اپنا بنایا قانون، پرایا لگنے لگا — تحریک انصاف کی نئی سیاسی جادوگری
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
تحریک انصاف ایک عجیب مزاج کی جماعت ہے۔ اپنے دور حکومت میں جو کام وہ پورے یقین سے کرتی رہی، آج انہی کاموں کو ایسے دیکھتی ہے جیسے کسی اور نے ان پر زبردستی کروایا ہو۔ یوں لگتا ہے جیسے پارٹی کی یادداشت پر کبھی کبھار دھند اتر آتی ہے، اور پھر وہی کام جو کل تک "اصلاحات" کہلاتے تھے، آج "ناجائز اقدام" بن جاتے ہیں۔
بات ہم کسی چھوٹے موٹے معاملے کی نہیں کر رہے۔ یہاں تو معاملہ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن 2019 کا ہے۔ وہی قانون جسے وفاق میں عمران خان، خیبر پختونخوا میں محمود خان اور گورنر شپ میں شاہ فرمان نے نہ صرف درست قرار دیا بلکہ پورے انتظامی اعتماد سے نافذ کیا۔ اس وقت پوری پارٹی اسے عوامی سلامتی، قومی ضرورت اور ریاستی مو¿قف کے مطابق ایک مثالی قدم کے طور پر پیش کر رہی تھی۔آج، جب وہ خود اقتدار سے باہر ہیں، وہی قانون اچانک سے "غلط"، "غیر ضروری" اور "ظالمانہ" ہو گیا ہے۔ اس یو ٹرن کو اگر سیاسی ریاضت کہا جائے تو بھی یہ کم ہے۔ یہ تو باقاعدہ ایک ورزش ہے، جس کے بعد جماعت کے کندھے، گھٹنے اور کمزور دل والے بیانیے سب اکٹھے ہل جاتے ہیں۔
اب آئیے ذرا ماضی کے اس منظر کی طرف۔2019 میں تحریک انصاف کی حکومت نے بڑے زور و شور سے بتایا کہ قبائلی علاقوں کی صورتحال اس قدر پیچیدہ ہے کہ غیر معمولی اقدامات کیے بغیر امن قائم نہیں ہوگا۔ "ایکشن ان ایڈ آف سول پاور" کو اسی دلیل پر قبول کیا گیا۔ قانونی ماہرین نے اعتراض کیے، انسانی حقوق کے اداروں نے تنقید کی، مگر حکومت کے چہرے پر سکون تھا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ غلط ہے۔ کوئی رہنما اس فیصلے کو ناجائز کہنے کی جرات بھی نہیں کرتا تھا۔
مگر آج وہی سب رہنما کھڑے ہو کر یہی کہتے ہیں کہ یہ قانون غیر آئینی تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا قانون میں کوئی ایسی چیز تھی جو حکومت کے جاتے ہی ناجائز ہو گئی؟یا پھر ناجائز صرف وہی ہوتا ہے جو پارٹی کے مفاد کے خلاف جائے؟ایسے فیصلوں میں اخلاقی اصولوں کا کیا مقام رہ جاتا ہے؟ سیاست میں یو ٹرن کوئی بری چیز نہیں، بشرطیکہ دلیل مضبوط ہو۔ مگر یہاں دلیل کمزور نہیں، بلکہ اندر سے کھوکھلی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنی ہی لکھی ہوئی کتاب پر آگے چل کر پابندی لگائے اور کہے کہ "مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا میں نے کیا لکھا ہے"۔
آج کل تحریک انصاف جس شدت سے اس قانون کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید انہیں 2019 کی ویڈیوز، بیانات اور وہ سارے "ہم درست راستے پر ہیں" والے جملے نظر ہی نہیں آ رہے۔ یا شاید سیاست میں یادداشت کا کمزور ہونا کوئی خامی نہیں بلکہ ایک مہارت سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ مہارت ہے جسے عوام "دھوکہ" کہتے ہیں اور سیاست دان اسے "بیانیہ" کہتے ہیں۔
