ختم نبوت کا مسئلہ ہمیشہ سے اہم ہے مگر غیر مسلم طاقتوں
کا آلہ کار طبقہ روز اول سے ہی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعے پاکستان
کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں گمراہ لوگ آئے روز اپنی بد
نیتوں کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر دیتے ہیں حالانکہ جب
سے مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کیا ہے تبھی سے مسلمانوں کے تمام
مکاتب فکر کے علماء کرام اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے میدان عمل میں موجود ہیں
پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف تین تحریکیں چلی ہیں 1953 میں ختم نبوت کی
پہلی تحریک چلائی گئی لیکن معقول کامیابی حاصل نہ کرسکی مگر علماء کرام
قادیانیت کے سامنے سینہ سپر رہے اور پھر 1974میں قادیانیوں نے مسلمان
نوجوان طلبہ کو نعرے لگانے پر لہو لہان کیا تو عاشقان رسول ؐ نے اس وقت کے
وزیراعظم ذالفقار علی بھٹوکو مشورہ دیا کہ قادیانیوں کو ان کا علیحدہ تشخص
دے دیا جائے جوکہ اسمبلی کے لیے کٹھن معاملہ تھا کیونکہ بھٹو صاحب بھی لبرل
تھے اور اسمبلی میں بھی اکثریت انگریزی خواندہ اور لبرل ارکان کی تھی اور
یہ فیصلہ جوئے شیر بہا لانے سے کم نہ تھا چونکہ بھٹو کو بھی خدشہ تھا کہ یہ
مسئلہ انھیں لپیٹ میں لے لے گا اس لیے مگر طویل بحث و مباحث کے نتیجہ میں
بالآخر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیااور تیسری تحریک 1984میں چلی
تو جنرل ضیاالحق نے امتناع قادیانیت آرڈینینس جاری کیا جس کے مطابق قادیانی
،اذان ،نماز ،مسجد اور دوسرے شعائر اسلام میں مسلمانوں کی نقل نہیں اتار
سکتے جس کے نتیجے میں قادیانیوں کا سربراہ مرزا طاہر پاکستان سے فرار ہوگیا
اور قادیانیت کا تذکرہ بھی یوں ختم ہوا کہ نوجوان نسل کو اس کا کچھ پتہ
نہیں ہے تاہم آج پھر قادیانیوں کو غبار اٹھا ہے اور پھر ان کے لیے راستے
ہموار کرنے کی کوشش میں لبرل ازم خوار ہو رہا ہے مگر اب کے ایسا غیر معیاری
حل تلاش کیا گیا ہے کہ جس سے عدالتیں ناراض ہیں یعنی جن سے معاہدہ کیا گیا
ہے وہ بھی دو حصوں میں بٹ چکے ہیں ، حکومت بے بس ہے اور پارلیمینٹ وضاحتیں
مانگ رہی ہے ۔افواج پاکستان نے وقتی طور پر تو اس بحران کو ختم کروا دیا ہے
مگر سنگین نتائج کی چاپ سنائی دے رہی ہیں کیونکہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے
جتنا دکھائی دیتا ہے ۔
صورتحال یہ ہے کہ ہر سطح پر یہی کہا جا رہا ہے کہ ریاست نا تجربہ کار ہے
اور بروقت فیصلہ سازی میں ناکام ہوچکی ہے ۔اس وقت حکومت میں ایسا کوئی بھی
نہیں جو کہ ممکنہ خطرات اور مضمرات کی شدت کو سمجھ سکے یہی وجہ ہے کہ دن
بدن ریاست کو لاحق خطرات اور مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ۔اصل سوال یہ ہے کہ
ایک ایسے مسئلے کو کیوں چھیڑا گیاہے کہ جسے گذشتہ تینتالیس سال سے کسی نے
نہیں چھیڑا اور بالفرض اگر چھیڑ لیا تھا تو اس کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اسے
فوراً ختم کرنا چاہیے تھا کیونکہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے تھے
تو ایسے میں قوم سے معافی مانگنی چاہیے تھی مگر نا عاقبت اندیش اور خوشامدی
ڈٹ گئے اور ایسے ایسے بیانات داغ دیئے کہ خدائی پکڑ میں بھی آگئے۔ ایک مسلم
ریاست میں اس ایشو کو چھیڑنا تو درکنار اس کا تذکرہ بھی کفر کی مانند ہے
