دریائے آمو دنیا کا ایک مشہور دریا ہے ۔ یہ
ترکستان،ازبکستان، تر کمستان اور افغانستان سمیت سارے وسطی ایشیا میں بہتا
ہے۔دریائے آمو کے ساتھ ساتھ ازبکستان کا جنوب مغربی علاقہ خوارز م کہلاتا
ہے۔محمد بن موسیٰ کا تعلق خوارزم کے دوسرے بڑے شہر خیوا سے تھا۔780 میں
پیدا ہونے والے اس شخص کا تعلق ایک انتہائی غریب گھرانے سے تھا۔ اس کی
ابتدائی تعلیم کے بارے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ مگر اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔
اسے جہاں سے کوئی کتاب ملتی اسے حاصل کرنا اور پڑھنا اس کی عام عادت تھی۔
مگر خیوا میں اس وقت نہ تو کوئی بڑا اہل علم تھا اور نہ ہی کوئی بڑی درس
گاہ۔
یہ عباسیوں کا دور تھا۔ خلیفہ منصور کے حکم سے نیا شہر بغداد آباد کیا چکا
تھا۔ بیت ا لحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم ہو چکا تھا اور دنیا بھر سے اہل
علم، فلسفی، سائنسدان، مورخ، شعرا، ادیب اورریاضی دان وہاں اکٹھے تھے۔وہ
دور تاریخ میں سائنسی ترقی کے حوالے سے اسلام کا سنہری دور تصور ہوتا تھا۔
اس وقت کا خلیفہ مامون رشید اہل علم کا بہت قدر دان تھا اور دنیا بھر سے
اہل علم کو اپنے دربار میں اکٹھا کرنے کا شوقین۔ وہ باقاعدہ فرمائش کرکے
کتابیں لکھواتا۔ مناسب سہولتیں فراہم کرتا ۔ ہمت افزائی کرتا اور اہل علم
کو معاشی طور پر خوش حال کر دیتا۔اہل علم میں جو مذاکرے اور مناظرے ہوتے وہ
ان میں دلچسپی بھی لیتا اور خود بھی شریک ہوتا۔بیت الحکمت میں دنیا کی
شاندار لیباٹریاں قائم تھیں، شاندار تحقیقی کام ہو رہا تھا۔بیت الحکمت کی
شہرت دنیا بھر میں پھیل چکی تھی اور دنیا بھر سے طالب علم اس کی طرف دیوانہ
وار کھنچے آ رہے تھے۔
علم کا متلاشی محمد بن موسیٰ بغداد آ گیا۔وہ شروع ہی سے اپنے حال میں مست
رہتا اور لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتا تھا۔ اس کے اپنے شہر خیوا میں بھی
اسے بہت کم لوگ جانتے تھے، ایک انجان اور نئے شہر بغداد میں اسے کون
جانتا۔وہ بیت الحکمت میں داخل ہونا چاہتا تھا مگر کوئی واقفیت نہ ہونے کے
سبب ناکام تھا۔اس نے بہت کوشش کی مگرکچھ نہ ہوا۔اب اس کے سر پر ایک ہی دھن
سوار تھی کہ کسی طرح بیت الحکمت میں داخلہ مل جائے۔بہت سوچنے کے بعد اسے
ایک اچھوتا خیال آیا۔اس نے ایک مقا لہ (Thesis) لکھا اور بیت الحکمت جا کر
وہاں جمع کرا آیا کہ وہاں کے اہل علم اسے دیکھ لیں۔ اگلے دن بیت الحکمت میں
اس کے مقالے کے حوالے سے اک شور برپا تھا۔ فوری طور پر اسے طلب کیا گیا اور
چار پانچ لوگوں نے اس کے ساتھ مقالے کے حوالے سے سوال جواب کئے۔ محمد بن
موسیٰ نے بہت خوبصورتی سے اپنے مقالے کا دفاع کیا۔یہ دنیا کا پہلا مقالہ
