محمد قاسم حمدان
سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کارستاہوازخم ہے جو شاید کبھی نہ بھرپائے گا۔
بلاشبہ اس دن کاسورج ہمیں ندامت‘شرمندگی اور پچھتاوے کااحساس دلاتے ہوئے
نمودارہوتاہے اورتاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے مغرب میں غروب
ہوجاتاہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتا کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان
کودل سے تسلیم نہیں کیااورہمیشہ اس موقع کی تلاش میں رہاکہ کسی طرح پاکستان
کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اسے قصۂ پارینہ بنادے۔
بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے مشرقی پاکستان کوہم سے جدا کرکے کہاتھاکہ
آج ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کابدلہ لے کرپاکستان کادوقومی نظریہ
خلیج بنگال میں ڈبودیاہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے پربنگلہ دیش کی حکومت
نے2012ء میں اندراگاندھی کو فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وارایوارڈ دیا۔یہی
ایوارڈ واجپائی کوبھی 2016ء میں دیاگیا جسے بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے
وصول کیااور ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فخریہ اعتراف کیا کہ
پاکستان کوتوڑنے میں بھارت ملوث تھا۔16نومبر2009ء کوبنگلہ دیش کی وزیراعظم
حسینہ واجد نے بھی انکشاف کیاتھاکہ وہ 1969ء میں لندن میں اپنے والد کے
ساتھ تھی جہاں شیخ مجیب الرحمن نے ہندوستانی ایجنسی ’را‘‘ کے افسران سے
ملاقاتیں کیں اور بنگلہ دیش کے قیام کی حکمت عملی طے کی تھی۔ بھارت ہمارا
ازلی دشمن ہے‘اس نے ہمارے وجود کوتسلیم ہی نہیں کیا۔لہٰذا وہ تواپنے اکھنڈ
نظریہ کی تکمیل کے لیے ہرطرح کی سازشیں کرتا رہے گالیکن اس کے ساتھ ساتھ
حقائق یہ بھی ہیں کہ پاکستان کے کارپردازان نے کبھی بھی ہوا کارخ دیکھنے کی
کوشش نہ کی۔ ملکی سلامتی کے لیے جن مسائل کو سلجھانا ضروری تھا ‘انہیں
پرکاہ کی حیثیت بھی نہ دی گئی۔انہی مسائل کو بنیادبناکربھارت نے مشرقی
پاکستان کے عوام کو گمراہ کرناشروع کیا۔
بنگلہ دیش کاقیام کوئی اتفاقی یاحادثاتی واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک طویل منفی
اور اجتماعی عمل تھا جو حماقتوں اور نااہلیوں سے ترتیب دی ہوئی داستان
کاالمناک منطقی انجام تھا۔ دراصل سیاسی‘ خارجہ‘ تعلیمی اور معاشی منصوبے
‘سیاسی عمل کے عناصر ترکیبی ہوتے ہیں۔انہی عناصرمیں عدم توازن دیکھتے ہوئے
اہل نظرنے پیش گوئی کی تھی کہ اگر پاکستان میں سیاسی عمل یونہی بے ڈھب رہا
توپاکستان کامشرقی حصہ علیحدہ ہوکر رہے گا لیکن ہماری سیاسی قیادت اور اہل
قلم اپنا فرض منصبی اداکرنے میں مجرمانہ غفلت کاشکاررہے۔ غلط سیاسی فیصلے
اور غلط سیاسی عناصر کی حوصلہ افزائی نے پاکستان کو نہایت تیزی سے اس دہانے
پرپہنچادیا۔یوں لگتاتھا کہ مشرقی پاکستان کو دھکے دے دے کرہندوستان کی
گودمیں ڈالا گیا۔ حکمرانوں نے مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والے ہرفتنے
کاعلاج یہ سوچا کہ موسیقی‘ رقص وسرود اور کھیل کودکاقوم کورسیا بنادیاجائے
۔
دفاع کامسئلہ جس نے بنگالیوں کومزید تنہا کردیا۔ 65ء کی جنگ میں جب کھیم
