23 مارچ، دو قومی نظری اور قرار داد پاکستان

صاحبو 23 مارچ کا دن ہم سب کے لئے ایک خوشی کا دن ہوتا ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس دن کی مناسبت سے اہم تقریب کااہتمام کیا جاتا ہے۔ جہاں ہمارے ملک کے صدر، وزریر اعظم اور اعلیٰ عہدیدار مہمان خصوصی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان آرمی، پاکستان نیوی اور پاکستان ایئر فورس کی طرف سے پریڈ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔جسے ہزاروں لوگ دیکھنے جاتے ہیں تو ہمارے ملک کے لاکھوں لوگ بچے بوڑھے جوان سبھی ٹی وی سکرین پر دیکھنے کے لئے پر جوش نظر آتے ہیں۔ہمارے ملک پاکستان میں 23 مارچ کے موقع پر سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔23 مارچ کو جو قرار داد پیش کی گئی کبھی ہم نے اس قرار داد کی چیدہ چیدہ باتوں پر غور کیا؟؟


ہر سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں خواہ وہ سال اسلامی سال ہو یا عیسوی یا ہو بکرمی سال۔ نئے عیسوی سال کو شروع ہوئے بھی اڑھائی ماہ گز چکے ہیں اور اب عیسوی سال کا تیسرا مہینہ مارچ بھی آدھا گز چکا۔ اسی مارچ کے ماہ میں موسم بہار بھی نئی امیدوں کے ساتھ آتا ہے۔ نئے پھولوں اور نئے جذبوں کے ساتھ بہار کا موسم بھی آچکا۔ بہار کے موس میں ہمیشہ پھول کھلا کرتے ہیں نئی امنگوں کے، نئے جذبوں کے۔نئی امنگوں اور نئے جذبوں کے پھولوں کی بات کی جائے تو آج سے تقریباََ اناسی سال پہلے 23 مارچ 1940 ؁ء کو برصغیر میں موجود لاہور کے ایک پارک ”منٹو پارک“ جہاں آج ”منیار پاکستان“ اپنی عظمت و شان کے ساتھ کھڑا ہے میں ایک نئی سوچوں، نئی امنگوں اور نئے جذبوں کا پھول ”قرار دادلاہور“ کی صورت میں کھلا۔ جسے بعد میں ”قرار داد پاکستان“ کا نام دیا گیا۔ آج ہم بطور پاکستانی قوم 23 مارچ کا دن ”یوم پاکستان“ کے طور پر بھر پور طرقہ سے جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔

صاحبو 23 مارچ کا دن ہم سب کے لئے ایک خوشی کا دن ہوتا ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس دن کی مناسبت سے اہم تقریب کااہتمام کیا جاتا ہے۔ جہاں ہمارے ملک کے صدر، وزریر اعظم اور اعلیٰ عہدیدار مہمان خصوصی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان آرمی، پاکستان نیوی اور پاکستان ایئر فورس کی طرف سے پریڈ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔جسے ہزاروں لوگ دیکھنے جاتے ہیں تو ہمارے ملک کے لاکھوں لوگ بچے بوڑھے جوان سبھی ٹی وی سکرین پر دیکھنے کے لئے پر جوش نظر آتے ہیں۔ہمارے ملک پاکستان میں 23 مارچ کے موقع پر سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔23 مارچ کو جو قرار داد پیش کی گئی کبھی ہم نے اس قرار داد کی چیدہ چیدہ باتوں پر غور کیا؟؟ ہاں سال میں ایک بار شاید اپنے بچوں کے پوچھنے پر بچوں اس دن کے متعلق بتاتے ہوئے یاد کیا ہو گا مگر غور نہیں کیا ہو گا۔ تعلیمی اداروں میں سال میں ایک بار اس دن کے حوالے سے تقریب منعقد کی جس میں مقررین نے کچھ روشنی ڈالی بس پھر اس کے بعد سارا سال ہمیں یہ یاد نہی رہتا۔ پھر جب ایک سال بعد مارچ کے مہینے میں تیئس مارچ قریب آئے اور کوئی اس دن کی چھٹی کا یاد کروائے تو پہلے تو ہمارے ذہن میں ہی نہیں ہوتا کہ چھٹی کس حوالے سے آرہی ہے۔ پھر جب تیئس مارچ انیس سو چالیس کا حوالہ دیا جاتا ہے تو گزشتہ برس کی تقاریب کے ھوالے سے کچھ یاد آتا ہے۔تو صاحبو آئیں میرے ساتھ اس دن کی چیدہ چیدہ باتیں یاد کریں۔