تھا جو کسی نے لکھا اور اس کا دفاع بھی کیا۔آج کی Phd ڈگری کا حصول اسی
واقعے کا تسلسل ہے۔محمد بن موسیٰ کو Phd کی ڈگری تو نہیں ملی مگر اس کے بعد
فوری طور پر بیت الحکمت میں داخلہ مل گیا اور اس کی قائم کردہ روایت آج
دنیا میں امر ہو چکی ہے۔آج ہر شخص کو پی ایچ ڈی کے حصول کے لئے مقالہ لکھنا
اور پروفیسروں کے ایک بورڈ کے سامنے اس کا دفاع کرنا، جو ڈیفنس کہلاتا ہے،
ضروری ہے۔
محمد بن موسیٰ جسے دنیا آج الخوارزمی کے نام سے جانتی ہے، اس واقعے کے بعد
ایک اہم شخص تھا۔خلیفہ مامون اس سے پیار کرتا اور اسے ہر وقت اپنے ساتھ
رکھتا۔وہ مامون کے دربار کی ایک اہم شخصیت تھا۔ ماموں کے کہنے پر اس نے
یونانی کتابیں اکھٹی کیں اور ان کا ترجمہ کیا۔اس کا زیادہ تر وقت مامون کے
کتب خانے میں گزرتا،جہاں کی ساری کتابیں خوارزمی نے پڑھ لیں۔کتابوں سے ہٹ
کر جو وقت ملتا خوارزمی وہ وقت علما اور اہل علم کی صحبت میں گزارتا۔وہ
ماہر فلکیات، تاریخ دان اور ریاضی دان تھا۔لیکن اس کی شہرت بطور ریاضی دان
بہت زیادہ ہے۔مامون کی فرمائش پر لکھی گئی اس کی کتاب مامون کو بہت پسند
آئی اور مامون نے اسے دل کھول کر نوازا۔مامون ہی کے کہنے پر الخوارزمی کی
لکھی ہوئی دوسری کتاب ’’الجبر و المقابلہ‘‘ایک بے مثال کتاب ہے۔ یہ الجبرے
کے علم کے لئے ایک بنیادی کتاب ہے اور اسی کے حوالے سے دنیا الخوارزمی کو
الجبرے کا موجد تسلیم کرتی ہے۔اس کتاب میں یک درجی اور دو درجی مساواتوں کے
حل، ابتدائی ہندسوں ( نمبر سسٹم)اورسادہ حسابی کیلکولیشنز کے حل کے لئے
قوائد و ضوابط بتائے گئے ہیں۔اس کے بنائے ہوئے قوانین اور قاعد ے آج تک
دنیا بھر کے سکولوں اور کالجوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔
یورپ میں اس وقت تک رومن ہندسے استعمال ہوتے تھے۔ خوارزمی نے ایک سے لے کر
نو تک ہندسوں کا استعمال کرنا رواج دیاجس کوبعد میں یورپ نے بھی اپنایا۔عرب
ممالک کے جغرافیائی حالات کے باعث آسمان صاف نظر تھا جس کی وجہ سے اجرام
فلکی کا مشاہدہ آسان تھا۔ صحراؤں اور سمندروں میں سفر کے لئے بھی ستاروں
اور سیاروں سے واقفیت لازمی تھی۔نماز، سحر و افطار، سورج کے طلوع اور غروب
سمیت صحیح وقت کے تعین کے لئے اجرام فلکی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ خوارزمی
ماہر فلکیات بھی تھا۔ فلکیات کے بارے اس کی کتاب ’’فی زیچ‘‘ایک مشہور کتاب
ہے۔ اس نے علم نجوم کے بارے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ ماموں کے کہنے پر اس نے
افلاک اور کرہ ارض کے نقشوں کی ایک اٹلس بھی تیار کی۔ خوارزمی کی لکھی ہوئی
بہت سی کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں مگر جو کچھ میسر ہے وہ ایک بیش بہا
خزانہ ہے اور پوری دنیا اس سے مستفید ہو رہی ہے۔ |