ہمیں اپنی امی اس وقت کسی جلاد سے کم نہیں لگتی تھیں جب
وہ گرمیوں کے موسم میں سامنے والوں کے ہاں لگے ہوئے نیم کے پیڑ کی ٹہنیاں
منگوا کر اس کے پتے اور نمبولیاں سل بٹے پر پیستی تھیں اور ہم سب بچوں کو
پکڑ کر زبردستی پلاتی تھیں ۔ تاکہ ہم گرمی دانوں اور پھوڑے پھنسیوں سے
محفوظ رہیں ۔ اگر کوئی بچہ سیدھی طرح قابو میں نہیں آتا تھا تو نہایت ہی
بےرحمی کے ساتھ اسے چارپائی پر اپنے گھٹنے کے نیچے دبا کر ایک ہاتھ سے اس
کا منہ چیرتی تھیں اور دوسرے سے وہ نامعقول مکسچر اس کے حلق میں انڈیل دیتی
تھیں ۔ اور حسب ضرورت ایک آدھ دھموکے سے بھی نواز دیتی تھیں ۔ بڑی بڑی
شربتی آنکھوں والی گوری چٹی امی خود اپنے گھٹنوں تک لمبے بال ریٹھوں سے
دھویا کرتی تھیں ۔ ایکبار ہم نے بھگو کر رکھے ہوئے ریٹھوں کے پانی کو انگلی
سے ذرا سا چکھ لیا تو معلوم پڑا کہ یہ بھی بہت سخت کڑوا ہوتا ہے ۔ اپنے بال
اور ہماری کھال کو صاف رکھنے کے لئے وہ اتنی کڑوی اشیاء کا استعمال پتہ
نہیں کیوں کرتی تھیں ۔ شاید انہوں نے زندگی کی تلخیوں کو ہنسی خوشی پینا
سیکھ لیا تھا اور اب ہمیں بھی اس کا عادی بنا رہی تھیں ۔
امی نے فرسٹ ڈیویژن میں میٹرک پاس کیا ہؤا تھا سائینس کے مضامین کے ساتھ ۔
مگر ابھی رزلٹ آیا بھی نہیں تھا اور عمر بھی سولہ سال ہونے میں دو چار ماہ
باقی تھے کہ قسمت نے انہیں کراچی کی روشنیوں سے نکال کر سندھ کے ایک دور
افتادہ و پسماندہ علاقے کے اندھیروں اور خاک و دھول میں لا پٹخا ۔ وجہ وہی
روایتی سی کہ نانا ابا اچانک سخت بیمار پڑ گئے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں
رہی تو انہوں نے حسب روایت اس خواہش کا اظہار کیا کہ بیٹی میری زندگی میں "
اپنے گھر " کی ہو جائے ۔ اور چند ہی دنوں کے اندر رشتہ تلاش کر کے امی کو
گھر بدر کر دیا گیا ۔ اب یہ اور بات کہ امی کو رخصت کرنے کے بعد حیرت انگیز
طور پر نانا کی طبیعت سنبھلنا شروع ہو گئی اور وہ مکمل صحتیاب ہو گئے ۔ وہ
ٹیلر ماسٹر تھے شیروانی کے ایکسپرٹ ۔ انہوں نے اپنا کام دوبارہ شروع کیا
پھر بارہ سال کے بعد اچانک انہیں کینسر کی تھرڈ اسٹیج تشخیص ہوئی اور مختصر
سی علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ مگر جب تک جئے انہیں اس بات کا
افسوس رہا کہ انہوں نے بیٹی کی شادی کا فیصلہ بہت جلد بازی میں کیا ۔ ذرا
سا صبر کر لیتے تو کوئی مناسب رشتہ کراچی میں بھی دستیاب ہو سکتا تھا مگر
قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ۔ جس طرح آدمی کی موت جس جگہ بھی لکھی
ہوتی ہے وہ کسی بھی طرح وہاں پہنچ جاتا ہے اسی طرح ایک لڑکی کا بھی اگلا
پڑاؤ جہاں لکھا ہوتا ہے وہ بیاہ کر وہاں پہنچ جاتی ہے سب مقدر کا کھیل ہے
جس سے مفر ممکن نہیں ۔ امی نے باوجود کم عمری اور ناتجربےکاری کے ایک
دیہاتی ماحول میں نامساعد حالات اور زندگی میں در آنے والے نت نئے چیلنجوں
کا بہت ہمت صبر اور سمجھداری سے مقابلہ کیا ۔ مقامی ماحول میں ڈھلنے کے
ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا تعلیمی تشخص بھی برقرار رکھا ۔ انہوں نے ہم سب
بچوں کی اچھی تربیت اور پرورش کی سخت محنت و مشقت آمیز معمولات زندگی سے
نبرد آزما ہونے کے بعد وہ ہمیں پڑھانے اور ہوم ورک کرانے کا وقت بھی نکال
ہی لیتی تھیں ۔ ہمیں بھی کسی قابل بنانے میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے اگرچہ
خود ان کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہؤا تھا ۔
نانا نے تو امی بےچاری کے ساتھ جو کیا سو کیا دادا نے بھی کچھ کم نہیں کیا
۔ مقامی گرلز پرائمری اسکول میں ایک ٹیچر کی اسامی خالی تھی اور وہ کسی طرح
دستیاب ہو کے نہیں دے رہی تھی ۔ علاقے کے چند سرکردہ معززین دادا کے پاس