لہذا یہ سمجھ لینا کہ یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے بچگانہ سوچ ہے کیونکہ اب وہ
مسئلہ شروع ہو گیا ہے جوکہ پتہ نہیں کس کس کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا جبکہ
حکومتی وزرا اور کیپٹن صفدر کے بیانات اس انتشار کو ہوا دے رہے ہیں جبکہ
خواجہ احسن اقبال نے کہا کہ ختم نبوت پر تو قوم نے مہر لگا دی ہے ،قیامت تک
کوئی اس قانون کو نہیں چھیڑ سکتا ،یہ دراصل مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے کی
سازش ہے مزید کہا کہ عمران خان دنیا میں پاکستان کے تشخص کو خراب کر رہا ہے
۔
اب کوئی پوچھے کہ اس شق کو کیا عمران خان نے تبدیل کیا تھا ؟ دھرنے کو دو
گھنٹوں میں ختم کرنے کا دعوی کس نے کیا تھا ؟حکومتی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ’’
البیلی نے پکائی کھیر ، دودھ کی جگہ ڈالا پنیر‘‘ کے مصداق غلطی در غلطی
کرتے چلے گئے کہ وہ معاملہ جس میں عقل و فہم کی ضرورت تھی جوکہ انتہائی
نازک معاملہ تھا اورہر کوئی جان وار سکتا تھا اسے طاقت کے زور پر ختم
کروانا چاہا اور یہاں بس نہیں کیا بلکہ تمام ذرائع ابلاغ و مواصلات کو بند
کر دیا مگر ناکامی ہوئی اور گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔اکثر مبصرین اسے حکومتی بے
بسی سے تعبیر کرتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کیونکہ ختم نبوت کا معاملہ
مسلمان کے ایمان سے جڑا ہوا ہے اور اس کے سامنے یہ کہنا کہ ریاست بے بس ہے
بیوقوفانہ بات ہے بلکہ اگر ریاست اس معاملے میں ڈٹ جاتی ہے تو یہ بھی شرم
کی بات ہے کہ ختم نبوت پر کوئی بھی ’’منفی سمجھوتہ‘‘ قابل قبول نہیں ہو
سکتا ۔اور اب بھی معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ تو معاملات سے سیدھی سیدھی جان
چھڑوائی گئی ہے جس کا اعتراف دونوں راہنما بھی کہیں نہ کہیں کر چکے ہیں ۔چئیرمین
تحریک لبیک ،ضیاء القادری کہتے ہیں کہ قائدین نے شہداء کے خون کا 21 کروڑ
میں سودا کیا ہے اور علامہ خادم حسین رضوی کہتے ہیں کہ شوریٰ میرے ساتھ ہے
،لاہور والے دھرنے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے ۔اور اس پر افواج پاکستان کی
طرف سے چند لوگوں کو جو کرایہ دیا گیا اس پر درباریوں اور خوشامدیوں کا
تبصرہ انتہائی افسوسناک ہے ۔
مولانا فضل الرحمن کے بارے اکثریتی رائے یہ ہے کہ وہ ایک انتہائی موقع شناس
،موقع پرست اور ہوشیار و چالاک مذہبی لیڈر ہے ۔یہ الگ بات کہ وہ عین موقع
پر تو کوئی کردار ادا نہیں کر سکا اور مبینہ بل پر طویل مذاکرات میں اس نے
بھی کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا مگر اس کی یہ بات درست ہے کہ اس بل کے
معاملہ میں ساری پارلیمینٹ گنہگار ہے ۔حتہ کہ ہر مسلک کے مذہبی رہبر و
راہنما تو سنگین ملزم ہیں کہ اپنے اپنے مفادات یا بے عقلی میں مست مئے
پندار حاضر باش یا غیر حاضر رہے اور ختم نبوت بل اپنے آخری مراحل تک پہنچ
گیا ۔مذہبی اور اخلاقی طور پر ان مذہبی قائدین کو تو خود ہی استعفے دے دینے
چاہیے اور ان کا’’ کڑا ‘‘احتساب ہونا چاہیے کیونکہ یہ لوگ اسلام کے تحفظ کا
خود کو ذمّہ دار کہتے ہیں جبکہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کی عزت اور عظمت کی
نشانی ہے ۔حتہ کہ عمران خان نے تو عملی طور پر قطعاً کوئی اقدام نہیں کیا
جبکہ رنگینئی بیان کیلئے بیان بازی اور تقریری حربے جاری رکھے ۔عوام نے
اپنے ہر لیڈر کا رویہ بھی دیکھ لیا ہے اور انکی پاکستان اور اب اسلام سے
محبت بھی جان لی ہے ۔اب کے الیکشن کے نتائج کا منظر کچھ اور ہی ہوگا کیونکہ
اگر حکمرانوں نے آگ لگائی ہے تو اپوزیشن اور ہم نواؤں نے اس پر انگلی بھی
نہیں اٹھائی تھی اب یہ سب لوگ توبہ بھی کریں اور اپنے اپنے رویے بھی بدل
لیں ۔بالآخر جس کسی نے بھی آواز اٹھائی ہے وہ خراج تحسین کا مستحق ہے مگر
اصل ذمہ داران کو بے نقاب ہونا چاہیے ۔
ویسے مذہبی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اسلامی ریاست اور نظام مصطفی کا
مطالبہ تو کرتی ہیں مگرخود کسی ایک فارمولے یا مسئلے پر متفق نہیں ہیں بلکہ
مسلک کے نام پر منقسم ہیں اور فرقہ واریت میں اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ایک
دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں بدیں وجہ عوام کسی بھی مذہبی
جماعت کی انتخابات میں حمایت نہیں کرتے کیونکہ انھیں متنازعہ سمجھتے ہیں
بایں وجہ حکومت کے قابل نہیں سمجھتے کیونکہ اکثریت کا ایجنڈا اسلام نہیں
بلکہ اسلام آباد ہے مگر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آج کے مولانا عطاء اﷲ شاہ
بخاری اور مولانا مودودی جیسے عاشقان رسول ہیں اسی دو عملی نے عوام میں بھی
عدم اعتماد کی فضا پیدا کر دی ہے اور لبرلز کو اسلام اور اقدار پر منہ
کھولنے کا موقع مل گیا ہے اوروہ کھلے عام ’’ملا ازم ‘‘ کو ملکی سالمیت کے
لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں جبکہ یہ تو چند سیاسی اسلامی لوگ ہیں مگر تمام
علما ء کرام ہمارے لیے قابل احترام ہیں کہ ایسے پر آشوب دور میں جبکہ
تقریباً سارا ملک مے خانہ بنا ہوا ہے برائی اور بے حیائی عام ہے یہ تمام
علماء اسلام نور کی شمع جلائے ہوئے ہیں اور اس تاریک دور میں کفر و طاغوت
اور ظلم و استحصالی نظام کے خلاف ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں جبکہ
سربراہان ملک کرسی پکی کرنے کی لڑائی میں مشغول ہیں اور بیچاری سیکورٹی
فورسز پروٹوکول اور حفاظت میں لگی رہتی ہیں بدیں وجہ پاک افواج کو سرحدوں
پر ہی نہیں بلکہ اندرون ملک بھی تمام مسائل کو حل کرنا پڑتا ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اندرون ملک کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو فوج کو
بلا لیا جاتا ہے اور بعد ازاں بلانے والے ہی الزامات کے گولے داغنے لگتے
ہیں کہ انھیں تو اقتدار کی ہوس ہے بالفرض اگر ہوس ہے تو بلاتے کیوں ہیں ؟
تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کسی مسئلے میں فوج خود شامل نہیں ہوئی بلکہ حکومتی
نا کامی کی وجہ سے فوج کو بلایا جاتا ہے حالانکہ فوج سرحدوں کی حفاظت پر
مامور ہوتی ہے ۔۔فوج نے کیا کیا کرنا ہے ؟اداروں کیوں بنا رکھے ہیں اور ان
پر پیسے کیوں ضائع کیے جا رہے ہیں ؟ اگر سیلاب آجائے تو فوج ریسکیو کرے ،
اگر ہنگامے ہوں تو فوج ریسکیو کرے ، اگر پولیو کے قطرے پلانے ہوں تو فوج
سیکیورٹی فراہم کرے ، اگر کر کٹ میچ کروانا ہو تو فوج سیکیورٹی فراہم کرے ،
اگر زلزلہ آجائے تو فوج ریسکیو کرے ، اگر کہیں دہشت گرد گھس جائیں تو فوج
مقابلہ کرے ، اگر کوئی بغاوت کرے تو بھی فوج اس کو پکڑ کر ریاست کے حوالے
کرے، ملکی اور مذہبی تہواروں پر بھی فوج سیکیورٹی دے ۔اگر سب فوج نے ہی
کرنا ہے تو پارلیمینٹ اور باقی اداروں پر پیسے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
