد کے پجاری بن گئے ۔عیسائیوں نے پوپ سے اپنے لئے سود کے حلال
ہونے کا فتویٰ لے لیا،لبرل معاشرے کے نعرے کی مد میں لبرل ازم کو فروغ ملا
جس نے فلسفہ اور نظریہ کی صورت اختیار کر لی ،آسودہ حال طبقے کو من مانی
کیلئے ضمیر کی خلش سے گلو خلاصی کیلئے کوئی قانونی اور اخلاقی جواز درکار
تھا ، وہ جواز مغرب کی شوریدہ مٹی سے اٹھنے والے فلسفیوں کے نظریات نے
فراہم کر دیا ، ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے انسان کو حیوان ثابت کر دیا ۔
میکڈو گل اور مارکس نے یورپ میں جنگل کے قانون کا جواز فراہم کیا ، فرائڈ
نے انسان کو بس جنسی حیوان ثابت کر دیا۔ سینما ، ریڈیو، ٹی وی ، کیمرہ ،
کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے مغربی معاشروں کی دبی ہوئی بے راہ روی کو نئی
جہتیں بخشیں ۔ سیکولر ازم کے تحت انسانوں کو شرف انسانی سے محروم کر کے
آسودگی ، تعیشات کی فراہمی، بطن و فرج کے تقاضوں کی آزادانہ تکمیل کا مجسمہ
بنا دیا ،اس سارے فلسفے کا نام لبرل ازم ہے ۔مغربی تہذیب کی ایک دوسری سمت
2000 سال قدیم رومی بادشاہوں کا قانون اور طرزِ حکومت اختیار کر لینا ہے ،یونانی
فلاسفہ کے غیر انسانی فلسفے اور مطلق العنان بادشاہوں کو خوش کرنے والے
عیاشی و بدمعاشی کے نظریات جہاں اخلاق ، مذہب ، آخرت ،آسمانی ہدایات کا
کوئی دخل نا ہو ہے ۔اگر آج کے مغربی معاشرہ کے مثالی انسان کے خدو خال
سامنے لائے جائیں تو وہ ہونگے ، بے ضمیر انسان ، اعلیٰ انسانی اقدار سے
عاری انسان، کھانے ،پینے ، دیکھنے ، سننے اور جنسی اختلاط میں آزاد انسان ،
لبرل اور سکیولر انسان، مذہب دشمن، دین دشمن انسان ، وحی بیزاری ،انبیاء و
رسل ﷺ سے ذاتی بغض اور بیر رکھنے والا انسان ، ظالم ، وحشی درندہ انسان ،
لباس سے عاری ، شرم و حیاء سے خالی انسان ،رشتوں کی تمیز سے بے نیاز انسان
۔اس کے پیچھے بھاگنے سے جو ہمارے معاشرے میں سرائیت کر گیا ہے وہ بہت برا
ہے ۔ ہمیں اس قدر ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے کہ ہم کبھی اجتماعی مسئلہ پر
بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ باتیں تو بہت ہیں لیکن عمل نہیں ہے اور اپنے اپنے
دائرے میں ایک اسلام کے پیروکار بنے پھرتے ہیں ۔ مسجد اقصیٰ ہمارا قبلہ اول
ہے جس پر قابض ہونے کیلئے یہودی چار ہزار سال سے کاوشوں میں مگن ہیں ،یعنی
وہ چار ہزار سالہ پلاننگ رکھتے ہیں لیکن کیا ہم نے اپنے مسیح حضرت عیسیٰ ؑ
کے بطور محمد ﷺ کے امتی ظہور کیلئے کچھ بھی تیاری کی ہے ؟ ہاں ہمارے پاس
ایسے قانون ابھی سے موجود ہیں کہ ان کی پورے دل سے مخالفت کر سکیں کہ یہ
عیسٰی ؑ نہیں ہو سکتے ۔مسجد اقصیٰ کا معمہ پوری امت مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ
جس کیلئے ہر کلمہ گو انسان کو آواز بلند کرنا چاہئے ۔بیان بازی اور لفظی
مذمت کی بجائے اگر امریکی سفارت خانے کو ملک سے ختم کرنے اور اس کے سامنے
دھرنے اور احتجاج کیا جاتا یا بساط کے مطابق امریکہ کو جواب دیا جاتا تو
زیادہ افضل ہے ۔ کرپشن چھپانے کیلئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی اکٹھے ہو جاتے
ہیں تو کیا اپنے مذہبی مسئلہ کیلئے پوری امت یکجا نہیں ہو سکتی ؟ علامہ
اقبال نے کیا خوب کہا :
ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا |