ہمیں یقین تھا کہ یہی ہوگا لیکن تم تو کبوتر کی طرح
آنکھیں بند کر کے ڈونلڈ ٹرمپ سے راز و نیاز کرنے میں مصروف تھے کہ کونسا
شہزادہ اندر جائے گا کونسا باہر رہے گا، یمن میں میں کتنے ہتھیاروں کی
ضرورت ہے اور ٹرمپ صاحب کتنا تیل لینگے شام کی خانہ جنگی آخر ہمیں کتنا
فائدہ پہچا سکے گی ۔لیکن ان ساری باتو ں میں ہم فلسطینی مسلمانوں کو بھول۔
بیٹھے چلو ٹھیک ہے مانا کہ تم مسلمانوں کو بھول بیٹھے لیکن تم خود بھی تو
مسلمان ہونے کے دعوے دار ہو تو اُسے کیسے بھول گئے جو مسلمانوں کا قبلہ اول
ہونے کااعزاز رکھتا ہے ۔تم بیت المقدس کو بھول گئے اور یہ تو ہونا ہی تھا
تمہاری خود غرضی تمہیں لے ڈوبی اپنا حال تم یمن میں دیکھ چکے ہو اور مستقبل
میں بھی کوئی خاص راہیں نکلنے کی اُ مید نظر نہیں آتی ۔رہی اُو آئی سی تو
بھیا وہ تو پہلے بھی بے بس تھی اور اب بھی بے بس ہے کیوں کہ اُو آئی سی تو
فقط اس دنیا کے مسلمانوں کو خوش کرنے کا لولی پاپ ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔
کیا کہا ۔۔۔!میں ایسا کیوں کہہ رہی ہوں تو خود ہی دیکھ لو اور بتاو کیا
ایسانہیں ہے کہ صدر ٹرمپ سے تم نے ہتھیار خریدنے کی جلد بازی اور شام اور
یمن کے مسئلہ پر ہاتھ ملانے کو اپنے طور پر عقل مندی گرادانہ۔ لیکن دیکھو
تمہاری پیٹ پر کیسا وار ہوا کہ اُس نے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل
دارلحکومت تسلیم کر لیااور تل ایب سے امیریکی سفارت خانہ بیت المقدس کے شہر
میں منتقل کر دیا۔دُنیا کی مخالفت اپنی جگہ لیکن تم نے جو بویا اب وہی کاٹ
رہے ہو۔اب اس خراب بد بو دار فصل کی گندم بھی کھانا تم پر لازم ہے ہاں تم
تو سمجھے تھے کہ تم نے گندم بوئی ہے لیکن نکلا چنا اور وہ بھی وہ چنا جو
تمہں ناکوں چنے چبوانے کے مترادف ٹھہرا۔تم نے تو اُس وقت بھی واجبی سا
احتجاج کیا تھا جب فلسطین سلطنتِ عثمانہ کا حصہ تھا اور اُسے یہودیوں کی
گُود میں ڈال دیا گیااور یروشلم کسی اور کا ہوگیا۔یوں فلسطین سلطنت برطانیہ
حصہ ہوگیا اور تیس برس تک وہاں یہودیوں کی آبادکاری کا کام جاری رہا۔وہ وقت
بھی تم بھول گئے جب مفتی امین الحسینی نے فلسطین پریہودیوں کا سارا قبضہ
غیر قانونی کہا اور اقوامِ متحدہ پر یہودیوں کے حق کو تسلم کرنے سے صاف
انکار کردیا تھا لیکن تم آنے والے وقت کی جال سے اُس وقت بھی بے خبر
رہے۔ہاں تم نے فوجی کاروائی کے لئے اُس وقت سر جوڑا تھا لیکن تمہاری فوج کی
ناکامی کون بھول سکتا ہے۔اُسی ناکامی کے نتیجے میں ہی تو مغربی بیت المقدس
یہودیوں کو مل گیا تھا۔لیکن اب بھی عرب دنیا فقط احتجاج کے ڈھول پیٹ رہی ہے
در پردہ ذاتی مفا د نے ان کے ہاتھ باندہ رکھے ہیں۔1973ء کی عرب اسرائیل جنگ
میں تمھیں کچھ فائدہ ضرور ہوا۔ لیکن اُس کے بعد تم تھوڑا بہت احتجاج کر کے