کرن کے محاذ پر بنگال رجمنٹ نے دادِ شجاعت دیتے ہوئے ہندوستان کے بہت بڑے
رقبے پرقبضہ کیا تودوسری طرف پورے سترہ دن مشرقی پاکستان اسلام آباد سے
کٹارہا۔ اس کیفیت نے مشرقی پاکستان کے عوام میں شدید عدم تحفظ اور تنہائی
کااحساس پیدا کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم بھارت کے رحم وکرم پرہیں۔ چنانچہ
اسی جنگ نے مشرقی پاکستان میں خودمختاری کے نعروں کوتحرک دیااورپہلی
بارکھلے لفظوں میں شیخ مجیب الرحمن نے گورنرمشرقی پاکستان عبدالمنعم خان سے
کہاتھاکہ وہ جنگ کے دوران ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کااعلان کردے۔ جنگ
کے بعدوزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹونے جب اسمبلی میں یہ کہاکہ جنگ کے دوران
مشرقی پاکستان ہندوستان کی دست برد سے محض چین کے باعث محفوظ رہا
توبنگالیوں کویقین ہوگیا کہ آزادی کاتحفظ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے
کامسئلہ نہیں رہااور جب ہم واقعی دوسروں کے رحم وکرم پرہیں توپھرپاکستان کے
اندر رہنے کاکیافائدہ۔
قوموں کی تعمیروترقی اور شکست وریخت میں جوعوامل ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتے ہیں اور ان کی گھٹی سے قوموں کاکرداربنتاہے‘ان میں تعلیم اورزبان
وادب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔سب سے پہلے زبان کے مسئلہ کو قانون ساز اسمبلی
میں ایک ہندو ممبردھرمیندر ناتھ دت نے فروری 1948ء میں اٹھایاتھا۔ ہندؤوں
نے بڑی ذہانت سے بھُس میں چنگاری پھینک دی تھی۔
1952ء میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے ڈھاکہ میں ایک عوامی اجتماع میں
کہاکہ پاکستان کی واحد سرکاری زبان اردو ہی ہے توان کایہ کہناگویا شعلے کو
ہوادیناتھا۔ اس سے کشیدگی پیداہوئی جس کے نتیجے میں 21فروری 1952ء کو پولیس
کی فائرنگ سے تین طالب علم مارے گئے‘ان طلباء کی یادمیں شہیدمینار
تعمیرکیاگیا اورپھر یہ مینار بنگالی قوم پرستوں کی جدوجہدکی علامت بن گیا۔
فطری طورپراردو کے ساتھ بنگلہ کوسرکاری زبان ہونا چاہیے تھا۔ مغربی پاکستان
سے اس کی پے درپے مخالفت ہوتی رہی۔اس چیز نے بنگلہ کے مطالبے کوایک عملی
مسئلے سے بڑھاکر ایک عقیدے اورجذبے کی شکل دے دی۔ مغربی پاکستان کی سب سے
بڑی درس گاہ پنجاب یونیورسٹی میں فارسی ‘عربی‘ انگلش‘روسی‘ترکی‘
لاطینی‘جرمن‘ فرانسیسی اورجاپانی جیسی زبانیں پڑھانے کا انتظام موجودتھا
لیکن ملک کی 56فیصد آبادی کی مادری زبان بنگلہ کومتعارف کرانے کاکوئی
انتظام نہ تھا ۔اسی طرح مشرقی پاکستان میں اردو سکھانے کے لیے کوئی کوشش نہ
کی گئی۔
قیام پاکستان کے وقت تعلیم کاشعبہ ہندؤوں کے ہاتھ گروی تھا۔مشرقی پاکستان
کے 1290 ہائی سکولوں اور 47کالجوں میں سے 95فیصد ادارے ہندؤوں کے پرائیویٹ
انتظام میں تھے جبکہ سرکاری مدارس میں بھی ہندواساتذہ کا تناسب کہیں زیادہ
تھا۔ یہ ہندو استاد بڑی کاوش سے مسلمان بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں میں
تشکیک کا زہرگھولتے تھے‘ان کے پیدا کردہ ذہنی الجھاؤاور انتشارنے بالآخر
انہیں صراط مستقیم سے بھٹکا دیا۔مشرقی پاکستان میں سرکاری سکول نہ تھے بلکہ
پرائیویٹ طورپرقائم تھے۔البتہ حکومت انہیں مالی امداد دیاکرتی تھی اور
