ونسٹن چرچل کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’ کامیابی حتمی منزل
نہیں ہے اور نہ ہی ناکامی حتمی مایوسی، دراصل حوصلہ قائم رہے یہی سب سے بڑی
کامیابی ہے‘‘۔انسان کی کامیابی اس کی جسمانی ساخت سے ہرگز مشروط نہیں
ہے۔کامیابی کے لیے ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ غیر متزلزل یقین،
مصمم ارادہ اور آگے بڑھنے کی صلاحیت و خواہش بہت ضروری ہوتی ہے۔وہ لوگ جو
کامیابی کے سفر میں رکاوٹوں کی پرواہ نہیں کرتے وہ غیر معمولی صلاحیتوں سے
مالا مال ہوتے ہیں۔مسلم اسٹوڈنٹس کو سب سے پہلے احساس کمتری کے خول سے باہر
آنا ہوگا۔ تعلیم کے حصول پر تمام توجہ مرکوز کرتے ہوئے دنیاکویہ
بتاناہوگاکہ ہم ہی نے دنیاکو تہذیب،علم اور فن دیا ہے۔حوصلہ اور ہمت ہارنے
والے کبھی منزل حاصل نہیں کرسکتے۔ واٹس ایپ کے موجدین ’’جین کوم‘‘
اور’’برائن ایکٹن‘‘ نے بے شمار انٹرویوز دیئے لیکن حصول ملازمت میں ناکام
رہے، انھوں نے فیس بک میں ملازمت کے لیے درخواست بھیجی جس کو قبول نہیں کیا
گیا۔انہوں نے حوصلہ اور ہمت نہ ہارتے ہوئے ’’واٹس ایپ‘‘ ایجاد کیا جو آج
ساری دنیا کے ہر فرد کے لیے کارآمد ہے۔19 ؍فروری 2014ء کو فیس بک امریکہ نے
واٹس ایپ کو 19؍ ارب ڈالر میں خرید لیا ہے ۔کسی بھی چیز کو حاصل کرنے اور
سیکھنے کے لیے درکار وقت دیں، اپنی ساری توجہ سے بذات خود باریک بینی سے
جائزہ لیں اوراﷲ کی رضا میں راضی رہیں۔چیونٹی اپنے عز م و حوصلے کے بل بوتے
پر بڑے سے بڑا معرکہ سر کرلیتی ہے اور اس کی ننھی منی جسامت منزل تک پہنچنے
کے احساس کو کسی بھی طرح کمزور نہیں کرتی، جب ایک چیونٹی کا یہ حال ہے
توانسان کا عزم و حوصلہ کتنا بلند ہونا چاہیے ؟انسان میں موجود عزم و حوصلہ
چٹانوں سے ٹکرانے اورطوفانوں کا رُ خ موڑنے کی ہمت پیدا کردیتاہے۔دنیا میں
کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جسے مشکلا ت کا سامنا نہ ہو،مشکل کی کوئی بھی
صورت ہوسکتی ہے ، کبھی تو آزمائش بھوک کے بھیس میں آتی ہے اور کبھی غریبی
کے لبادے میں۔ انسان کو درپیش مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل رزق کی تنگی بھی
ہے اور اس مشکل کا سامنا کرنے کا ایک راستہ ’’قناعت‘‘ ہے اور یہ تنگدستی کے
بھنور میں خود کو سنبھالنے کا بہترین سہارا ہے۔ جواﷲ کی رضا پر راضی رہنا
سیکھ جائے اور قناعت اختیار کرے اسے قلبی سکون کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔انسان
آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے صبروقناعت کاعمدہ ہتھیار استعمال کرسکتا
ہے۔
خوشی و غم اور کامیابی و ناکامی کی آنکھ مچولی زندگی بھر انسان کے ساتھ
چلتی رہتی ہے، اچھے برے دن ہماری زندگی کا لازمہ ہیں، ہمیں ان کے ساتھ
سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس حوالے سے انسانی رویے کا کردار سب سے اہم ہوتا
ہے، کچھ لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں،اپنی اصلاح کرتے ہیں اور اپنے مقصد
حیات کی طرف اپنی توجہ مرکوز کیے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔یہ وہ
مثبت رویہ ہے جو حضرت انسان کو ناکامی کے بعد سنبھلنا سکھاتا ہے،زندگی کے
نشیب و فراز سے نپٹنا سکھاتا ہے، ورنہ یوں بھی ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی
ناکامیوں سے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہوکر گمنامی کے
