نام نہاد سرجیکل سٹرائیک جو کبھی ہوئی نہیں

لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی فوج مسلسل بیدار اور ہر طرح کی بھارتی جارحیت کچلنے کے لئے تیار رہتی ہے صرف یہی نہیں بلکہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل بھی تیاری کی حالت میں رکھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کوئی بھارتی جاسوس ڈرون لائن آف کنٹرول کے اندر داخل ہوتا ہے تو اُس کو مار گرایا جاتا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کی بیداری اور تیاری کی صورت میں بھلا کیسے ممکن ہے کہ بھارتی فوج سرجیکل سٹرائیک کرسکے جس میں ایئر فورس کا استعمال بھی ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُڑی حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لئے اتنا کچھ کہہ گئے کہ انہیں جاگتے ہوئے سرجیکل سٹرائیک کا خواب دیکھنا اور دکھانا پڑ گیا۔ اس ایسی سرجیکل سٹرائیک جو کبھی ہوئی نہیں۔ نامعلوم سرجیکل سٹرائیک نامعلوم علاقوں میں کی گئی۔ گزشتہ سال ستمبر میں بھارت نے کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے زیرِ انتظام علاقے میں مبینہ شدت پسندوں کے خلاف سرجیکل سٹرائیکس کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔جبکہ پاکستان کا کہنا تھا کہ سرحد پار فائرنگ کو سرجیکل سٹرائیکس کا رنگ دینا حقیقت کو مسخ کرنے کے برابر ہے۔ بھارتی بری فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے بتایا کہ سرجیکل آپریشن کنٹرول لائن پر نصف رات شروع ہوا اور صبح تک چلا ۔ اس کارروائی میں متعدد دہشت گرد اور ان کے سہولت کار مارے گئے ۔ تاہم انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ سرجیکل سٹرائیکس کن علاقوں میں کی گئیں۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے واضح طورپر کہا گیا تھا کہ بھارت نے پاکستان کے زیرِ انتظام علاقے میں کوئی سرجیکل آپریشن نہیں کیا ہے تاہم انڈین فوج نے لائن آف کنٹرول پر کیل، بھمبر اور لیپا سیکٹر پر بلا اشتعال فائرنگ ضرور کی۔مبینہ دہشت گردوں کے اڈوں پر سرجیکل حملوں کا تصور انڈیا کی جانب سے جان بوجھ کر تشکیل دیا گیا ایک ایسا فریبِ نظر ہے جس کا مقصد غلط تاثر دینا ہے۔ ایل او سی پر فائرنگ رات ڈھائی بجے شروع ہوئی اور صبح آٹھ بجے تک جاری رہی اور اس سے پاکستان کے دو فوجی ہلاک ہوئے۔ پاکستان کی افواج نے بھی انڈین جارحیت کا بھرپور جواب دیا۔یہ انڈیا کی جانب سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صرف اپنے میڈیا اور عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اگر آئندہ بھی انڈیا کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی گئی تو اس کا اسی انداز میں جواب دیا جائے گا۔ پاک فوج نے بھر پور جوابی کارروائی کرتے ہوئے تین بھارتی چوکیوں کو تباہ کردیا جس کے نتیجے میں14 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے جبکہ ایک فوجی کو تتہ پانی سے گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار کیے گئے بھارتی فوجی کا نام بابو لال چوہان ولد بشن چوہان تھا جبکہ اس کی عمر 22 سال تھی۔ گرفتار بھارتی فوجی کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھارتی صحافیوں سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ کئی بھارتی فوجیوں کی لاشیں امر تسر اور چندی گڑھ میں موجود ہیں جن کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کر کے بڑے نقصان اور مشتبہ حملہ آوروں کے لانچ پیڈز کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا جسے پاکستان نے مسترد کر تے ہوئے کنٹرول لائن پر فائرنگ کی تصدیق کی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ان سرجیکل سٹرائیکس میں پاکستان کے چھ کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا اور بھارتی فوج کے سپیشل کمانڈرز نے سرحد سے تین کلومیٹر اندر گھس کر کارروائی کی۔ تاہم پاک فوج نے بھارت کو یہ دعوی مسترد کر دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر طرف سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ بھارت کا یہ دعوی بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی تھا۔ بھارت کی جانب سے کسی علاقے میں سرجیکل سٹرائیکس نہیں کی گئی کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی اور میڈیا ہائپ کیلئے اسے سرجیکل سٹرائیکس کا نام دیا گیا۔ ایسا کرنا سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔ پاک فوج نے بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی سرجیکل سٹرائیکس کی گئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

