اپنے کئی قابلِ احترام دوستوں سے ان کے نقطہ نظر سے
اصلی جمہوریت کے حوالے سے میرا اختلاف رہتا ہے۔مجھے اس بات کا پکا یقین ہے
کہ جلد ہی وہ دن آنے والا ہے جب جمہور کی آواز کے سامنے سارے ادارے سرِ
تسلیم خم کر دیں گے۔ساری دنیا نے جمہور کی رائے کے سامنے خود کو سرینڈر کر
دیا ہے لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ خودکو جمہور کی آواز کے تابع رکھنے کے
لئے تیار نہیں ہے۔لیکن ایک دن تو ایسا ہو کر رہنا ہے۔وہ بات جسے ساری دنیا
نے تسلیم کر لیا ہے اسے پاکستان میں بھی تسلیم کر لیا جائے گا۔ایک مناسب
وقت کا انتظار ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے۔آزادی انسان کی سرشت میں
ہے اور وہ اسی آزادی کا طلبگار ہے۔وہ اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال چاہتا ہے
لیکن اسے یہ حق تفویض نہیں کیا جا رہا۔اس کی جدو جہد جاری ہے اور کئی با
جرات انسان اس حق کی خاطر زندانوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں اذیتوں سے
گزر رہے ہیں۔ان کی ضمانت ہو جاتی ہے تو انھیں کسی نئے مقدمہ میں دھر لیا جا
تا ہے۔یہ بڑی مشکل راہ ہے لیکن صاحبِ ہمت لوگ ہی اسے سر کرتے ہیں۔یہ
دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہوتا لیکن مشکل ضرور ہوتا ہے۔کچھ لوگ ہمت ہار جاتے
ہیں اور معافی نامے لکھ کر رہائی پا لیتے ہیں لیکن اس دفعہ جو کچھ میری
آنکھیں دیکھ رہی ہیں وہ بالکل مختلف ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے جس استقامت کا
مظاہرہ کیا ہے اس نے مجھ جیسے کئی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا ہے ۔ یورپی
کلچر میں پلا بڑھا انسان اس قدر بہادر بھی ہو گا واقعی حیران کن ہے۔اس کی
بیتابی زندانوں سے باہر آنا نہیں بلکہ نظام کو بدلنا ہے۔اسے ذاتی سہولت کی
بجائے عوامی ووٹ کی آبرو زیادہ عزیز ہے ۔ اس کے ہر مکالمہ کا آغازہی اس اہم
نکتہ سے ہوتا ہے کہ لوٹا گیا مینڈیٹ واپس کیا جائے اورجمہور کی رائے کو
تسلیم کیا جائے ۔تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جب بھی کسی مقبول قیادت نے
کوئی عوامی بیانیہ دیا وہ جیت کر رہا عوام کی رائے ہی حرفِ آخر قرار پاتی
ہے اور عوام اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ سایہ اب رہنا نہیں چاہتی۔وہ ریاست پر
آزادانہ فیصلوں کا اطلاق چاہتی ہے جسے بزورِ قوت مروڑ دیا جا تا ہے اور
پارلیمان اور وزیر اعظم کی رائے کو بدل کر پنا فیصلہ لاگو کر دیا جاتا
ہے۔ایک زمانہ تھا کہ میاں محمد نواز شریف نے (ووٹ کو عزت دو) کا بیانیہ پیش
کیا تو عوام نے دیوانہ وار اس آواز پر لبیک کہا لیکن میاں محمد نواز شریف
خود ہی اس بیانیہ سے منحرف ہو گے۔جیلوں کی سختیاں اور اذیتیں برداشت نہ کر
پائے تو بیانیہ اپنی موت آپ مر گیا۔آج کل وہ بڑی کاوش کر رہے ہیں کہ وہی
بیانیہ پھر دہرایا جائے لیکن بات نہیں بن رہی کیونکہ ان کا اپنا بھائی
وزیرِاعظم اور ان کی اپنی بیٹی وزیرِ اعلی پنجاب ہے۔(فارم ۴۷) سے اقتدار کی
مسند پر برا جمان ہو نے والے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کیسے بلند کر سکتے
ہیں۔؟عوامی ووٹ تو اسی کو ملے گا جو جمہور کی بات کرے گا ، جو جمہوریت کی
بات کرے گا ،جو عوامی رائے کے احترام کی بات کرے گاجو آزادی کی بات کرے گا
اور جو قوم کو اٹھ جانے کا مژدہ جانفزا سنائے گا۔ ایسے انسان کے خلاف
عدالتی فیصلے ایسے تواتر سے آتے ہیں کہ انسان شسدر رہ جائے ۔بانی پی ٹی آئی
کے خلاف رات گئے تک کئی اہم مقدمات کی شنوائی پہلی بار دیکھی گئی ہے۔کئی
کئی گھنٹو ں پر مشتمل کاروائی کا مقصد بانی پی ٹی آئی کے خلاف فیصلے کا
حصول تھا۔سائفر کیس،عدت کیس اور پھر توشہ خانی کیس کی تیز ترین کاروائی کا
مقصد بانی پی ٹی آئی کے خلاف فیصلوں کا حصول تھا اور ججز نے وہ فیصلے دئے
لیکن ان فیصلوں سے بانی پی ٹی آئی کو خوفزدہ نہ کیا جا سکا۔بانی پی ٹی آئی
