ٓآزاد کشمیر پاکستان کا دل ہے میرپور آزاد کشمیر کا دل
اور میرپور کا دل ہے قاری حنیف صاحب قاری صاحب کمال کی شخصیت ہے چالیس سال
سے لندن میں مقیم ہے لیکن اُن کا دل میرپور میں ہی اٹکا ہوا ہے جب بھی موقع
ملتا ہے پاکستان پہنچ جاتے ہے جو وہاں کماتے ہے یہاں خرچ کردیتے ہے جس مقصد
کے لیے خرچ کرتے ہے وہ بڑا نیک مقصد ہے لیکن اُن کو شہرت سے کوئی سروکار
نہیں آپ اگر اُن کی تعریف کریں تو آگے سے صرف ایک مسکرائٹ اور اتنا جواب آپ
میرئے لیے دُعا کر دیا کریں آج سے تقریبا پانچ سال پہلے میں میرپور سے گزر
رہا تھا تو میری نظر مدرسہ عثمانیہ پر پڑی مدرسہ عثمانیہ کے سامنے چھوٹے سے
باغ میں پھولوں کے درمیان صاف ستھرئے لباس میں ملبوس پھولوں کو کھیلتے دیکھ
کر میں رک گیامیں گاڑی سے اترا اور مدرسے کے اندر داخل ہو گیااُس مدر سے کو
دیکھ کر میں حیران ہو رہا تھا کیوں کہ اس طرح کا صاف شفاف مدرسہ میری نظروں
سے کم ہی گزرا تھایہاں ہی میری پہلی ملاقات قاری حنیف صاحب سے ہوئی قاری
صاحب اور ان کے چند ساتھی اس مدرسے کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے ہیں
یہاں بچوں کے لیے کمپیوٹر لیب بھی ہے بچوں کو یونیفارم جامعہ کی طرف سے
مہیا کیا جاتا ہے بچوں کو کھانا لوگوں کے گھروں سے اکٹھا نہیں کرنا پڑتا
میس ہے جہاں پر کرسیاں اور ٹیبل لگی ہوئی ہیں ملازم بچوں کے سامنے کھانا
رکھتے ہیں اور تمام بچے با عزت طریقے سے کھانا تناول کرتے ہیں سیکنڈ فلور
پر بچوں کی رہائش گاہ ہے جو کسی بھی اچھے ہوسٹل سے کم نہیں دینی اور دنیا
وی تعلیم کا یہ حسین امتزاج میرئے دیکھنے میں کم ہی آیا ہے کتابیں ،
یونیفارم،کھانا اور تمام تعلیمی اخراجات ادارئے کے ذمے ہیں لیکن بچوں سے ان
تمام اخراجات کا ایک فیصد بھی نہیں لیا جاتاصرف اُن کا داخلہ میرٹ پر ہوتا
ہے یہاں پر جو حافظ قرآن بچوں کو تعلیم دیں رہیں ہیں اُن کی دینی اور
دنیاوی تعلیم قابل رشک ہے اُن کی گفتگوکا انداز، رہن سہن تعریف کے قابل ہے
آج سے کچھ دن پہلے جب میری قاری حنیف صاحب سے ملاقات ہوئی تو میرئے دماغ
میں مولانا خادم حسین رضوی کا انداز گفتگو، فیض آباد دھرنے میں اسلام کے
لیے اُن کی خدمات، اُن کے پیروکاروں کا اُن کی خدمات کا پولیس کی مرمت کر
کے اعتراف، پیر آصف جلالی کا لاہور میں جلال، مولانا خادم حسین رضوی اور
پیر آصف جلالی کی ایک دوسرئے پر الزامات کی بارش،زاہد حامد ،رانا ثنا اﷲ
اور جاوید لطیف کی اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے کوششیں اور علما
اکرام کا سیاسی مقاصد کے لیے آستعمال ہونا ہی گھوم رہا تھا ان تمام باتوں
کی وجہ سے ہی میں نے قاری حنیف صاحب سے پوچھا کہ ہم لوگ اسلام سے کیوں دور
ہورہیں ہیں معاشرتی بے راو روی کے تدارک میں علما کیوں نہیں اپنا کردار ادا
کر پا رہے،دن بدن ہم فرقوں میں کیوں تقسیم ہو رہے ہیں،علما حضرات لوگوں کے
لیے رول ماڈل کیوں نہیں ہیں، اسلام تو اخلاقیات کا درس دیتا ہے پھر ہمارئے
اکثر علما اکرام کا انداز گفتگو اخلاق سے عاری کیوں ہے، کیوں ہمارئے علما
اکرام اپنی مرضی سے کسی کو بھی کافر اور کسی کو بھی مسلمان قرار دئے دیتے
ہیں، تمام مسلمان دنیا میں کیوں بے بسی کی تصویر بنتے جا رہیں ہیں اور ہر
جگہ مسلمان ہی کیوں پس رہیں ہیں اُنھوں نے میری طرف دیکھا اور کہا راجہ
صاحب ہماری بد قسمتی کہ ہماری نظر میں اسلامی تعلیمات کی وہ اہمیت اور
افادیت نہیں جو دوسرئے علوم کی ہے فرض کریں اگر آپ کے تین بیٹے ہیں تو جو