اندھیروں میں کھو جاتے ہیں۔ کامیابی کے سفر کے کچھ عملی تقاضے ہوتے ہیں اور
ان تقاضوں کو پورا کیے بغیر بات کہاں بنتی ہے ؟صرف خواہشات کا ہوناکافی
نہیں ہے ،ان خواہشات کے حصول کے لیے اپنے سامنے موجود رکاوٹوں کو بڑے حوصلے
اور استقامت سے پھلانگنا پڑتا ہے۔اگر کسی ایک مقصد یا منزل میں کامیابی
نہیں ملتی ہے تو نا اُمید نہیں ہوناچاہیے بلکہ زندگی میں آگے بڑھنا چاہیے
اور ایسے لوگوں کے لیے میدانوں کی کمی نہیں ہے۔ اگر ایک منزل چھوٹتی ہے تو
کوئی بات نہیں،سوار بلند حوصلہ ہو تو گھوڑا دوڑانے کے لیے دوسرے بہت سے
میدان چاروں طرف ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ بس ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور پھر
ایک ہی خیال سے چپک کر رہ جانا کہاں کی دانائی ہے؟ایک شعبے میں ناکامی کا
یہ مطلب تو نہیں کہ بندہ دوسرے شعبوں میں کوشش نہ کرے ؟یا اسی شعبے میں
مزید طبع آزمائی نہ کرے؟ہمارے لیے ’’مَن جَدَّوَجَدَ‘‘کا فرمان ہے اور جو
کوشش کرتا ہے یقینا پا لیتا ہے بس شرط ہے صبر،استقامت،حوصلہ ،ہمت،جوانمردی
اور یقین۔پھر ہمیں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اگر انسان کی ہر خواہش پوری
ہوجائے تو یہ دنیا جنت نہ بن جائے ؟جب کہ دنیا امتحان گاہ ہے ،آزمائشوں کی
جگہ ہے،یہاں اچھے اور بُرے کی تمیز ہوتی ہے،رشتوں کی سچائی کا احساس ہوتا
ہے ،اپنوں اور بیگانوں کی پہچان ہوتی ہے، بس انسان کو چاہیے کہ مشکل حالات
میں بھی صبرواستقامت کا دامن تھامے رہے ،قدموں میں لغزش نہ آنے پائے،ذہن
متزلزل نہ ہوسکے،ایمان ویقین میں مزید پختگی پیداکرے۔کنفیوشس نے بہت پہلے
کہا تھا کہ اندھیرے کو بُرا بھلا کہنے سے تو بہتر ہے کہ ایک شمع روشن کر دی
جائے۔اندھیرے سے خوف کھائے بغیر اس کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہی جوانمردی
کی علامت ہے۔ڈاکٹراقبال نے کیا خوب کہا تھا
ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
جب الیگزانڈر گراہم بیل نے ٹیلی فون ایجا د کرنے کے بعد اس کے استعمال کا
عملی مظاہر ہ صدر مملکت کے سامنے کیا تو اس نے کہا چیز تو آپ نے اچھی بنائی
ہے لیکن اسے کوئی استعمال نہیں کرے گا۔جب ٹامس ایڈیسن نے بلب ایجاد کیا تو
اس نے دو ہزار مرتبہ ناکامی کا سامنا کیا لیکن بالآخر کامیاب ہوگیا۔اسی
ٹامس ایڈیسن کے اُستاد نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یہ اتنا کند ذہن ہے کہ اس
کے لیے کچھ سیکھنا بہت مشکل ہے۔فرینکلن ڈی روزویلٹ 39؍برس کی عمر میں پولیو
سے مفلوج ہوگیا تھا لیکن اس نے ہمت نہیں ہار ی، اپنا حوصلہ جوان رکھا اور
پھر وہ چار مرتبہ امریکہ کا صدر بنا۔آئن سٹائن کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ یونی
ورسٹی نے پہلی مرتبہ یہ کہہ کر مسترد کردیاتھا کہ یہ اپنے موضوع سے مطابقت
نہیں رکھتا اور اس میں جو نکات پیش کیے گئے ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق
نہیں ہے۔ اپنی تجارت کے پہلے سال ’’کوکا کولا‘‘ کمپنی نے صرف چار سو بوتلیں
فروخت کی تھیں۔یہ دنیا کے وہ نامور لوگ ہیں جوابتدامیں بری طرح ناکام ہوئے
تھے لیکن انہوں نے ان ناکامیوں کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا۔یہ
ناکامیاں ان کا اعتماد مجروح کرنے میں ناکام رہیں ، زندگی میں کامیابی حاصل
کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اس بات پر یقین رکھا جائے کہ ہم کرسکتے
ہیں۔ |