چین اور پائیدار ترقیاتی اہداف کاحصول

چین اور پائیدار ترقیاتی اہداف کاحصول
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اس وقت تک ترقی کے حقیقی ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے جب تک عالمی سطح پر عوامی خوشحالی یقینی نہ ہو۔ مختصراً یہ کہ اگر آج چند ممالک ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں تو ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی مواقع کا تبادلہ کمزور ممالک کے ساتھ کریں، ورنہ انہیں خود بھی مسلسل چیلنجز کا سامنا رہے گا۔

اس سلسلے میں سب سے اہم بات باہمی رویوں میں کشادگی اور کھلے پن کو فروغ دینا ہے۔ یہی وہ بنیادی نظریہ ہے جو کسی بھی ملک یا خطے کو پیچھے چھوڑے بغیر پائیدار ترقی کے حصول کا ضامن بن سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے عالمی طاقتوں بالخصوص معاشی لحاظ سے مضبوط ممالک کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔

چین انہی بڑی معاشی قوتوں میں شامل ہے جو عالمی معیشت کی رواں دواں کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران چین نے نہ صرف اعلیٰ معیار کے کھلے پن کی پالیسی پر زور دیا ہے، بلکہ اپنی عملی اقدامات کے ذریعے عالمی معیشت کو بھی مستفید ہونے کا موقع دیا ہے۔ اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے چین نےحال ہی میں اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ کھلے پن کے وسیع تر ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے چینی اسلوب کی جدیدیت کے راستے پر گامزن رہے گا، اعلیٰ معیار کی کھلی معیشت کے لیے نئے اقدامات اپنائے گا، اور اپنی ترقی کے مواقع کو پوری دنیا کے ساتھ مسلسل بانٹتا رہے گا۔

چین کی ترقی بالخصوص اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف 2030 کی جانب پیش قدمی بھی ہمہ گیر ترقی کے حوالے سے ملک کے عزائم کی مظہر ہے۔ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر جاری ایک تازہ رپورٹ کے مطابق چین نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے حوالے سے قابل ذکر پیش رفت کی ہے اور 2030ء کے 60.5 فیصد ہدف پورے کر لیے ہیں یا اس کے قریب پہنچ چکا ہے۔

"ایس ڈی جیز کی حمایت میں بگ ارتھ ڈیٹا: پائیدار ترقیاتی اہداف کی ایک دہائی کے لیے خصوصی رپورٹ" کے عنوان سے جاری اس رپورٹ میں چین کی صاف توانائی، جنگلات اور عوامی خدمات میں پیشرفت کو سراہا گیا ہے، جبکہ خبردار کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر ایس ڈی جیز کے حصول کی کوششیں ابھی مطلوبہ راستے پر نہیں ہیں۔

پائیدار ترقیاتی اہداف کے لیے بگ ڈیٹا کے بین الاقوامی تحقیقی مرکز (سی بی اے ایس) اور 40 سے زائد ساتھی اداروں کی جانب سے تیار کردہ یہ تحقیق سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ، زمینی مشاہدات اور بین الاقوامی ڈیٹا سیٹس کا استعمال کرتے ہوئے 2015 سے 2024 تک تمام 17 ایس ڈی جیز میں چین کی کارکردگی کا جائزہ لیتی ہے۔

چین نے 233 میں سے 141 اشاریوں کو پورا کر لیا ہے یا اس کے قریب پہنچ گیا ہے۔ ہوا اور شمسی توانائی کی تنصیبات کے حوالے سے ملک دنیا میں سب سے آگے ہے، جنگلات کا احاطہ 25 فیصد سے تجاوز کر گیا ہے، اور 90 فیصد سے زائد شہری باشندوں کے پاس آسان عوامی نقل و حمل تک رسائی ہے۔

چین دنیا کی کل ہوا سے چلنے والی بجلی کی صلاحیت میں 39 فیصد حصہ رکھتا ہے، جبکہ گزشتہ سال اس میں 68.21 فیصد نئی صلاحیت کا اضافہ کیا گیا ہے۔ملک کی تمام صوبائی سطح کی حکومتوں نے آفات میں کمی کے اہداف مقررہ مدت سے پہلے ہی اپنا لیے ہیں۔

تاہم عالمی سطح پر تصویر ابتر ہے۔ زیر نگرانی 59 اشاریوں میں سے صرف 16.9 فیصد 2030ء کے ہدف کے مطابق ہیں، جبکہ 27 میں سست رفتاری ہے، پانچ جامد ہیں اور 17 میں تنزلی ہوئی ہے۔ بھوک مسلسل برقرار ہے، صاف توانائی کی مالیات میں کمی آرہی ہے اور زمینی انحطاط میں تیزی آئی ہے، جو 2015 اور 2022 کے درمیان 3.38 فیصد بڑھی اور انڈونیشیا کے رقبے سے 2.6 گنا زیادہ ہے۔ صحت کے خطرات بڑھ رہے ہیں، گزشتہ دہائی کے دوران گلوبل ساؤتھ کے بڑے شہروں میں گرمی سے متعلقہ اموات 0.29 فیصد سے بڑھ کر 0.36 فیصد ہو گئی ہیں۔

چونکہ2030 ء تک بدستور پانچ سال باقی ہیں،اسی باعث رپورٹ میں مضبوط ڈیٹا انفراسٹرکچر کی تیاری، نگرانی اور پالیسی تخمینہ کے درمیان قریبی تعلقات، اور موسمیات، توانائی کی منتقلی اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ جیسے شعبوں میں اہدافی گورننس پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق قومی ایس ڈی جی انڈیکیٹر سسٹم قائم کرنے، اور 2030ء کے بعد کے ایجنڈے کی حمایت کے لیے بگ ڈیٹا سے چلنے والے نگرانی اور تشخیصی طریقوں کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1686 Articles with 969223 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More