کمزور سرکار کا مضبوط نہیں مجبور بجٹ ؟

دس سال حکومت کرنے کے بعد ایک مجبور سرکار کا کمزورسامنے آیا ؟ اسی لیے انتخابی نتائج کے بعدجس طرح ہارنے کے باوجود حزب اختلاف جشن کا منارہا تھا اسی طرح بجٹ کو دیکھ کر اپوزیشن اپنی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے۔ یقین نہ آتا ہوتونو مرتبہ بجٹ پیش کرکے ریکارڈ بنانے والےوزیر خزانہ پی چدمبرم کا تبصرہ دیکھیں "مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ معزز وزیر خزانہ نے انتخابی نتائج کے بعد کانگریس کے منشور(لوک سبھا) 2024 کو پڑھا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے کانگریس کے منشور کے صفحہ 30 پر بیان کردہ روزگار سے منسلک ترغیب کو عملی طور پر اپنا لیا ہے۔ "انہوں نے کانگریس کے منشور میں درج اپرنٹس شپ اسکیم کو نافذ کرنے پر بھی خوشی کا اظہار کیا ۔ اسی سابق چدمبرم نے مرکزی حکومت کے 22-2021 بجٹ کی بابت کہا تھا کہ ’’یہ امیروں کا، امیروں کے لیے، امیروں کے ذریعہ لایا گیا بجٹ ہے۔‘‘
چدمبرم نے الزام لگایا تھا کہ مرکزی حکومت نے بجٹ میں غریبوں، بے روزگاروں اور ایم ایس ایم ای سیکٹر کو پوری طرح سے نظرانداز کر دیا ہے۔ راجیہ سبھا کے اندر انھوں نے کہا تھا کہ ’’سب سے مستحق طبقات یعنی غریب، کسان، مہاجر مزدور، ایم ایس ایم ای سیکٹر، متوسط طبقہ اور بے روزگار۔‘‘ کو ان کی قسمت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ملک کی 73 فیصد وسائل کا کنٹرول کرنے والے ایک فیصد لوگوں پر تنقید کرنے بعد غریبوں کے ہاتھ میں پیسہ اور مفت راشن پہنچانے کا مطالبہ کیا تھا مگر اب کہہ رہے ہیں ، "کاش ایف ایم نے کانگریس کے منشور میں کچھ اور باتیں بھی نقل کی ہوتی۔ میں جلد ہی رہ جانے والی باتوں کی فہرست دوں گا‘‘۔ اس طرح بجٹ کے بعد جہاں کانگریس بغلیں بجارہی ہے اور وہیں مودی بھگت رو رہے ہیں کیونکہ اگر یہی بجٹ پچھلے سال پیش کردیا جاتا تو انتخابی نتائج کے بعد ایسا برا حال نہیں ہوتالیکن مثل مشہور ہے:
آچھے دن پاچھے گئے پَر سے کِیا نَہ ہِیت
اَب پچَھتائے کیا ہوت جَب چِڑیاں چگ گَئِیں کھیت

نریندر مودی جیسے خود پسند وزیر اعظم سے یہ توقع تو ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اعتراف کرلیں گے ’جی ہاں ٹھوکر لگی تو عقل ٹھکانے آئی ‘ مگر انہوں نے یہ ضرور کہا کہ ، ”میں اس اہم بجٹ کے لیے تمام ہم وطنوں کو مبارکباد دیتا ہوں جو ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جائے گا‘‘۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دینے کے بعدمودی بولے یہ بجٹ معاشرے کے ہر طبقے کو تقویت دینے والا ہے۔ یہ دیہاتیوں ، غریبوں اور کسانوں کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کردے گا۔انہوں نے دعویٰ کیا پچھلے 10 برسوں میں 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں۔ یہ بجٹ نو متوسط ​​طبقے کو بااختیار بنانے کے تسلسل کا بجٹ ہے۔ یہ ایک ایسا بجٹ ہے جو نوجوانوں کو بے شمار مواقع فراہم کرے گا۔مودی نے بجٹ کے ذریعہ تعلیم اور ہنر مندی کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا وعدہ کرکے متوسط ​​طبقے کو نئی طاقت کا ضامن بتایا۔ ان کے مطابق بجٹ میں قبائلی سماج، دلتوں اور پسماندہ لوگوں کو بااختیار بنانے کا مضبوط منصوبے ہیں ۔مودی نے دعویٰ کیا کہ بجٹ سے خواتین کی معاشی شراکت کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔

مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی میں شرکت کرنے والے وزیر اعظم اپنے چہیتے سرمایہ داروں کو یکسر بھول کر کہنے لگے کہ یہ بجٹ چھوٹے تاجروں، اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایم ایس ایم ای) کو ترقی کا ایک نئی راہیں فراہم کرے گا۔ اس تبصرے کو پڑھتے وقت ایسا لگ رہا تھا کہ راہل گاندھی کی روح ان کے اندر حلول کرکےان سے کہلوا رہی ہے کہ : "روزگار اور خود کفالت کے بے مثال مواقع پیدا کرنا حکومت کی شناخت رہی ہے۔ ‘‘یہ کس حکومت کا تشخص رہا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ وزیر اعظم کے مطابق اس بجٹ میں درج ایمپلائمنٹ لنک انسینٹیو اسکیم سے ملک میں کروڑوں نئی ​​ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ اس کے تحت حکومت زندگی میں پہلی نوکری پانے والے نوجوانوں کی پہلی تنخواہ دے گی۔کیوں دے گی ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ مہارت میں بہتری اور اعلیٰ تعلیم کے لیے تعاون سے ایک کروڑ نوجوانوں کوانٹرن شپ اسکیم کا فائدہ ملے گا ۔ اس کے ذریعہ دیہاتی اور غریب نوجوانوں کو بڑی کمپنیوں میں کام ملے گا ۔ وزیر اعظم کے یہ لچھے دار جملے مونگیری لال کے حسین سپنے لگتے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی اس عظیم قلابازی کے باوجود حزب اختلاف نے عام بجٹ 2024 کو مایوس کن قرار دیا۔ کانگریس کو شکایت ہے کہ اس میں اہم مسائل غائب ہیں ۔ ششی تھرور نے ملک کی دیگر ریاستوں کو نظر انداز کرکے بہار اور آندھرا کو سیاسی وجوہات کی بنا پر مطمئن کرنے کاالزام لگایا ۔ اتفاق سے نظر انداز ہونے والوں میں بی جے پی کا گڑھ گجرات ، ایم پی، ہماچل پردیش ، اتراکھنڈ اور اڑیسہ جیسی ریاستیں شامل ہیں جن کے سبب بی جے پی 240تک پہنچ سکی ۔ ان وفاداروں کے ساتھ بی جے پی نے وہی سلوک کیا جو انڈیا محاذ کی جماعتیں مسلمانوں کے ساتھ کرتی ہیں ۔ بجٹ کے حوالے سے راہل گاندھی نے ایکس پر لکھا، ’’یہ کرسی بچاؤ بجٹ ہے، جس میں حلیفوں کو خوش کیا گیا ہے۔ اشرافیہ کو فوائد دئے گئے ہیں لیکن عام ہندوستانیوں کے لیے کوئی راحت نہیں ہے ۔ یہ بجٹ کانگریس کے انتخابی منشور اور سابقہ بجٹوں کی نقل ہے۔‘‘