عوامی پیسوں کو نا اہلوں پر کیوں لٹایا جا رہا ہے ؟ اس پر فوج کوبرابھلا
بھی کہا جاتا ہے جبکہ اپنی نا اہلیت اور بصیرت کے فقدان کا اعتراف نہیں کیا
جاتا بلکہ ’’ کڑوا کڑوا تھو تھو میٹھا میٹھا ہپ ہپ ‘‘کے مصداق جہا ں فوج
اور عدلیہ کا بیان اپنے حق میں لگے اس پر ایسے ظاہر کیا جاتا ہے جیسے حدیث
ہو اور جو ذرا ایسا ہو جو اپنے موافق نہ ہوتو اس پر اشتعال انگیزی کا کھل
کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔
یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی گڈ گورننس کے فقدان اور ڈومور پر حکومتی
بیانات پر بات کی گئی تو آگ کے گولے منہ سے برسائے گا حالانکہ گذشتہ پانچ
برسوں میں یہ کھل کر سامنے آچکا ہے کہ حکومت گڈ گورننس کا خواب پورا کرنے
میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی اور اب بھی ترجیحات نہیں بدلیں کہ
لاہور میں نئے انڈر پاس کا افتتاح کر دیا گیا ہے جبکہ ہسپتالوں میں بستر ،ضروری
طبی آلات اور جدید میڈیکل مشینری کی اشد ضرورت ہے ، اب تو دوائیاں بھی نہیں
ملتیں اور تعلیمی اداروں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے ۔میں پھر وہی سوال
کرونگی کہ ایک بیمار اور ان پڑھ معاشرہ صرف سڑکوں اور بسوں کا کیا کرے گا ؟
آج ملکی منظرنامہ اندھیر نگری چوپٹ راجا کا نقشہ پیش کر رہا ہے کہ’’ اپنی
اپنی ڈفلی ، اپنا اپنا راگ ‘‘کے مصداق سبھی لگے ہوئے ہیں مگر سمت کا کسی کو
ادراک نہیں ہے اور جنہیں فکر کرنا تھی وہاں ’’جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے‘‘
یہی وجہ ہے کہ جو کل تک دوستی کے دعوی دار تھے وہ بھی رنگ بدل رہے ہیں کہ
بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں کہ قطری گواہی دینے تو آئے نہیں پھر سردیاں
منانے آگئے اور نشانے پر پھر’’ تلور‘‘ تھا اور حال ہی میں بین الاقوامی
میڈیا کے مطابق مبینہ خبر کے مطابق میاں صاحب کو سعودی عرب میں بھی کرپشن
کی تحقیقات میں شامل کرنے کا فرمان جاری کر دیا گیا ہے ۔۔کیا یہ بھی سازش
ہے ؟ ممکن ہے ن لیگ اسے بھی سازش کہہ دے مگر ہم پھر کہتے ہیں کہ ’’خدائی
پکڑ‘‘ ہے ۔ بین الاقوامی الزامات اور ثبوتوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو
یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت بدلتے ہوئے حالات ، مبینہ الزامات
اور اداروں سے محاذ آرائی کے نتیجے میں ملنے والی نکتہ چینی سے کچھ بھی
سیکھنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور بدستور خود کو درست اور پاکیزہ قرار دینے
پر مصر ہے اور درحقیت یہی جارحانہ ، غیر دانشمندانہ ، احمقانہ رویہ ہی ملکی
سیاسی ساکھ پر سوالیہ نشان بن چکا ہے مگر نادانیاں ہیں کہ ان کی کوئی حد ہی
نہیں ہے ۔۔۔کہ میاں صاحب سے اس بار سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا اگر میرے
اثاثے میری آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں اس سے کیا ؟اگر عوام کو سوال کرنے
کا حق نہیں ہے تو یہ کیسی جمہوریت ہے ؟ ویسے جمہوریت تو تب کہیں اگر حکومت
ہو یہاں تو حکومت ہی نہیں ہے کہ وزیر خزانہ اشتہاری ہے ، وزرا ء مفاداتی
ہیں اور وزیر قانون مستعفی ہیں۔ ہر طرح سے شخصی آمریت ہے جو اپنی کرسی
بچانے کی فکر میں ہے مگر طے ہے کہ ’’ خود کردہ ا علاجے نیست‘‘ ۔۔یعنی اپنے
کیے کا کوئی علاج نہیں ! |