کمال احمد رضوی الف نون کے’ الن‘

دنیا سے جدا ہوئے دو سال ہوگئے، انتقال17دسمبر 2015کو ہوا

معروف ادا کار، ہدایتکار اور قلمکار کمال احمد رضوی کو ہم سے جدا ہوئے دو سال ہوچکے ان کا انتقال 17 دسمبر2015 ء کو ہوا تھا۔ ’کمال کی باتیں‘ ایک تصنیف ہے جو کمال کے وصال کے بعد ان کی آخری بیگم محترمہ عشرت جہاں رضوی نے اپنے ادا کار اور لکھاری شوہر کمال کی منتخب تحریروں کو جو مختلف احباب کے بارے میں تھیں یعنی کچھ خاکے اور کچھ مضامین کو کتابی شکل دے کر ’کمال کی باتیں‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ کمال شادیوں کے حوالے سے خاصہ کشادہ دل واقع ہوئے تھے۔عشرت جہاں ان کی غالباً تیسری زوجہ ہیں۔ان سے پہلے دو کا ذکر کمال نے اپنی تحریر میں کیا ہے، ممکن ہے کہ اسکور اس سے زیادہ ہو، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ مِزاح نگار، ڈرامہ نگار، مترجم ، ناول نگار ،مدیر ، اداکار اور پاکستان میں تھیٹر کے شہسوار کمال احمد رضوی 2015ء کا انتقال 17 دسمبر2015 ء کو ہوا۔ ان کی شخصیت تو تھی ہی ایسی کہ انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہر لکھاری نے ضروری جانا، میں نے بھی ان پر کالم لکھا تھا جو ہماری ویب پر بعنوان ’’الف نون کے’ الن‘ اﷲ کو پیارے ہوئے‘‘ آن لائن ہوا۔کمال کے انتقال کے ڈھائی ماہ کے اندر اندر ’کمال کی باتیں‘ کا شائع ہوجانا ، کمال کی بیگم کا اپنے شوہر سے سچی محبت کا عملی ثبوت تھا۔ 17دسمبر کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی انہیں دنیا سے رخصت ہوئے تین ماہ بھی نہیں ہوئے، عشرت جہاں نے عدت کی پرواہ کیے بغیر کمال کی باتوں کو عوام الناس تک پہنچانا ضروری جانا۔کمال کی باتوں کو جلد سے جلد منظر عام پر لاکر انہوں نے شوہر سے اپنی سچی محبت کا ثبوت دیاہے۔

9مارچ 2016ء کو کمال کی باتوں کی تعارفی تقریب کا اہتمام آرٹس کونسل آف پاکستان کی ادبی کمیٹی کی جانب سے منظر اکبر ہال میں کیا گیا۔مجھے بھی کتاب کی تعارفی تقریب میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ ایس ایم شاہد نے کتاب کے فلیپ پر ’کمال میرا دوست ‘ کے عنوان سے لکھا ’کمال نے انسانی کمینگی کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اتنا گہرا کہ جو شخص کمینہ نہیں بھی ہوتا تھاوہ بھی اسے کمینہ نظر آتا تھا اور اس کی اہمیت ملاحظہ فرمائیے کہ الف نون میں کمینے کے کردار کے لیے اس نے اپنے آپ کو منتخب کیااور اُس کردار کو اس خوش اسلوبی سے سے نبھا یا کہ ساری دنیا میں اس کے کروڑودیکھنے والے عش عش کر اٹھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کمال کا خود اپنے آپ کو الف نون میں ایک چالاک اور برے آدمی کی طرح پیش کرنا اس کی انسان دوستی اور محبت کا سب سے بڑا ثبوت ہے‘۔

