اتفاق یا کرامت؟ اور امی کی دوچند عقیدت

بہت عرصہ پہلے ہمارے بچپن کا واقعہ ہے پاکستان میں ہمارے گھر کے صحن میں لگی ہوئی اینٹوں کو اُکھاڑ کے نیا فرش ڈالا جا رہا تھا جس کے لئے روڑی یعنی چھوٹے چھوٹے کُوٹے ہوئے پتھر بچھا دیئے گئے تھے ۔ اگلے روز گھر میں گیارہویں شریف کی نیاز تھی امی وہیں بیٹھی ہوئی اسی سلسلے کی تیاریوں میں مصروف تھیں ناک میں پہنی ہوئی طلائی لونگ کو ٹھیک کرنے لگیں تو وہ پیچ میں سے نکل کر نیچے روڑی میں جا پڑی ۔ وہ ڈھونڈنے لگیں ہم کچھ بہن بھائی بھی وہیں موجود کھیل کود رہے تھے ہم بھی ان کے ساتھ مل کر وہ بہت چھوٹی ذرا سی لونگ ان ہزاروں پتھروں میں ڈھونڈنے لگے جس کا ملنا ناممکن سی بات تھی ۔ ہم نے امی سے کہا کہ رہنے دیں نہیں ملے گی آپ دوسری خرید لیں ۔ کہنے لگیں ملے گی کیسے نہیں؟ اور آنکھیں اوپر کو اٹھا کر دیکھتے ہوئے بولیں
یا غوث اعظمؒ! آپ کی نیاز کا کام کرتے ہوئے میری لونگ گم ہوئی ہے اب آپ ہی واپس دلوائیں گے ۔
ہم بہن بھائیوں کے لئے اپنی پڑھی لکھی اور بہت پریکٹیکل سی ماں کا یہ روپ بالکل نیا اور انوکھا تھا اور قدرے مزاحیہ سا بھی ۔ سبھی کو ہنسی آ گئی ہم سب کھی کھی کرنے لگے انہوں تاسف سے ہماری طرف دیکھا اور پھر اوپر دیکھ کر بولیں
دیکھیں میرے بچے کیسے میرے اوپر ہنس رہے ہیں اب آپ ہی میری عزت رکھنے والے ہیں ۔
اور پھر ہماری ہی نظر پتھروں کے بیچ میں ایک چمکتی ہوئی چیز پر پڑی ہم نے سب کو ہاتھ سے ایک طرف ہٹا کے اسے آہستگی کے ساتھ باہر نکال لیا وہ امی کی ناک کی لونگ تھی جس کا ان چھوٹے چھوٹے ہزاروں پتھروں کے بیچ میں سے مل جانا واقعی ایک بہت عجیب اور حیرت انگیز سی بات تھی اور ظاہر ہے کہ محض اتفاق تھا مگر ہماری امی کی اولیاء اللہ سے عقیدت میں مزید اضافہ ہو گیا ۔ معاشی حالات اور گنجائش کے مطابق وہ کبھی سادہ و مختصر اور کبھی قدرے اہتمام کے ساتھ کئی ایک قسم کی نذر و نیاز کیا کرتی تھیں وہ ایصال ثواب کے برحق اور مؤثر ہونے پر مکمل یقین رکھتی تھیں ۔ واقعہ مذکورہ کے بعد ان کے عقیدے کی پختگی دوچند ہو گئی اگرچہ ناک کی لونگ کوئی ایسی بڑی بات نہیں تھی نہ بھی ملتی تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہونے جا رہا تھا ۔ بات یہاں پر نقصان سے بچت کی تھی ہی نہیں بات امی کے حضرت غوث اعظمؒ پر عقیدے اور ان سے منسوب کرامات پر یقین اور بھروسے کی تھی ۔ انہیں یقین ہو گیا تھا کہ لونگ انہیں پکارنے اور ان سے مدد مانگنے کی وجہ سے واپس ملی تھی ۔ یعنی ان کا کسی طور اللہ کے اس ولی سے رابطہ قائم ہؤا تھا جس پر انہیں فخر تھا ۔
امی بہت شروع ہی سے صوم و صلوٰة کی پابند تھیں اور ایک مشکل و مصروف زندگی کے باوجود فرض و نفلی عبادات کا حتی الامکان اہتمام رکھتی تھیں انہیں بہت سا قراٰن ازبر تھا پھر قضائے عمری بھی ادا کرنے لگیں ۔ ان کی موت بہت اچانک اور غیر متوقع تھی وہ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئیں کہ ان کی زبان پر سورہء مزمل کا ورد تھا پاس موجود گھر والوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب وہ دم توڑ گئیں ۔ ہم نے کئی بار انہیں خواب میں دیکھا ہمیشہ ہی بہت مسرور و مطمئین اور بہترین ملبوس میں نظر آئیں ۔ انتقال کے تیسرے روز ہم نے حالت بیداری میں ان کی آواز سنی تھی جس کی تفصیل ہم نے اپنی ایک پچھلی تحریر میں درج کی ہے ۔ ایک بار خواب میں کیا دیکھا کہ اپارٹمنٹ کے دروازے پر دستک ہو رہی ہے ہمارے پوچھنے پر کوئی جواب نہیں ملا ۔ پیپ ہول سے جھانک کر دیکھا تو سامنے کوئی نظر نہیں آیا ہم اندر آ گئے تو امی کچن میں کھڑی نظر آئیں ہم نے حیران ہو کر دروازے کی طرف دیکھا جس پر تین لاک لگے ہوئے تھے جن میں سے ایک کی چابی نہیں ہوتی وہ صرف اندر سے کھلتا ہے ۔ ہم نے امی سے پوچھا آپ اندر کیسے آئیں؟ وہ مسکراتے ہوئے بولیں
بس آ گئی ایسے ہی ۔ میں تو تیرے گھر ایسے آتی رہتی ہوں پہلے بھی کئی بار آ چکی ہوں ۔
اسی طرح ایک بار خواب میں دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں سفید تندوری روٹیوں کا ایک بہت بڑا پلاسٹک کا تھیلا ہے جو وہ ہمیں پکڑاتے ہوئے کہہ رہی ہیں کسی کو بتانا مت ۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے آج ہمارا بتانے کا بہت دل چاہ رہا تھا تو ہم نے یہاں لکھ دیا امید ہے کہ امی خفا نہیں ہونگی ۔

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854944 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.