تعلیمی بجٹ کا بڑا حصہ ان سکولوں پر صرف ہوتاتھالیکن اس کے باوجود ان
سکولوں کے نظم میں کوئی مداخلت نہ کرسکتا تھا۔ ہندواساتذہ طلباکویہ ذہن
نشین کراتے کہ پاکستان کا معاشی طورپرمستحکم اور قائم رہناممکن نہیں اور
غیر بنگالیوں کا مقصد مشرقی پاکستان کو اپنی نوآبادی بناناہے۔تعلیم کے
المیے میں ایک شرمناک حقیقت یہ بھی ہے کہ بیشتر درسی کتاب کے مضامین کلکتہ
سے لکھوائے جاتے تھے۔ تاریخ کی ایک درسی کتاب میں سب سے بڑی تصویر شیواجی
مرہٹہ کی تھی اوراس کی پالیسیوں کوسراہاگیاتھا۔
1967ء میں ایوب حکومت نے تعلیمی اداروں میں دھرتی اورلوگ نامی کتاب ثانوی
درجے کے نصاب میں شامل کی تاکہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان
رشتوں کواجاگر کیاجائے توطلبا اس کتاب کو نصاب سے خارج کرانے کے لیے اٹھ
کھڑے ہوئے‘ا ن کے ساتھ سیاستدان‘ادیب‘صحافی بھی مل گئے ۔بالآخرحکومت کو اس
کتاب کونصاب سے خارج کرناپڑا۔
ایسے ہی تاریخ پاکستان پرایک کتاب نصاب میں شامل کی گئی ۔ہندو اساتذہ کی
تربیت نے اثردکھایااور طلبا نے یہ کتاب بھی پڑھنے سے انکارکردیا۔طلباکویہ
پیشکش کی گئی کہ وہ محض ایک کلاس لیکچرسن کرامتحان دے دیں تو انہوں نے کہا‘
ہم تاریخ پاکستان پڑھناہی نہیں چاہتے۔
ہندواساتذہ کاطلباپرکنٹرول کس قدرتھا‘اس کا اندازہ اس واقعہ سے
ہوتاہے۔1951ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں آل پاکستان ہسٹاریکل کانفرنس منعقد
ہوئی جس کے ایک اجلاس کی صدارت مولانا سیدسلمان ندویؒ نے کی۔شرکاء میں
اکثریت یونیورسٹی طلبا کی تھی۔انہوں نے نہ صرف جلسے کودرہم برہم کیابلکہ
معززمہمان پرحملہ کردیا کیونکہ انہوں نے بنگال میں ہندوتعصب اور مسلم دشمنی
کی تاریخ کی نشاندہی کی تھی۔
مشرقی پاکستان میں بھارت نے تعلیمی اداروں کو اپنے مورچے بنالیاتھا۔ ان
کوناکام کرنے کے لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم نصاب تعلیم سے طلبا کو
پاکستانیت کی شناخت دیتے لیکن افسوس کہ ہمارے نصاب تعلیم ہی نے ہمیں اپنی
شناخت سے محروم کردیا۔
محترم قارئین کرام!بھارت ہمارے مشرقی بازو کو توڑنے کے بعدمسلسل سازشوں میں
مصروف ہے۔ اس کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے‘کشمیرپر رائے دہی کا وعدہ کرکے
یواین کی قراردادوں سے اس نے راہِ فرار اختیارکی‘ سندھودیش کی پرورش کی‘
قومیت پرستی کو پروان چڑھایا‘ مہاجروں کوپاکستان کادشمن بنایا۔ہمارے دریاؤں
پرقبضہ کیا۔کالاباغ ڈیم ‘پشاور پبلک آرمی سکول کا حادثہ‘ ملک میں خودکش
حملے اورپوری دنیا میں ہمیں تنہاکرنے کے لیے اس کی مکروہ کوششیں اور ریشہ
دوانیاں جاری ہیں۔
مشرقی پاکستان کے بعد اس کی سازشوں کامرکز بلوچستان بن چکاہے۔
’’را‘‘ کے علاوہ اب نئی بھارتی ایجنسی رام بھی بلوچستان میں مصروف ہے۔
بلوچستان کوآگ کی بھٹی میں جھونکنے کے لیے امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت مل
کرکام کررہے ہیں۔
بھارت ہمیں تباہ کرنے کے لیے اتناخطرناک کھیل کھیل رہاہے مگر ہم بھارت سے
تجارت اور تعلقات کو بہتر بنانے ‘اس سے کرکٹ کھیلنے کے لیے بے تاب ہیں۔ بہت
ہو چکا‘اب وقت کاتقاضا ہے کہ ہم اپنے اصل دشمن بھارت کو پہچانیں اور بھارت
کواسی کی بھاشا میں جواب دیں۔
|