اُم الخیر : حضرت رابعہ بصری ؒ

یہ کنیز ابھی تک جاگ رہی ہے؟ مالک نے بڑی حیرت کے ساتھ سوچااور کنیز کے جاگنے کا سبب معلوم کرنے کے لئے کوٹھری کی طرف بڑھا۔دروازہ کھلا ہوا تھا ،مالک آہستہ آہستہ دبے پاؤں اندر داخل ہوا۔اب اس نے ایک ناقابل یقین منظر دیکھا۔کنیز سجدہ ریز تھی اور اس کی سسکیاں ابھر رہی تھیں۔ مالک کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا۔ وہ آہستہ سے آگے بڑھا اور کان لگا کر سننے لگا۔ کنیز انتہائی رقت آمیز لہجے میں دعا مانگ رہی تھی۔’’اے اﷲ ! تو اچھی طرح با خبر ہے کہ تیری اس ادنیٰ سی کنیز کا دل چاہتا ہے کہ دن رات تیری ہی بندگی میں مصروف رہے، تیری ہی حضوری میں وقت گزارے۔ مگر کیا کروں میرے مولا ! تمام دن دنیاوی مالک کی خدمت سے فرصت نہیں ملتی، ہاں رات کو اس کے سو جانے کے بعد تیرے حضور حاضر ہوتی ہوں۔ پس رات میں جتنا بھی مجھ سے ہوسکتا ہے تیرا حق بندگی ادا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ لیکن مجھے احساس ہے کہ بات یوں بنتی نہیں۔اس طرح نہ تیرا حق ادا کر سکتی ہوں اور نہ ہی میری روح کی تشنگی دور ہوتی ہے۔ میں جانتی ہوں تو علیم و خبیر ہے تو سب کچھ جانتا ہے پس میری تھوڑی عبادت کو بھی قبول فرمائے گا‘‘۔

مالک نے جب کنیز کی گریہ و زاری سنی تو خوف خدا سے کانپنے لگااور اسے اپنے ماضی پر شرمندگی محسوس ہونے لگی۔الٹے قدموں واپس ہوا اور باقی رات اضطراب کی حالت میں گزاری۔ پھر صبح ہوتے ہی کنیز کی کوٹھری میں پہنچا اور کہا۔’’ آج سے میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ‘‘۔کنیز نے حیرانگی سے دریافت کیا ۔’’ مگر میں تمھاری دی ہوئی قیمت ادا نہیں کر سکتی ‘‘۔مالک نے عجز و انکساری سے کہا۔’’ میں تم سے کوئی قیمت نہیں مانگتا لیکن میری طرف سے ہونے والی تمام زیادتیوں کو معاف کردو ‘‘۔’’میں نے تمہیں معاف کیا اور میرا مالک تمہیں ہدایت دے‘‘۔ یہ کہہ کر کنیز چلی گئی۔یہ زاہدہ، عابدہ اور عارفہ کنیز حضرت رابعہ بصری ؒ تھیں ۔آزاد ہوتے ہی آپ نے شہر کے ایک محلے میں ایک معمولی سا مکان لے لیا ہے اور اپنی باقی زندگی وہاں اﷲ کی عبادت میں بسر کرنے لگیں۔ایک دفعہ کسی نے حضرت رابعہ بصری ؒ سے پوچھا۔ ’’کیا آپ اﷲ کو دوست رکھتی ہیں؟‘‘،فرمایا۔ ’’بے شک میں اﷲ کو دوست رکھتی ہوں ‘‘۔سوال کرنے والے نے پھر دریافت کیا۔ ’’کیا آپ شیطان کو دشمن سمجھتی ہیں؟ ‘‘، فرمایا۔ ’’اﷲ کی محبت نے مجھے اس درجہ وارفتہ بنا رکھا ہے کہ مجھے اتنی فرصت نہیں کہ شیطان کی طرف توجہ دوں ‘‘۔

حضرت رابعہ بصری ؒ کا تعلق عرب کے ایک مشہور قبیلہ عدی سے تھا۔ اپنے والدین کی چوتھی اولاد ہونے کی وجہ سے رابعہ کہلائیں۔اور بصرہ میں رہنے کی وجہ سے رابعہ بصری کے نام سے مشہور ہوئیں۔ آپ کی کنیت اُم الخیر تھی۔ آپ کی پیدائش پر آپ کے والد گرامی کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ تیری بچی بہت مقبولیت حاصل کرے گی اور اس کی شفاعت سے میری امت کے بہت سے افراد بخش دیئے جائیں گے۔ آپ بہت پختہ اور کامل ایمان و عقیدے کی مالک تھیں، اُن کا ایمان تھا کہ جو وعدے اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے بندوں سے کیے ہیں وہ سب سچ ہیں اور اﷲ تعالیٰ ہر حال میں اپنے وعدے پورے فرماتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ آپ کو اﷲ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ تھا۔ایک مرتبہ آپ حج کے سفر پر جارہی تھیں کہ راستے میں ان کا گدھا بیمار ہوگیا۔از راہِ ہمدردی قافلے کے ہر شخص نے آپ کا سامان اُٹھانے کی پیش کش کی لیکن آپ نے شکریے کے ساتھ انکار کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’جب میں نے حج کا رادہ کیا تھا تو مجھے اﷲ کی مدد پر بھروسہ و یقین تھا اور میں اُس کے بندوں کی مدد پر بھروسہ کرکے نہیں آئی ‘‘۔ قافلے میں شامل لوگ جب آپ سے آگے نکل گئے تو آپ نے بڑے خلوص سے دعا مانگی۔ ’’ اے میرے مولا! ایک غریب و مسکین عورت کے ساتھ شہنشاہ کو کیا ایسا کرنا چاہیئے؟ تو نے مجھے بیت اﷲ آنے کی دعوت دی اور میرے گدھے کو راستے میں قریب المرگ کر دیا۔ تو جانتا ہے کہ میں تیرے سوا کسی کے احسان کی عادی نہیں ہوں ‘‘۔ دوسرے دن آپ کا گدھا بالکل ٹھیک ہوگیا۔ اُن کے پختہ عقیدے کی بدولت کئی بار حیران کرنے دینے والے واقعات پیش آئے جسے لوگ اُن کی کرامات قرار دیتے ہیں۔حضرت رابعہ بصری ؒ نے 185 ھ میں وفات پائی اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو لبادے میں کفنایا گیا جو موٹے کپڑے کا تھا۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 266073 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.