بگرام ایئربیس



افغانستان کی سیاست اور عالمی طاقتوں کی رسہ کشی ہمیشہ سے اس خطے کے لیے ایک ناسور بنی رہی ہے۔ اب ایک بار پھر اس پرانے کھیل نے شدت اختیار کر لی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان کہ امریکہ ہر حال میں بگرام ایئربیس واپس لے گا اور اگر یہ نہ ملا تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے، محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک بڑے منصوبے کی جھلک ہے۔ افغان حکومت نے اگرچہ فوری طور پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کبھی ممکن نہیں، لیکن جو لوگ تاریخ کو جانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب محض بیان بازی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ اپنی ضرورت کی چیز حاصل کر کے دکھائی ہے، چاہے وہ دباؤ کے ذریعے ہو یا کسی نئے معاہدے کے پردے میں۔

بگرام ایئربیس کی کہانی کوئی نئی نہیں۔ سوویت یونین کے زمانے سے لے کر امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ تک یہ اڈہ ہمیشہ بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں رہا۔ اس کی اہمیت صرف افغانستان تک محدود نہیں بلکہ اس کے گرد پھیلے ہوئے پورے خطے میں ہے۔ یہ اڈہ وسطی ایشیا، ایران، چین اور پاکستان کے بیچ ایک ایسا اسٹریٹیجک نکتہ ہے جہاں سے پورے خطے کی نبض پر ہاتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اسی لیے امریکہ کبھی بھی اس کو مکمل طور پر کھونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ طالبان چاہے جتنے دعوے کریں کہ وہ امریکہ کو دوبارہ یہ اڈہ نہیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کابل کی حکومت اس وقت شدید معاشی بحران، سفارتی تنہائی اور اندرونی کمزوریوں کا شکار ہے۔ ایسے میں کسی بڑے مالی پیکیج، کسی نرم دباؤ یا کسی نئی سازش کے نتیجے میں وہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔

پاکستان کے لیے اس صورتحال کے اثرات سب سے زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ہماری وزارتِ دفاع نے بھی حال ہی میں یہ کھل کر کہا کہ افغانستان اب ہمارے لیے ایک دشمن ملک ہے۔ یہ جملہ بلاوجہ نہیں کہا گیا۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کیا، طالبان کی واپسی میں بھی ہماری مدد سب سے نمایاں تھی۔ لیکن اس کے بدلے میں ہمیں شکرگزاری نہیں ملی بلکہ مسلسل الزام تراشی، سرحدی جھڑپیں اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ملیں۔ کابل کی موجودہ حکومت اسلام آباد کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنانے کے بجائے بھارت کی قربت میں رہنا پسند کرتی ہے۔ ایسے میں اگر امریکہ دوبارہ بگرام ایئربیس میں قدم جمانے میں کامیاب ہو گیا تو سب سے پہلے اس کا دباؤ پاکستان پر آئے گا۔ بھارت اور امریکہ مل کر افغانستان کی سرزمین کو اسلام آباد کے خلاف استعمال کریں گے اور اس کے لیے میدان بگرام ہی ہوگا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ کا اصل مقصد صرف افغانستان میں فوجی موجودگی قائم کرنا نہیں بلکہ اس خطے میں ایک بار پھر نئی صف بندی کرنا ہے۔ واشنگٹن اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا اب یک قطبی نہیں رہی۔ چین ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے، روس دوبارہ کھڑا ہو رہا ہے، سعودی عرب اپنی پرانی پالیسیوں سے نکل کر نئے اتحاد بنانے کی طرف جا رہا ہے، پاکستان بھی اپنے معاشی اور سفارتی تعلقات میں نئی سمت تلاش کر رہا ہے۔ ان سب تبدیلیوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو فکر مند کر دیا ہے۔ اسی لیے بگرام ایئربیس کی واپسی محض ایک فوجی اڈے کا سوال نہیں بلکہ ایک بڑے عالمی کھیل کی بنیاد ہے۔

یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اگر پاکستان، چین، سعودی عرب اور روس جیسے ملک ایک مضبوط اتحاد میں اکٹھے ہو گئے تو یہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہوگا۔ ایسے اتحاد کو توڑنے کے لیے سب سے آسان راستہ یہی ہے کہ افغانستان کو دوبارہ میدان جنگ بنایا جائے۔ طالبان کو دباؤ میں لا کر، کابل حکومت کو لالچ دے کر اور بھارت کو آگے بڑھا کر امریکہ یہ کھیل کھیل سکتا ہے۔ اسرائیل بھی اس منصوبے میں بالواسطہ طور پر شامل ہوگا کیونکہ تل ابیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہمیشہ ایک متحد مسلم دنیا رہی ہے۔ اگر پاکستان اور سعودی عرب قریب آتے ہیں اور روس و چین ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو اسرائیل کی خطے میں حکمت عملی بری طرح متاثر ہوگی۔

یہاں ایران اور چین کو بھی الگ نہیں رکھا جا سکتا۔ بگرام ایئربیس اگر دوبارہ امریکہ کے کنٹرول میں آتا ہے تو چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں علیحدگی پسند تحریکوں کو نئی ہوا ملے گی۔ امریکہ کے پاس ایک ایسا پلیٹ فارم ہوگا جہاں سے وہ چین کے اندرونی مسائل کو بھڑکا سکے۔ ایران بھی اسی دائرے میں آئے گا۔ تہران اور واشنگٹن کی دشمنی کسی سے چھپی نہیں۔ اگر امریکہ بگرام میں قدم جماتا ہے تو ایرانی سرحدی علاقوں اور اس کی تیل کی تنصیبات ہمیشہ خطرے کی زد میں رہیں گی۔ گویا ایک اڈہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے توازن کو بدل سکتا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ سب کچھ اس وقت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ہم پہلے ہی اندرونی طور پر کمزور ہیں۔ ہماری معیشت بحران میں ہے، سیاست عدم استحکام کا شکار ہے اور خارجہ پالیسی دباؤ میں ہے۔ ایسے میں اگر افغانستان کے راستے امریکہ اور بھارت کو ہمارے خلاف ایک نیا محاذ ملتا ہے تو یہ ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اسی لیے یہ خدشہ درست ہے کہ امریکہ محض بیانات پر نہیں رکے گا، وہ کسی نہ کسی شکل میں بگرام واپس حاصل کرے گا۔ چاہے طالبان کے ساتھ خفیہ معاہدہ کر کے، چاہے کابل پر دباؤ ڈال کر یا چاہے کسی نئے عسکری بہانے کے ذریعے۔

خطے کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ افغانستان کبھی بھی خودمختار فیصلوں کے ساتھ نہیں چل سکا۔ وہ ہمیشہ بڑی طاقتوں کا میدان جنگ رہا ہے۔ سوویت یونین، امریکہ، نیٹو سب نے یہاں کھیل کھیلا اور اب ایک نیا کھیل شروع ہونے والا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار مقابلہ زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ میدان میں صرف امریکہ نہیں بلکہ چین، روس، ایران، پاکستان اور سعودی عرب جیسے کھلاڑی بھی ہیں۔ یہ سب اپنی اپنی پوزیشن مضبوط کر رہے ہیں اور امریکہ نہیں چاہتا کہ یہ اتحاد اس کے خلاف کامیاب ہو۔

میرا ذاتی تجزیہ یہی ہے کہ ٹرمپ کا بیان محض سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک عملی منصوبے کا اعلان ہے۔ امریکہ بگرام کو واپس لے گا اور اگر اسے روکا گیا تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے تصادم پیدا کرے گا۔ طالبان کے سخت جملے وقتی ہیں، لیکن معاشی اور سفارتی دباؤ کے آگے ان کی مزاحمت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ پاکستان کو اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارے تعلقات افغانستان کے ساتھ کبھی بھی مستقل طور پر خوشگوار نہیں رہے۔ اگر آج ہماری وزارت دفاع یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ افغانستان دشمن ملک ہے تو یہ کسی جذباتی کیفیت کا نتیجہ نہیں بلکہ زمینی حقیقت کا اظہار ہے۔

آنے والا وقت بہت نازک ہے۔ اگر پاکستان نے بروقت درست حکمت عملی اختیار نہ کی تو بگرام ایئربیس ایک بار پھر ہمارے لیے دردِ سر بن سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم نے چین، روس اور سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کیا اور ایران کے ساتھ فاصلے کم کیے تو شاید ہم اس نئے عالمی کھیل کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ورنہ یہ اڈہ صرف افغانستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے ایک مستقل خطرہ ثابت ہوگا۔

 

Wajid aziz
About the Author: Wajid aziz Read More Articles by Wajid aziz: 10 Articles with 11668 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.