صاحبو پاکستان تو اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن ہندوستان میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا جب برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید وطن اور نسل نہیں۔ہندوستان کا جو پہلا شخص مسلمان ہوا تھا وہ اپنی پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا۔وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا، ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی تھی۔1940 کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں دو قومی نظریے کا باقاعدہ تصور پیش کیا گیا۔نظریہ کی اہمیت یہ ہے کہ جس طرح انسان کے جسم میں روح کی موجودگی ضروری ہے اسی طرح قوم کی زندگی میں نظریہ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے نظریات کی حفاظت کیا کرتی ہیں۔ دنیا کے ہر ملک کے لوگوں کے خاص نظریات ہیں۔دو قومی نظریہ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا جب انگریزوں کا ہندوستان میں آخری وقت تھا چونکہ یہ آزادی سے چند سال پہلے پیش کیا گیا اور اسے عوام کے جوش کی وجہ سے فوری پذیرائی ملی اور انہوں نے اس نظریے کو اپنے جینے مرنے کا مقصد بنا لیا۔ جب کسی قوم کے لوگ کسی بات کو اپنے اوپر سوار کر کے عمل اس کے مطابق کریں تو کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظریے نے مسلمانوں کو بہت جلد ان کی منزل یعنی پاکستان حاصل کر کے دیا۔ ہمارے بزرگوں نے اس نظریے کو اپنے سینوں میں بسا لیا۔ انہوں نے اس کی تعبیر کے خواب دیکھے اور ان کی قیادت نے یہ تعبیر حاصل کرنے کے لئے ان کی رہنمائی کی۔ وہ لوگ اپنی دھن میں اس قدر پکے تھے کہ انہوں نے اپنے خون سے پورے ہندوستان کو نہلا دیا۔ غلامی کی اندھیری رات کو ختم کر کے آزادی کی صبح کی ابتداء کی۔ یہ سب اس نظریے کی بدولت تھا جس میں اللہ کی رضا شامل تھی۔ ہمارے بزرگ آگ اور خون کے دریا سے گزر کر پاکستان آئے اپنی لٹی پٹی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ نظریہ جس کی بدولت ہم نے پاکستان حاصل کیا ہم اسے اگلی نسلوں میں منتقل نہ کر سکے۔ یہ سراسر ہمارے ان مفکروں کا قصور ہے جن کا خیال یہ تھا کہ اب اس نظریے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں اس نظریے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے

23 مارچ 1940 ؁ء کو شیر بنگال ابوالقسیم نے ”قرار داد لاہور“ پیس کی جسے بعد میں خود مخالفوں نے ”قرارا دادپاکستان“ کا نام اپنی مخالفت کی وجہ سے دیا جو کہ اتنا اچھا تھا کہ اس قرار دا کا نام ہی ”قرار داد پاکستان“ ہی پڑ گیا۔یہ قرار داد پیس ہونے کے بعد چودھری خلیق الزماں نے سب سے پہلے اس کی حمایت کی۔ ان کے بعد مولانا طٖر علی خان، سردار اورنگزیبخان، سر حاجی عبد اللہ ہارون، نواب اسماعیل خان، قاضی محمد عیسیٰ اور آئی آئی چندریگر نے بھی اس قرار داد کی حمایت کا علان کیا۔اس قرار داد کے بعد قیام پاکستان کے لئے مسلمانوں کی جدو جہد کو واضح شکل دے دی گئی اور مسلمانوں کی جدو جہد آزادی میں تیزی آئی۔ہمارے بزرگوں نے خون کے دریا سے گزر کرقائد اعظم ؒ کی رہنمائی میں دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ جس کے نتیجہ میں آکر کار 14اگست 1947 ؁ء کو برصغیر میں ایک آزاد اسلامی مملکت ”پاکستان“ کا قیام عمل میں آیا۔

صاحبوہمارا ملک ایک عظیم ملک ہے اور یہی عظیم ملک ہماری پہچان، ہماری اساس، ہماری محبت، عزت اور ہمارا سب کچھ ہے۔اس لئے اس ملک کی قدرت نعمتوں اور دوسری بے شمار خوبیوں کو مد نظر رکھ کر صرف اور صرف پاکستان کی ترقی کے لئے سوچیں اور اسی کے لئے اپنا آپ وقف کردیں۔
 

Shehzad Aslam Raja
About the Author: Shehzad Aslam Raja Read More Articles by Shehzad Aslam Raja : 18 Articles with 17172 views I am Markazi General Secratary of AQWFP (AL-QALAM WRITERS FOURM PAKISTAN) and Former President of Bazm-e-Adab Govr Sadique Abbas Digree college Dera N.. View More