یہ عجیب اتفاق ہے کہ موجودہ بجٹ کے حوالے سے کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے مودی حکومت پر ریوڈیاں بانٹنے کا الزام لگا دیا۔ ایک زمانے میں مودی یہی اعتراض کانگریس پر کیا کرتے تھے ۔ کھڑگے نے کہا، ’’مودی حکومت کا بجٹ اپنے اتحاد ی حلیفوں کو ٹھگنے کے لئے آدھی ادھوری ریوڑیاں بانٹ رہا ہے، تاکہ این ڈی اے بچا رہے۔ یہ ملک کی ترقی کا بجٹ نہیں بلکہ ’مودی حکومت بچاؤ‘ بجٹ ہے اور بی جے پی عوام کو دھوکہ دے رہی ہے۔‘کانگریسی صدر کے مطابق ، ’’10 سال بعد ان نوجوانوں کے لیے محدود اعلانات کیے گئے جنہیں سالانہ دو کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ کسانوں کے لیے صرف سطحی باتیں ہوئی ہیں، ڈیڑھ گنا ایم ایس پی اور آمدنی دوگنی کرنا انتخابی فراڈ نکلا! اس حکومت کا دیہی تنخواہوں میں اضافہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘ جے رام رمیش نے توجہ دلائی کہ 2021میں مردم شماری ہونی تھی لیکن ابھی تک نہیں کرائی گئی۔ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دس سال تک یہ مشق نہیں ہوئی اور اس بجٹ میں بھی مردم شماری کے لیے فنڈز کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے بروقت نہ ہونے سے 10-12 کروڑ لوگ نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے دائرہ سے باہر ہوجاتے ہیں۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس کو غریب مخالف، عوام دشمن، سیاسی طور پر متعصب بجٹ کہہ دیا۔ ان کے مطابق بجٹ میں بنگال کےلئے کچھ نہیں دے کر ریاست کی توہین کی گئی ہے اور لوگ اس کا جواب دیں گے۔ سماجوادی پارٹی کے اکھلیش یادو بولے "10 سالوں میں صرف بے روزگاری بڑھی ہے۔ حکومت خود کو بچانے کے لیے صرف بہار اور آندھرا پردیش کو خصوصی اسکیمیں دے رہی ہے۔ شیو سینا (یو بی ٹی) ایم پی پرینکا چترویدی نے کہا کہ اس بجٹ کا نام پی ایم سرکار بچاویوجنا ہونا چاہیے کیونکہ اگلے 5 سال تک حکومت بچانے کے لیے دوستوں کو خوش کرنے کے لیے خصوصی حیثیت دیئے بغیر فنڈنگ کی جارہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر بہار کو 47 ہزار کروڑ دینے کے بعد وہیں صنعتی کاریڈور بنے تو اتر پردیش اور جھارکھنڈ کے رائے دہندگان بی جے پی کو ووٹ کیوں دیں؟ آندھرا پردیش کو 15ہزار کروڈ مل جائیں تو تلنگانہ اور مہاراشٹر کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کامیاب کیسے ہو؟

دس سال قبل وزیر اعظم نے’بہت ہوئی مہنگائی کی مار اب کی بار مودی سرکار ‘ کا نعرہ لگا کر کہا تھا کہ ہر سال دو کروڈ نوکریاں دیں گے مگر جب اکثریت مل گئی تو انہیں جملہ کہہ کر اڑا دیا گیا۔ اب اکثریت سے محرومی کے بعد والے بجٹ میں اعلان کیا گیا کہ مہنگائی کنٹرول میں ہے حالانکہ یہ دعویٰ کھوکھلا ہے۔ اس بار غریبوں، خواتین، نوجوانوں اور کسانوں پر بجٹ مرکوز کرنے کی کم ازکم بات تو کی گئی ہے۔روزگار بڑھانے کے لیے 3 بڑی اسکیموں پر کام کرنے کا وعدہ کیا گیاہےاور اس کے لیےبجٹ میں 2 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں ۔طلباء کو 7.5 لاکھ روپے کا اسکل ماڈل قرض دینے کی بات بھی کی گئی ہے۔ملازمین کے لیے اضافی پی ایف کے ساتھ خواتین کو ترجیح دینے پر زور ہے۔ اس سال زراعت اور اس سے منسلک شعبوں کے لیے 1.52 لاکھ کروڑ روپئے کی فراہمی کی گئی ہےنیز مفت راشن کا نظام 5 سال تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیاہےمگر عنقریب جن صوبوں میں انتخابات ہونے والے ہیں وہاں کےبی جے پی کارکنان کوبجٹ سےجو امید تھی جو مایوسی میں بدل گئی۔ اگلے چار ماہ کے اندر صوبائی الیکشن میں بی جے پی کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ ویسے اس بجٹ میں بی جے پی کی کمزوری نے این ڈی اے کے شیر کو انڈیا کی بکری بنادیا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449973 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.