اُن میں سے سب سے لائق آپ کی نظر میں ہو گا آپ کی خواہش ہو گی کہ وہ ڈاکٹر
بنے انجینئر بنے سی ایس ایس کر جائے دوسرئے کو بھی آپ کسی اچھی پوسٹ پر
تعنیات کروانا چاہیے گے لیکن جو ان میں سے سب سے نالائق آپ کی نظر میں ہو
گا یا اﷲ نہ کرئے ذہنی طور پر یا جسمانی طور پر معذور ہو گا اور آپ سمجھے
گے کہ یہ دنیا کی نظر میں سادہ ہے زندگی گزارنا اور اپنے گھر کے آخراجات
چلانا اس کے لیے مشکل ہو گاتو آپ کے لیے سب سے آسان اس کو مولوی بنانا ہو
گا کہ کسی مسجد میں امام مسجد بن جائے گا اور زندگی کو دھکا دئے لے گا اب
آپ سب سے پہلے تو اُس کو جس بھی مدرسہ میں داخل کروائے گے وہ بھی کسی نہ
کسی مسلک سے تعلق رکھتا ہو گا وہاں سے اُس بچے کے دماغ میں دوسرئے مسالک کے
خلاف نفرت پیدا ہو گی پھر اُس کو در در سے کھانا اکٹھا کرنا پڑئے گا یہاں
سے اُس کی انا ختم ہو گی اور دوسروں کی زندگی کو دیکھ کر وہ احساس کمتری
میں مبتلا ہو گااور یہ احساس کمتری پوری زندگی اُس کا پیچھا نہیں چھوڑئے گی
جس ماحول میں مدارس میں بچوں کی پرورش ہو رہی ہے پھر آپ کو اس بات کا شکوہ
نہیں کرنا چاہیے کہ اُن کا انداز گفتگو عامیانہ ہے یا وہ پین دی سری جیسے
الفاظ کا استعمال کرتے ہیں،وہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے فرقہ ورانہ فسادات
کو فروغ دیتے ہیں،وہ اپنی چوہدراہٹ کے لیے گورنمنٹ کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں،
وہ معاشرتی بگاڑ کو ختم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے اگر ہم نے ان
تمام مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ تمام مدارس
اور مساجد کو اپنی سرپرستی میں لے لیں تمام مدارس کا نظام تعلیم ایک ہوایک
طریقہ کار واضع کریں جس طرح کالجوں کا میرٹ ہو تا ہے اُس طرح ہی مدارس کا
میرٹ ہومدارس اور مساجد کے تمام اخراجات گورنمنٹ خود برداشت کریں، مدارس
میں پڑھنے والے تمام طالبعلموں کے کھانے پینے رہنے اور پڑھائی کے تمام
اخراجات گورنمنٹ کے ذمے ہومدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے طالبعلموں کی
ملازمت کا انتظام گورنمنٹ کے ذمے ہونا چاہیے مولانا حضرات کی تنخواہ بھی
گورنمنٹ خود مقرر کرئے اور اس میں آ ضا فہ بھی باقی گورنمنٹ کے ملازمین کی
طرح ہونا چاہیے ذاتی حثیت میں کسی کے پاس یہ اختیار نہ ہو کہ وہ کسی کے
مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ جارہی کرئے یا کسی کو کافر قرار دئے گورنمنٹ کو
تمام مکاتب فکر کے علما اکرام پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو تمام
شرعی مسائل یا اسلام سے متعلق تمام ایشو جو ملک میں رہ نما ہوتے ہیں اُن پر
فیصلہ کریں او ر اُن کا فیصلہ حتمی ہونا چاہیے وہ کمیٹی غیر جانبدار اور
گورنمنٹ کے اثرو رسوخ سے آزاد ہونی چاہیے مساجد میں آذان کا وقت ایک ہونا
چاہیے اس کے لیے ہم ترکی میں قائم آذان کے نظام کو بھی اپنا سکتے ہے فرقہ
وارانہ تقریر پر پابندی ہونی چاہیے اور جو بھی اس میں ملوث ہو اُس کو قرار
واقعی سزا ملنی چاہیے تمام مسالک کو جمعہ کے دن ایک ہی تقریر جو گورنمنٹ کی
قائم کردہ کمیٹی کی طرف سے مہیا کی جائے کرنے کی اجازت ہو اب ہم جس پوزیشن
میں پہنچ چکے ہیں سر عام ایک دوسرئے پر کفر کے فتوئے ان سے چھٹکارا حاصل
کرنے کے لیے ضروری ہے کہ گورنمنٹ ان معاملات کے بارئے میں سنجیدگی سے غور
کرئے نہیں تو ہم خود تو مذاق بن چکے ہیں اسلام کو بھی مذاق بنا دیں گے۔
|