شکست خوردہ امریکہ،یروشلم اور ہماری خارجہ پالیسی

نائن الیون کے بعد عالمی منظرنامے پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بڑی تیزی کے ساتھ مضبوط ہوئے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس برق رفتاری کے ساتھ یہ تعلقات مضبوط ہوئے تھے اسی رفتار کے ساتھ تنزلی اور سرد مہری کا شکار بھی ہوئے۔یوں تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان دڑاڑ اسی روز آ گئی تھی جب 2011 میں جب سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد پاکستانی دفترِ خارجہ کی یہ جانب سے یہ بیان جاری کیا کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد ہم اپنی عالمی ترجیحات از سرِ نو ترتیب دیں گے۔لیکن اس کی بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان پر دھونس جمانے کی کوشش کی ہے اورصرف پاکستان سے ہی فائدہ چاہا ہے۔یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا ہمارے تعلقات کافی حد تک یک طرفہ ہی رہے ہیں۔

آج تک تو افغانستان کے حوالے امریکہ کی پالیسی اور حکمتِ عملی پسِ پردہ ہی رہی ہے لیکن ٹرمپ حکومت نے یہ روایت بھی بدل ڈالی ۔ڈونلڈ ٹرمپ اور باقی وزراء کے حالیہ بیانات نے سب کے کان کھرے کر دیے ہیں۔کیونکہ اگر ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کا باغور جائزہ لیں تو یہ بات با آسانی سامنے آتی ہے کہ امریکہ اب بھی اس خطے سے واپس جانے کو تیار نہیں۔چونکہ اب معاشی اور اقتصادی قوت یہاں منتقل ہو رہی ہے تو امریکہ چاہتا ہے کسی نہ کسی طریقے سے جنوبی ایشاء میں امریکہ کا اثر و رسوخ قائم رہے خواہ وہ ہندوستان کو نواز کر ہو یا افغانستان میں امریکہ نواز حکومت کھڑی کرنے سے حاصل ہو۔ مگر امریکہ کی یہ پالیسی بھی ناکام ہو چکی ہے۔اب اس اعتبار سے امریکہ تقریباً بے بس و لاچار دکھائی دیتا ہے کیونکہ پاک چین ودستی اس وقت عروج پر ہے اور سی پیک اقتصادی اور معاشی اعتبار سے نئے ورلڈ آرڈر کا بگل بجا رہا جس سے خطے کے ممالک اور کئی عالمی طاقتوں میں عجیب بے چینی کی فضا ہے۔ لیکن افسوس اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ابھی بھی وہی امریکہ نواز ہے اور ہم مکمل یکسوئی کے ساتھ امریکہ خوش کر نے میں مصروف ہیں۔ اگر پاکستان سے "ڈو مور"کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو ہمارے وزیرِ خارجہ صاحب ایک ہی لمحے میں اس قوم اور فوجی جوانوں کی شہادتوں کو فراموش کر کے لیٹ جاتے ہیں۔لیکن اس معاملے میں بھی پاک فوج نے اس قوم کو مایوسی سے بچایا اور دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ دنیا تو "پولیٹیکل وائس" کو سنتی ہے ۔ پالیسی ساز اداروں کا چاہیئے کہ اب کچھ ہوش کے ناخن لیں۔دراصل معاملہ یہ ہے پاکستان کی وزارتِ خارجہ تقریبا! شروع سے ہی یتیمی کا شکار رہی ہے اسے کو اہل وزیر نصیب ہی نہیں ہوا۔حال ہی میں جب امریکی وزیرِ دفاع پاکستان آیا تو جناب میں ہمارے وزیرِ اعظم بمعہ وزیر و مشیر لائن لگا کر بیٹھ گئے ۔اصولاً تو اس کی ملاقات ہم منصب سے ہونی چاہیئے تھی اور اگر وزیرِ اعظم سے رسمی سی ملاقات ہو جاتی تو اس میں مزاحقہ بھی نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں تو خیر گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔

قارئین کرام! ابھی بالکل چند روز قبل امریکی صدر ٹرمپ یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کیا اور اس کے بعد وسطی ایشاء میں فوراً ہنگامے شروع ہو گئے ۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکہ کو خبر دار کیا، سعودیوں نے بھی ڈھیلا ڈھالا بیان دے دیا مگر وہ ملک جس سے پوری مسلم امہ کی امیدیں جڑی ہیں وہ بالکل خاموش ہے۔اب ایسی صورتحال بن چکی ہے کہ اس وقت پوری مسلمان امت چیلنج ہو چکی ہے اور ٹرمپ کا یہ بیان ہر مسلمان حکمران کے سامنے ایک سوالیہ نشان بن کے کھڑا ہے ۔ اس وقت صحیح فیصلہ دینی حمیت اور غیرت سے ہی ممکن ہے جو کہ ہمارے حکمرانوں میں بہت نایاب ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ ہمارے حکمران امریکہ کی غلامی سے نکلیں اور اب یہ بہانہ کرنا بند کریں کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے سٹریٹیجک مفادات منسلک ہیں۔ اس وقت پاکستان کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہے۔اللہ نے گوادر پورٹ پاکستان کو دیا اور سی پیک کے ذریعے اللہ پاکستان کو مضبوط بھی کرے گا ۔ زمینی حقائق مسقبل میں خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کی ضمانت دے رہے ہیں۔پاکستان کو امتِ مسلمہ کے مفاد اور مظلوم مسلمانوں کی امیدوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دینا ہوگیاور تدبر کے ساتھ فیصلہ کرنا ہونگے ۔اللہ چھپن اسلامی ممالک میں سے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا شاید اب وقت آ گیا ہے کہ اس پر اللہ کا کچھ شکر ادا کیا جائے۔ہمارے وفاقی وزراء جو کہ ایک نااہل وزیرِ اعظم کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں وہ کچھ فرض شناسی کا ثبوت دیں اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی وفاداریوں پارٹیوں کے ساتھ نہیں بلکہ قومی مفاد کی جانب منسوب کریں۔اللہ اس سرزمینِ لاالہ کی حفاظت اور بیت المقدس کے سازشوں ناکام بنائے۔آمین

Abdullah Qamar
About the Author: Abdullah Qamar Read More Articles by Abdullah Qamar: 16 Articles with 10007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.