زیادہ شدت سے نظام کا مخانف بن کر سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام کی
آنکھ کا تارا بن گیا۔ ،۔
جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک حقیقت ہے۔اسٹیبلشمنٹ اپنی برتری کا لوہا
منوائے ہوئے ہے اور سارے معاملات ان کی چشمِ آبرو کے منتظر ہوتے ہیں۔وہ جس
پر انگلی رکھ دیں اقتدار کا ہما اسی کے سر پر بیٹھ جاتا ہے۔کسی میں اتنی
جرات نہیں ہے کہ وہ ان کی کسی بات کو ناں کر سکے ۔ کرپشن زدہ معاشرے میں
کرپشن میں لتھڑے ہوئے لوگ اسٹیبلشمنٹ کی چشمِ آبرو پر رقص کناں نہ ہوں گے
تو پھر کون ہو گا؟آسا ئشات سے بھری اس دنیا میں کوئی بھی جیلوں میں زندگی
کے چند ایام گزارنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔وہ دنیا کی دلکشیوں اور دلآویزیوں
سے مکمل لطف اندوز ہو نا چاہتا ہے لہذا اسٹیبلشمنٹ کے تھلے لگ کر رہنا اس
کی مجبوری ہو تی ہے۔ایک فون کال سارے منظر نامہ کو بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ سب
ادھر دیکھ رہے ہیں وہ جدھر دیکھ رہے ہیں والی ایسی سیریل منظرِ عام پر آچکی
ہے جس میں پارٹی کا سربراہ بغیر کسی ریاستی عہدے کے رہ جاتا ہے اور اس کا
چھوٹا بھائی وزیر ِاعظم کی مسند سنبھال لیتا ہے۔گھر سے بغا وت ہو جاتی
ہے۔بھائی بھائی کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیتا ہے ۔میاں محمد نواز شریف ابھی
تک گم سم ہیں کہ ان کے ساتھ یہ سب کیا ہو گیا ہے؟ ووٹ میرا ،پارٹی میری
لیکن وزیرِ اعظم میری بجائے کوئی دوسرا بن چکا ہے۔ایک خاموش جنگ ہے جو کہ
جاری ہے دیکھئے اس کا انجام کیا ہو تا ہے؟آصف علی زرداری ایوانِ صدر میں
بڑا پر سکون بیٹھا ہوا ہے لیکن کسی کو کوئی پتہ نہیں کہ وبال کا لمحہ کب
نازل ہو جائے۔اپنے مشن کی تکمیل کی خاطر (فارم ۴۷) کا علان کیا جاتا ہے ۔چند
ہزار ووٹ لینے وا لالاکھوں ووٹوں کا حقدار قرار پاتا ہے۔آج کل عدالتوں میں
یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔کبھی نیا صدارتی آرڈیننس لاگو کر کے ریٹائر
ڈججز کی الیکشن ٹربیونل میں تعیناتی کی جا تی ہے تا کہ من پسند فیصلے حاصل
کئے جا سکیں۔اسلام آباد کے تین حلقے اور خوا جہ آصف کے سیالکوٹ والے حلقے
کے فیصلے کا جلدی امکان تھا لیکن نئے صدارتی آرڈیننس نے سارا کھیل بگا ڑدیا
ہے۔اب یہ سارے مقدمات کہاں جائیں گے ؟ کیا ریٹائرڈ ججز ہی انھیں سنیں گے یا
پھر اس آرڈیننس کو طاقِ نسیاں کر دیا جائے گا؟وکلاء اپنی جنگ لڑ رہے
ہیں،سیاسی ورکرز اپنا پریشر ڈال رہے ہیں،صحا فی اپنی زور آزمائی میں مشغول
ہین لیکن عدالتوں سے جلدانصاف کی راہیں مزید مسدود ہو تی جا رہی ہیں۔سوشل
میڈیا اپنی طاقت کا بھر پور استعمال کر رہا ہے لیکن مطلوبہ نتائج کا حصول
مشکل سے مشکل تر ہو تا جا رہا ہے۔کسی کو تو اس بات کا قلق ہونا چائیے کہ وہ
جو جیل کی اذیتوں کو اپنے سینے پر جھیل رہا ہے ،وہ جو عوامی فخر کا خون
نہیں ہونے دے رہا اوروہ جو جمہور کی جنگ کو اپنا مقصدِ حیات بنائے ہوئے ہے
اس کی جلد رہائی کی تدبیر انتہائی ضروری ہے؟اتنی شدید گرمی میں جیل کی
کوٹھریاں کیا اس کے شیانِ شان ہیں۔ ؟ نہیں بالکل نہیں ۔اسے اپنے عوام کے
درمیان ہونا چائیے تا کہ وہ جمہور کے لئے اپنی خدا داد صلاحیتوں سے کوئی
انقلاب پیدا کر سکے۔عوام کی محبت سے منتخب قائدین ہی مشکل فیصلے کرتے
ہیں۔کٹھ پتلیا ں تو بس حکم کی بجا آوری کا فن جانتی ہیں لہذا ان سے بڑے
فیصلوں کی امید عبث ہو تی ہے۔جب تک میرٹ پر فیصلے نہیں ہو ں گے کچھ بھی
سیدھا نہیں ہو گا۔بڑے لیڈر کا یہی تو کمال ہو تاہے کہ جمہور اس پر اعتماد
کرتے ہیں اور اپنی پسندیدگی سے اس کی قوتِ فیصلہ کو قوت عطا کرتے
ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل جاتا ہے ۔خاک میں لتھڑے ہوئے آسمان کی
بلندیوں کو چھونے لگ جاتے ہیں۔قوم کے تن ِ مردہ میں بجلیاں دوڑنے لگ جاتی
ہیں اور سچائی کا تناور درخت دنیا بھر میں عروج و عظمت کی گھنی چھا ؤں سے
انسانیت کے لئے وجہِ فخرو ناز بن جاتا ہے۔،۔
|