پاک سعودی دفاعی معاہدہ

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا نیا دفاعی
معاہدہ محض دو ملکوں کی باہمی قربت کا نام نہیں، بلکہ یہ اس سوچ کی نمائندگی کرتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا اپنی بقا، سلامتی اور ترقی کے لیے متحد ہو۔ یہ معاہدہ اس خطے میں ایک نئے طاقتور بلاک کی بنیاد بن سکتا ہے جس کی جھلک تاریخ میں بھی ملتی ہے اور جس کی ضرورت آج کے حالات میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ غیر معمولی رہے ہیں۔ سعودی عرب نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا، اور پاکستان نے بھی ہمیشہ سعودی عرب کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھا۔ جب 1969 میں جنوبی یمن کی طرف سے سعودی عرب کی سرحد پر حملہ ہوا تو پاکستانی فضائیہ نے فوری طور پر سعودی عرب کا دفاع کیا۔ جب 1990 میں عراق نے کویت پر چڑھائی کی اور سعودی عرب کو خطرہ لاحق ہوا، تب بھی پاکستانی فوجی سعودی سرزمین پر موجود تھے۔ اس تاریخی پس منظر کو دیکھیں تو یہ واضح ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان رشتہ محض رسمی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضرورت اور اعتماد پر کھڑا ہے۔

نئے دفاعی معاہدے نے اس تعلق کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ اب یہ صرف فوجی تربیت یا محدود دفاعی تعاون تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس میں دفاعی ٹیکنالوجی، ہتھیاروں کی تیاری، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور انسداد دہشت گردی جیسے شعبے شامل ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ایک ہے، ایٹمی قوت ہے، اور خود انحصاری پر مبنی دفاعی صنعت ہے۔ سعودی عرب کے پاس بے شمار مالی وسائل ہیں، دنیا کے سب سے بڑے تیل ذخائر ہیں، اور اسلامی دنیا میں قیادت کا دعویٰ ہے۔ اگر یہ دونوں طاقتیں ملتی ہیں تو یہ امت مسلمہ کے لیے ایک نئی قوت بن سکتی ہیں۔

پاکستان کو اس معاہدے سے بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔ سب سے پہلے دفاعی صنعت کے دروازے کھلیں گے۔ جے ایف 17 تھنڈر طیارے، شاہین اور غوری میزائل سسٹم، جدید ڈرون ٹیکنالوجی—یہ سب سعودی عرب کے لیے پرکشش ہیں۔ اگر سعودی عرب ان کی خریداری یا مشترکہ تیاری پر آمادہ ہوتا ہے تو پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ پاکستان کے انجینئرز اور سائنسدانوں کو عالمی سطح پر کام کرنے کے نئے مواقع ملیں گے۔ یہ صرف ایک فوجی معاہدہ نہیں بلکہ ایک صنعتی اور تکنیکی شراکت داری بھی بن سکتا ہے۔

سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی یہ معاہدہ پاکستان کی پوزیشن کو مضبوط کرے گا۔ سعودی عرب اسلامی دنیا میں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اگر وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی آواز اور بھی طاقتور ہوگی۔ بھارت کے لیے یہ ایک دھچکا ہوگا کیونکہ بھارت برسوں سے سعودی عرب کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اگر سعودی عرب دفاعی معاملات میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے تو نئی دہلی کے لیے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنا مشکل ہوگا۔

اسی طرح اسرائیل بھی اس معاہدے کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے گا۔ اسرائیل جانتا ہے کہ پاکستان واحد مسلم ملک ہے جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ اگر یہ طاقت سعودی عرب کے ساتھ مل جاتی ہے تو مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے۔ امریکہ بھی اس صورتحال کو محتاط نظر سے دیکھے گا۔ اگرچہ امریکہ سعودی عرب کا اتحادی ہے لیکن وہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا اتحاد اس حد تک مضبوط ہو جائے کہ وہ واشنگٹن کے اثر سے آزاد ہو جائے۔

لیکن سب سے بڑا فائدہ امتِ مسلمہ کو ہو سکتا ہے۔ مسلم دنیا اس وقت منتشر ہے۔ کوئی ملک سیاسی انتشار کا شکار ہے، کوئی معاشی بحران میں ڈوبا ہوا ہے، اور کوئی بیرونی طاقتوں کے دباؤ میں ہے۔ اگر پاکستان اور سعودی عرب اپنی صلاحیتوں کو ملا کر چلیں تو یہ امت کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس فوجی طاقت ہے، سعودی عرب کے پاس مالی طاقت ہے، ترکی کے پاس صنعتی صلاحیت ہے، قطر اور ملائیشیا جیسے ممالک کے پاس سرمایہ کاری کی سکت ہے۔ اگر یہ سب ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں تو دنیا کی ایک ارب سے زیادہ مسلمان آبادی کو ایک نیا مستقبل مل سکتا ہے۔

یہ معاہدہ صرف عسکری پہلو تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اگر پاکستان اور سعودی عرب چاہیں تو تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور معیشت میں بھی باہمی تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔ سعودی عرب کی ’’ویژن 2030‘‘ پالیسی کا مقصد تیل پر انحصار کم کرنا ہے۔ پاکستان اس ویژن میں ایک اہم شراکت دار بن سکتا ہے۔ پاکستانی افرادی قوت سعودی عرب میں پہلے ہی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر یہ تعاون جدید ٹیکنالوجی اور صنعتی شعبوں تک بڑھ جائے تو یہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک معاشی انقلاب بن سکتا ہے۔

یقیناً اس معاہدے کے چیلنجز بھی ہیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنا پاکستان کے لیے ایک امتحان ہوگا۔ لیکن اگر پاکستان غیر جانبداری اور حکمت سے کام لے تو وہ سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھ سکتا ہے۔ یہی وہ کردار ہے جو پاکستان کو ایک ’’Bridge Builder‘‘ بنا سکتا ہے—ایسا ملک جو اسلامی دنیا میں اتحاد اور مصالحت کا ذریعہ ہو۔

یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا یہ معاہدہ مستقبل کی تاریخ رقم کر سکتا ہے۔ اگر اسے صرف فوجی تعاون تک محدود رکھا گیا تو یہ ایک اور عام معاہدہ ہوگا۔ لیکن اگر اسے امتِ مسلمہ کی اجتماعی طاقت میں بدل دیا گیا تو یہ وہ قدم ہوگا جو صدیوں بعد مسلمانوں کو دوبارہ عالمی سیاست میں ایک مضبوط بلاک بنا سکتا ہے۔

پاکستان کے عوام کو بھی اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ان کا ملک صرف ایک ریاست نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی امید ہے۔ یہ دفاعی معاہدہ صرف آج کے لیے نہیں بلکہ آنے والے کل کے لیے ہے۔ آنے والے وقت میں جب دنیا نئی طاقتوں کی طرف دیکھے گی تو شاید پاکستان اور سعودی عرب کا یہ اتحاد مسلمانوں کے لیے وہی کردار ادا کرے جو ماضی میں خلافتِ عباسیہ یا خلافتِ عثمانیہ کیا کرتی تھی۔

 

Wajid aziz
About the Author: Wajid aziz Read More Articles by Wajid aziz: 9 Articles with 8495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.