خاموش تماشائی بنے رہے اور اِسی کو اپنی کامیابی سمجھے تمھیں علم ہی نہیں
تھا کہ آخر تمھارے ساتھ تمھارے مسلمان بھائیوں کے ساتھ تمھارے قبلہ اول کے
ساتھ کیا ہو رہا ہے۔جتنا ملا اور جو ہوا کی حکمتِ عملی کو اپناتے ہوئے تم
وقت کا انتظار کرنے لگے اور دشمن اپنا کام کرتا رہا۔مشرقی بیت المقدس پر
جون 1966ء میں اسرائیل نے فوجی قبضہ کر لیا۔
اب تقریبا پچاس برس سے فلسطینی مسلمان اپنی ہی زمین پر ایک غیر ملکی تارکین
ِوطن کی حیثیت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اب بیت المقدس کے شہر کو یہودیوں
کا دارلحکومت تسلم کرنے پر کچھ تو تمیں کرنا تھا سو ہر دفعہ کی طرح تم نے
احتجاج کیااور تم کربھی کیا سکتے ہو ،دشمن کو تم کچھ عرصہ پہلے ہی اپنی
کمزوریوں سے آگاہ کر چکے ہو سو اُسے بھی علم ہے کہ تمہاری دھمکیا گیدڑ
بھبکیوں کے سوا ء کچھ نا ہونگی۔رہی بات پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی تو اس
کے مطالبات وہی رہے گے جو ماضی میں ایسی باتوں پر رہے ہیں کہ بھئی امریکہ
سے تمام سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کردو ۔سو ہونا کچھ نہیں پاکستان تو
کسی سے نہ بگاڑنے والی پالیسی پر عمل کرتا آیا اور کرتا ہی رہے گا۔لڑنے
والے اور پیٹھ نہ دیکھانے والے لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جیسے شام میں حماہ میں
مورک ٹاون کے لوگ ہیں یہ شہر خود خانہ جنگی کا شکار ہے لیکن وہاں کے لوگ اب
بھی فلسطین کے حق میں نعرے لگاتے شہر کی گلیوں سے نکل آئے ہیں۔تمہارے بس کی
بات نہیں کہ تم اس وقت بہادری دیکھا سکو۔اسرائیل پر حقیقی اور بڑا حملہ
یقینا شام اور عراق سے ممکن تھا لیکن داعش جیسی تنظموں نے امت کو مزید
انتشار کا شکار اور کمزور کر دیا ہے۔
اب دنیا کے امن کے لئے خطرناک سمجھے جانیوالے ملک نارتھ کوریا کو ہی لے لو
وہ بھی کہہ اُٹھا کہ ریاست اسرائیل جیسی کوئی بھی ریاست وجود نہیں رکھتی جو
کہ یروشلم کو اپنا دارلحکومت قرار دے سکے لیکن تم تو سو رہے ہو سو خواب
غلفلت کے مزے لیتے رہو۔حق بات تو وہی ہے کہ جو ایک غیر مسلم ریاست نے کہی
اور بہادری سے اپنا بیان دیا۔ لگتا یہی ہے کہ مسلم ممالک اسرائل کو بظاہر
تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کا وجود مان چکے ہیں ورنہ ان کو وہی بات کہنی
چاہیے تھی جو نارتھ کوریا نے کی۔یہودیوں نے پورے دو ہزار سال منصوبہ بندی
کی اور آج اپنی کامیابی حاصل کرنے پر خوشیاں منارہے ہیں لیکن تم ہمیشہ کی
طرح مختصرسے وقت کی کامیابی پر خوش ہوتے رہے۔یہاں جذبات کی نہیں ہوش کی
ضرورت ہے۔تم تو اب بھی فقط تماشائی بنے اِسی انتظار میں ہو کہ مسجد ِاقصی
کے ملبے سے اب کب ہیکل سلیمانی کی بنیاد پڑے گی سو تم سوچتے رہو اور یہ بہت
جلد تمھاری ناک کے نیچے ہو جائے گا۔افسوس۔۔۔۔۔ |