اڑی مقبوضہ کشمیر آرمی بیس پر دہشت گرد حملے کے بعد بھارت کے وزیراعظم مودی نے پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے سرجیکل سٹرائیک کی دھمکی دی تھی اور جنگی جنون پیدا کیا تھا۔ مودی نے گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا اور اب بھی کشمیریوں کو قتل کررہا ہے اس لیے اسکی دھمکیوں نے جنوبی ایشیا کے عوام کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ یپسالہ (Upsala) یونیورسٹی سویڈن کے پروفیسر اشوک سوین نے اپنے آرٹیکل میں تحریر کیا کہ پاکستان پانچ منٹ کے اندر دہلی پر ایٹمی حملے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر مودی بھارت کی نصف آبادی کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے تو وہ پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کے بارے میں سوچے اور جان لے کہ بلوچستان بنگلہ دیش نہیں ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریہ میں تحریر کیا ہے کہ پاک بھارت جنگ سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوسکتا ہے جس کا بھارت متحمل نہیں ہوسکتا۔ بھارت معاشی میدان میں چین کا مقابلہ کررہا ہے اور ورلڈ پاور بننے جارہا ہے۔ سلامتی کونسل اور دیگر کلیدی عالمی اداروں کی رکنیت اس کا خواب ہے۔ پاکستان سے الجھ کر اس کا یہ خواب چکنا چور ہوسکتا ہے۔ امریکہ برطانیہ روس (پاک روس مشترکہ فوجی مشقیں) اور چین کبھی نہیں چاہیں گے کہ جنوبی ایشیاء جنگ کا مرکز بن جائے اور انکے عالمی مفادات کو نقصان پہنچے۔ پاکستان کا استحکام اور سالمیت ایران کی خارجہ پالیسی کا مرکز رہا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کی سلامتی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے ایران نے پاک بھارت جنگوں کے دوران پاکستان کی مدد کی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاک فضائیہ کے قیمتی جہازوں کو بھارتی حملے سے بچانے کیلئے ایرانی فضائی اڈوں میں چھپایا گیا۔

پندرہ سابق جرنیلوں نے رائے دی ہے کہ بھارت کی جانب سے سرجیکل سٹرائیک کا کوئی امکان نہیں ہے البتہ بھارت پاک فوج اور دفاعی تنصیبات پر حملے کراسکتا ہے۔ حسن صادق نے اپنی کتاب (The End of the great game) میں تحریر کیا ہے کہ امریکہ نے گریٹ گیم کے تحت عراق اور افغانستان پر حملے کیے تھے جن کا مقصد پاکستان کو کمزور کرکے اسے ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا اور جنوبی ایشیا و مڈل ایسٹ پر اپنی بالادستی کو قائم رکھنا تھا مگر چین سعودی عرب اور پاکستان نے مشترکہ خفیہ حکمت عملی اختیار کرکے امریکی عزائم کو پورا نہ ہونے دیا۔ بھارت بڑا ملک ہے لہذا اس پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ بھارت کی قیادت کو اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے پاک بھارت کے درمیان بڑے تنازعے کشمیر کے حل کیلئے سنجیدہ اور ٹھوس مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیئے۔ مودی نے درست کہا کہ پاکستان اور بھارت کو غربت اور جہالت کیخلاف جنگ لڑنی چاہئے۔ دہشت گرد تنظیموں سے پوری دنیا کو خطرہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ دونوں کی سلامتی اور مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کے جہادی لیڈروں نے جہاد کرکے اﷲ کو بہت خوش کرلیا ہے اب وہ بدلتے حالات کا ادراک کرکے اﷲ کے بندوں کو خوش کرنے کی جدوجہد کریں۔ خدا کے فضل سے پاکستان کو بیرونی خطرات لاحق نہیں ہیں۔ حکمران اشرافیہ معاشی استحکام ، اندرونی سکیورٹی اور نیشنل یونٹی (قومی یکجہتی ) پر توجہ دے۔

Shumaila Javed Bhatti
About the Author: Shumaila Javed Bhatti Read More Articles by Shumaila Javed Bhatti: 18 Articles with 12480 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.