کمال احمد رضوی کی شریک حیات عشرت جہاں رضوی جن کا اس کتاب کی تدوین و اشاعت میں کلیدی کردار ہے ۔ انہوں نے کتاب میں’’ 84 ء سے2015 تک ۔کمال کے ساتھ‘ ‘کے عنوان سے کمال کے ساتھ اپنے اکتیس سال اور اکتیس دن کی رفاقت کی کہانی صاف گوئی سے بیان کی ہے، لگتا ہے کہ انہوں نے سب کچھ جوں کا توں بیان کردیا کوئی بات چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ کہتی ہیں’یہ داستانِ حیات اس وقت شروع ہوتی ہے جب میں عشرت بُرہان سے بیگم کمال احمد رضوی بنی۔ اُس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ جو نیا سفر میں شروع کرنے جارہی ہوں وہ کتنا مشکل ہے۔ شاید میری عمر کا تقاضا تھا یا میری آنکھوں پر بندھی ہوئی محبت کی وہ پٹی تھی جس سے آگے دیکھنا میرے لیے شاید ممکن نہ تھا۔ میرے نزد یک کمال انتہائی ذہین ، بذلہ سنج، محبت کرنے والے ، خوش خوراک، خوش لباس اور ہنس مکھ انسان تھے۔ان کی شخصیت کا دوسرا رخ انا پرستی اور غصہ تھا جو میری آنکھوں سے اوجھل تھا، پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ رنگ بھی کھلتے گئے۔ کبھی تو محبتوں کی برسات ہوتی تو کبھی غصے کے اولے سر پر برسنے لگتے مگر میں نے میدان خالی چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور اس چیلنج کو قبول کر لیاکہ کمال احمد رضوی کو فتح کر لینا ہی میری کامیابی ہے، کہتی ہیں کہ ’ہماری ازدواجی زندگی میں بڑے اُتار چڑھاؤ آئے مگر اس کے باوجود گاڑی چلتی رہی، کمال اناپرست تھے، بہ حیثیت شوہر وہ ایک مثالی شوہر تو نہ بن سکے لیکن بحیثیت دوست ہم نے بہت اچھا وقت گزارا۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا، کمال کے اندر کا غصہ در اصل اُن کی وہ محرومیاں تھیں جو اُن کو ورثے میں ملی تھیں، چھوٹی عمر میں والدہ کے انتقال کے بعد اکیلے رہے۔ والد نے دوسری شادی کی، سوتیلے پن اور تنہائی نے اُن کے اندر ایک نفرت اور غصہ پیدا کردیا تھا، ضدی اور دُھن کے پکے تھے ۔ چیلنج کو قبول کرنا اچھا لگتا تھا‘۔آگے لکھتی ہیں کہ ’عمدہ شراب، عمدہ کھانا، عمدہ دوستوں کی محفل بہت پسند تھی شاید اسی لیے دوستوں کی بڑی تعداد ان کے اِرد گرد موجود رہتی تھی۔دوستوں کے معاملے میں بہت خوش قسمت انسان تھے۔انہیں لوگوں کے دل میں گھر کرنے کا فن آتا تھا، اُن کے مطابق ان کی خوش بختی تھی کہ وہ سعادت حسن منٹو ، فیض احمد فیضؔ، شاکر علی، سبطِ حسن جیسے بڑے لوگوں کے درمیان اور قریب رہے۔ پینٹنگز کا بہت شوق تھا اور دوستیاں بھی زیادہ پینٹروں سے تھیں، معین نجمی، شاکر علی، جمیل نقش، احمد پرویز، علی امام، وہاب جعفر، سید جہانگیر جیسے مہان لوگ ان کے جگری یار تھے‘‘۔بیگم کمال کی تحریر سے کمال کی نجی زندگی کے بارے میں اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی نے کتاب میں ’اعترافِ کمال‘ کے عنوان سے کمال کی خاکہ نگاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’سعادت حسن منٹو کا خاکہ لکھا ہے وہ بھر پور ہے اور دل گرفتہ کرنے والا خاکہ ہے ۔ لیکن یہ اس دور کی بات ہے جب سعادت حسن منٹو مشہور تھے اور کمال احمد رضوی گمنام تھے‘۔ ڈاکٹر کاظمی کا کہنا ہے کہ ’کمال کی حقیقت نگاری ہمیشہ بے رحمانہ رہی ہے‘۔ بختیار احمد صاحب نے بھی کمال کی شخصیت اور ان کی باتوں کے حوالے خوبصورت باتیں کیں، خاص طور پر کمال کے ایک مخصوص جملے ’تیری تو میں ․․․․․عزت کرتا ہوں‘ کا ذکر کیا۔ شیخ الحسنین کاظمی نے کمال کی ڈرامہ نگاری کا ذکر کیا، ذاہدہ حنا نے اپنا لکھا ہوا مختصر مضمون پیش کیا ،حسینہ معین نے کہا کہ کمال صاف گو انسان تھے جس کو پسند کرتے اسے پسند کرتے تھے جس کو نہ پسند کرتے اسے نہ پسند ہی کیا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا پی ٹی وی میں بہت اچھے لوگ تھے ان میں سے ایک کمال بھی تھی۔ پروفیسر سحرؔ انصاری نے صدارتی تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ مقررین نے کمال کی شخصیت اور اس کتاب پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ اس کتاب کا عنوان ہی اچھا لگا، انہوں نے کہا کہ کمال کی یادیں لیکن اصولِ بیان باتوں والا ہے یہ خوبی بہت کم نظر آئے گی‘۔ ڈاکٹر قاسم پیرزادہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کمال واقعی ہر دلعزیز شخصیت اور ہمارے عہد اور زمانے میں اگر شخصیت ہر دلعزیز کہی جاسکتی ہے تو بچے، بڑے،بوڑھے سب کے لیے ہر دلعزیز، قابل توجہ جاذب نظر شخصیت تھے۔ وہ چوکس انسان تھے،ذہین اور فہیم لوگوں میں سے تھے۔چیلنج دینا اور چیلنج قبول کرنے والے تھے، ان کی زندگی میں نشیب و فراز تھے، انسانی نفسیات میں جکڑے ہوئے تھے۔ کمال بزلہ سنج ، خوش خوراک بھی تھے، خوش لباس بھی، انہیں کٹھن وقت بھی دیکھنا پڑا، وہ غصیلے اور دھن کے پکے تھے، انہوں نے انسانی کمینگی کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ عمدہ شرابی ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی شراب پیا کرتے تھے۔عمدہ دوستوں کی محفل پسند کیا کرتے تھے‘۔

کمال احمد رضوی اداکار کے طور پر معروف ہوئے لیکن ان میں حسِ مزاح کا ایسا لطیف احساس پایا جاتا تھا کہ دیکھنے اور سننے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکتے۔ ان کے جملے ظرافت کا اعلیٰ نمونہ ہوا کرتے، ان کے مزاحیہ فقرے نپے تلے اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ طنز کے تیر ونشتر لیے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ اپنے ہی لکھے ہوئے جملوں کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس انداز سے ادا کیا کرتے کہ مِز اح کا لطف دوبالا ہوجایا کرتا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر الن کا تحریر کردہ ڈرامہ الف نون 72۔1971ء کے درمیان پہلی مرتبہ ٹیلی کاسٹ ہوا، یہ متعدد قسطوں پر مشتمل تھا۔ معاشرے کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، ادبی موضوعات کو ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ الن (کمال احمد رضوی) اور ننھا (رفیع خار) اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے کہ جو وقت الف نون کی ٹیلی کاسٹ ہونے کا ہوتا اس وقت محلوں کی گلیوں میں سنناٹا ہوا کرتا لوگ اس بات کی کوشش کیا کرتے کہ وہ الف نون کے نشر ہونے سے قبل اپنے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔اس ڈرامہ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ 1970سے 1980 کے درمیان یہ سیریل کراچی ٹیلی ویژن سے تین بار ٹیلی کاسٹ کی گئی۔ کمال احمد رضوی نے متعدد ڈرامے تحریر کیے ان میں مسٹر شیطان، آدھی بات، بلاقی بدذات، بادشاہت کا خاتمہ، جوس سیزر، صاحب بی بی گلام، چور مچائے شور،کھویاہوا آدمی، خوابوں کا مسافر، ہم سب پاگل ہیں، آپ کا مخلص شامل ہیں، انہوں نے مختلف رسائل کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے ان میں تہذیب، آئینہ، شمع کے علاوہ بچوں کا رسالہ بچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت،پھلواری شامل ہیں۔ کمال احمدرضوی بے بہا خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کے قلم میں روانی اور پختگی تھی۔ ان کی سوچ کا دھارا ہمیشہ معاشرے میں کسی نہ کسی برائی ، خامی یا کمزوری کو دور کرنے کی جانب ہوا کرتا۔ الف نون کے بے شمار اقساط میں انہوں نے روزمرہ کے مسائل ، لوگوں کی مشکلات پر خوبصورت انداز سے طنز کے تیر چلائے ۔ وہ قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ اداکار بھی اتنے ہی اچھے تھے۔ بنیادی طور پر وہ تخلیق کار تھے۔ تھیٹر کے حوالے سے ان کی خدمات کو پاکستان میں پہلا پتھر تصور کیا جاتا ہے ۔

’کمال کی باتیں‘ میں جو خاکے کمال کے تحریر کردہ شامل ہیں ان میں فیض ؔ صاحب، منٹو صاحب، احمد پرویز۔نامہر بان یادیں، ہماری انیس آپا، حفیظ جاوید، حمید کاشمیری، انور جلال ثمزا، پراسرار نجمی، صفدر میر، شاکر علی، شوکت رضوی، سبطِ حسن، ستارہ بائی کانپوری، تجمل بھائی شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ پاک ٹی ہاؤس، الحمراکے عنوان سے مضامین ، ترگنیف ۔شخصیت اور فن گلیرٹ گارڈنر ، یہ ترجمہ ہے جو کمال نے کیا۔ کمال پر لکھے گئے کالموں میں منو بھائی کا کالم ’کمال احمد رضوی ہمارے ہاتھوں میں سے نکل گئے، یہ جنگ میں شائع ہوا تھا، انتظار حسین کا کالم ’ کچھ کمال احمد رضوی کے بارے میں، یہ روزنامہ ایکسپر یس میں شائع ہوا تھا، کشور ناہید کا کالم ’الف نون یا کمال احمد رضوی بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر کتاب کمال کی تحریروں کا اچھا مجموعہ ہے۔

2015ء نے جاتے جاتے علم وادب کا ایک اور چراغ گل کردیا تھا۔الن 17 دسمبر2015 ء کو عالم فانی سے ہمیشہ ہمشہ کے لیے عالم جاودانی میں چلے گئے۔انہوں نے ٹی وی مزاحیہ ڈرامہ ’الف نون‘ سے شہرت کی بلندیوں کو چھوا ، ڈارامہ کے خالق بھی وہ از خود ہی تھے اور اس ڈرامے کامرکزی کرداروں بھی انہوں نے الن کے نام سے خود ہی ادا کیا۔یہ جوڑی ادارکار ننھا’ رفیع خاور‘ کی خود کشی کرلینے کے بعد اچانک ٹوٹ گئی تھی اور الن تنہا رہ گئے۔ اس بعد بھی انہوں نے کئی ڈرامے کیے اور لکھے بھی لیکن الف نون جیسی شہرت نصیب نہ ہوسکی۔ 29 سال بعد 17 دسمبر2015 ء کو الن دوبارہ اپنے ساتھی ننھے سے جا ملے ۔الف نون میں دو بنیادی کردار تھے ایک’ الن‘( کمال احمدرضوی )جب کہ دوسرا کردار ادار کار رفیع خاور ننھے کے نام سے ادا کیا کرتے تھے۔ الف یعنی الن دبلے پتلے اسمارٹ تھے ، ان کا کردار سنجیدگی لیے ہوئے تھا جب کہ نون یعنی ننھا اس کے مقابلے میں گول مٹول اور موٹے تھے، ار ان کا کردار مزاحیہ تھا، جس وقت یہ جوڑی ٹیلی ویژن پر نمودار ہوتی انہیں دیکھ کر ہی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ آجایا کرتی۔ رفیع خاور فلموں میں کام کیا کرتے تھے، فلمی اداکار تھے ان کی پہلی فلم ’وطن کا سپاہی ‘ تھی۔ ننھا نے بے شمار فلمیں کیں ، وہ عموماً مزاحیااداکاری ہی کیاکرتے تھے۔ فلموں میں تو وہ کامیاب نہ ہوسکے البتہ کمال احمدرضوی کے لکھے ہوئے ڈرامے میں رفیع خاور کو بے پنا شہرت ملی۔ کہا گیا کہ رفیع خاور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی ہیروئن کے عشق میں گرفتار ہوگئے تھے ۔ان کا عشق ناکام عشق ہوگیا ۔ وہ بظاہر صحت مند تھے لیکن دل کے بہت ہی چھوٹے نکلے ، انہوں نے دل برداشتہ ہوکر 2جون1986ء کو اپنے آپ کو گولی کا نشانہ بنا لیا اور خود کشی کر لی۔ ننھے کے انتقال کا اثر کمال احمدرضوی پر بھی ہوا۔ اس لیے کہ ننھے کہ اس عمل سے الن اپنے ساتھی اور دوست سے محروم ہوگئے۔ اس کے بعد کمال احمدرضوی نے کئی ڈرامے کیے لیکن ننھے کے بغیر ان کی اداکاری ادھوری ادھوری محسوس کی گئی۔ خود الن کو بھی اس بات کا شدید احساس تھا۔ انہوں نے لکھنے کاعمل تو جاری رکھا لیکن اداکاری سے اجتناب کرنے لگے۔اب وہ زیادہ وقت پڑھنے میں دینے لگے تھے۔ گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ بنیادی طور پر وہ تخلیق کار تھے۔ تھیٹر کے حوالے سے ان کی خدمات کو پاکستان میں پہلا پتھر تصور کیا جاتا ہے ۔ وہ بجا طور پر founding father of theature in Pakistanکہلائے جاتے ہیں۔ کمال احمدرضوی کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا نعم البدل مشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن ہے۔ وہ اپنی ذات میں ادارہ تھے۔ شخصی کمالات اور خوبیوں کا مجموعہ۔
جنہیں دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں

کمال احمدرضوی کا تعلق ہندوستان کے شہر بہار شریف سے تھا وہ 1930ء میں بہار کے گاؤں ’گیا‘ کے مقام پر پید ا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ہندوستان میں ہی حاصل کی۔قیام پاکستان کے بعد پانچ سال بعد 1951ء میں انہوں نے پاکستان ہجرت کی،اس وقت ان کی عمر 21 برس تھی ۔شروع میں کراچی پھر لاہور منتقل ہوگئے لیکن پھرکراچی میں رہائش اختیار کی۔کمال احمدرضوی ترقی پسند خیالات رکھتے تھے، ان کے دوستوں کا حلقہ بھی ترقی پسندوں پر ہی مشتمل تھا۔ کراچی کے ابتدائی سالوں میں شہر کراچی کے شاعر، ادیب و دانشور کراچی کے معروف علاقے صدر میں قائم کیفے جارج میں شام کے اوقات میں جمع ہوا کرتے اور ادبی محفلیں رات گئے تک جاری رہتیں۔ کیفے جارج کے بعد پاک ٹی ہاؤس ادیبوں کی پناہ گیا بن گیا۔ کمال احمدرضوی بھی ابتدائی ایام میں ان محفلوں میں بھر پور شریک ہوا کرتے۔حکومت کی جانب سے انہیں 1989ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ بلا شبہ کمال احمد رضوی جنہیں ہم سے جدا ہوئے دو سال ہوگئے ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ادبی دنیا ایک تخلیق کار سے محروم ہوگئی ۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438853 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More