آئے اور کہا کہ اپنی بہو کو اسکول میں استانی لگوانے کی اجازت دے دیں وہاں
بہت سخت ضرورت ہے ۔ مگر دادا نے صاف انکار کر دیا کہ ہمارے ہاں بہو بیٹیوں
سے نوکری نہیں کرواتے ۔ حالانکہ ہماری پھوپھیوں نے اسی اسکول سے پڑھا تھا
مگر دادا کو امی کا وہاں پڑھانا پسند نہیں تھا حالانکہ وہ خود پڑھے لکھے
تھے پوسٹ ماسٹر تھے مگر ڈکٹیٹر بن گئے ۔ بےچاری امی اپنا دل مسوس کے رہ
گئیں جبکہ دادی نے انہیں دوسرے بیٹے کی شادی سے پہلے الگ کر دیا تھا اور اس
وقت وہ صرف ایک ہی بچے کی ماں تھیں ۔ ابو کو تو کوئی اعتراض نہیں تھا مگر
باوجود محنتی اور کماؤ ہونے کے انہیں کوئی اختیار نہیں تھا کہ کسی بھی
معاملے میں اپنی مرضی کر سکیں جبکہ امی اتنی باصلاحیت تھیں کہ گھر اور
ملازمت کو مینیج کر لیتیں ۔ انہیں آگے پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ پرائیویٹ
پڑھائی شروع کرنا چاہتی تھیں اس کی بھی اجازت نہیں ملی تو وہ محلے کے بچوں
کو قراٰن پڑھانے لگیں اور کئی بچوں کو ٹیوشن بھی دی بلا معاوضہ ۔ اور ساتھ
ہی ساتھ جانے کیسے انہوں نے دنیا جہان کے ہنر سیکھ لئے کھانے پکانے کے
علاوہ ہر قسم کی مردانہ و زنانہ سلائی کڑھائی بُنائی کرسی چارپائی ٹوکریوں
چنگیریوں کی بُنت کروشیا اور رِلیوں کا کام سب کچھ انہوں نے اتنا زیادہ کیا
کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے تھے ۔ آج بھی گھر میں ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی
چیزیں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں ۔
امی مذہبی رجحان کی بھی حامل تھیں نذر و نیاز کی بھی قائل تھیں کئی بار
انہوں نے گیارھویں بارہویں اور محرم کی نیاز کی دیگ خود گھر کے صحن میں
اینٹوں کا چولھا بنا کے پکائی ۔ ان کے ہاتھ کی ایک اسپیشل ڈش آج بھی ہمیں
بہت یاد آتی ہے اور وہ ذائقہ کبھی ہمیں دوبارہ نہیں ملا ۔ بچی ہوئی روٹی کو
وہ دھوپ میں رکھ کر سُکھا لیتی تھیں پھر کبھی آلو گوشت کے بچے ہوئے سالن یا
بچی ہوئی دال کو نئے سرے سے پیاز ٹماٹر ہری مرچوں کے مصالحے کا بگھار لگا
کر سوکھی ہوئی روٹی کو موٹا موٹا کوٹ کر اور پانی میں بھگو کر وہ اس نئے
شوربے میں ڈال دیتی تھیں اور اس کاوش کا نام " سُتھریاں " ہؤا کرتا تھا
اپنے بچپن میں ہم سب بہن بھائی اسے خوب مزے لے کر کھایا کرتے تھے ۔ پھر ذرا
بڑے ہوئے تو پیار سے اسے شاہی ٹکڑے کہنے لگے ذرا اور بڑے ہوئے کمانے لگے تو
اس ڈش کو ڈِس مِس کرا دیا کہ یہ غربت کے دور کی نشانی ہے اب اس کی ضرورت
نہیں ہے ۔ بچی ہوئی سوکھی روٹیوں پر بھوسی ٹکڑے والے کا زیادہ حق ہے اور یہ
ضائع نہیں جاتیں مال مویشیوں کی خوراک میں استعمال ہوتی ہیں ۔
ویسے عورت کی حد سے زیادہ کفایت شعاری اور سلیقہ مندی بھی کسی کام کی نہیں
ہوتی امی بہت سی دالیں اور اناج ثابت خرید کر انہیں چکی والے گھروں جا کر
خود دلتی تھیں دھنیا لال مرچیں اور ہلدی بھی گھر میں پیستی تھیں اور غضب تو
یہ کہ انہوں نے ڈلی والا نمک اوکھلی میں پیس پیس کر خود کو بلڈ پریشر کرا
لیا پھر کچھ حالات کے سرد و گرم سہہ سہہ کے کچھ چڑچڑی بھی ہو گئی تھیں تو
ظاہر ہے کہ ہائپر بھی رہتی تھیں ۔ یہ سب ہمارے بچپن کی باتیں ہیں ذرا ہوش
سنبھالنے پر امی کے یہ سب بےفالتو کے کام بند کرائے کہ پورے خاندان برادری
میں یہ سب کوئی بھی نہیں کرتا تو کیا وہ بھوکے مر رہے ہیں؟
پھر ہمارے اچھے دن بھی آ گئے تو ایک روز امی اچانک فنا کی وادیوں میں کھو
گئیں ان کی یاد کبھی بہت ستاتی ہے تو آنسو آنکھ سے نہیں دل سے ٹپکتے ہیں یہ
آخری سطریں سپرد تحریر کرنا دشوار ہو گیا ہے سامنے سکرین بار بار دھندلا
رہی ہے ۔
تجھے اے ماں! لاؤں کہاں سے؟
پتہ پوچھا تیرا تاروں کے کارواں سے ***
|