موجودہ بیان بازی کے بعد عام آدمی یہ سوچ رہا ہے کہ اگر 2019 میں عوامی فائدے کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا تو آج اسے عوام دشمنی کیوں کہا جا رہا ہے؟کیا اس وقت عوام بدل گئے تھے؟ یا پھر آج پارٹی کی ضرورت بدل گئی ہے؟یہ سوال اہم ہے، کیونکہ سیاسی فائدے کے لیے بیانیہ تبدیل کرنا ایک حد تک قابل فہم ہے، مگر اپنا بنایا ہوا قانون ناجائز کہہ کر عوامی ہمدردی حاصل کرنا ایک طرح کا مذاق لگتا ہے۔
جو جماعت کل تک اپنے اقدامات کے دفاع میں اینٹ سے اینٹ بجا رہی تھی، آج وہی اینٹیں اٹھا کر اپنے ماضی پر پھینک رہی ہے۔ یہ حرکت اس کھلاڑی جیسی ہے جو میچ ہارنے کے بعد امپائر کو ہی اپنی ٹیم کا سابقہ کوچ قرار دے دے اور کہے کہ "یہ اس کا سکھایا ہوا غلط فیصلہ تھا"۔
سیاست میں یو ٹرن ہوتے رہتے ہیں، مگر ایسے یو ٹرن کم دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں اپنی ہی بنائی چیز آج زہر معلوم ہونے لگے۔ یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ پارٹی کو شاید اس بات کا احساس ہے کہ عوام کے سامنے کوئی نیا بیانیہ موجود نہیں، اس لیے پرانے بیانیے سے ہی کھیل شروع کیا جائے، چاہے اس میں اپنی ہی پوزیشن کو نقصان کیوں نہ پہنچے۔ایک جماعت جس نے اپنے دور میں اس قانون کے ذریعے انتظامی طاقت بڑھائی، آج اس کا ہاتھ پکڑ کر عوام کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ "یہ سب غلط تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں"۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی باورچی سالن میں نمک خود ڈال کر پھر گاہک کو بتائے کہ سالن زیادہ نمکین ہے اور ذمہ دار بھی وہ نہیں ہے۔
یہ تضاد عوام کے ساتھ ایک کھیل ہے۔ عوام اس وقت سیاسی انتشار، معاشی مسائل اور بنیادی مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ ایسے میں یادداشت بدلنے والی سیاست عوامی اعتماد کو مزید کمزور کرتی ہے۔ اگر تحریک انصاف واقعی اس قانون کو غلط سمجھتی ہے، تو اس کا پہلا قدم عوام سے معافی ہے، پھر اپنی غلطی کا اعتراف، اور پھر یہ واضح کرنا کہ وہ اب اس طرز کی قانون سازی کی حمایت نہیں کرے گی۔ مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ یہاں صرف جذباتی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش ہے۔ پارٹی سمجھتی ہے کہ عوام کے سامنے مظلوم بن کر ایک نئی سیاسی ہمدردی پیدا کی جا سکتی ہے۔
لیکن عوام اب وہ نہیں رہی جو ہر بیانیہ بغیر سوال قبول کر لے۔وہ پوچھ رہی ہے کہ اگر 2019 میں قانون درست تھا تو آج غلط کیسے؟اور اگر آج غلط ہے تو 2019 میں اسے نافذ کیسے کیا گیا؟یہاں مزاح بھی ہے اور تلخی بھی۔ مزاح اس لیے کہ موقف اتنی تیزی سے تبدیل ہوا کہ سیاسی مبصرین کو بھی اپنی فائلیں دوبارہ ترتیب دینی پڑ گئیں۔ تلخی اس لیے کہ سیاست میں ایسی مثالیں عوام کے اعتماد کی بنیادیں ہلا دیتی ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما آج بھی ہر بیان میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ صحیح اور اصولی سیاست کے علمبردار ہیں۔ مگر اصولی سیاست اپنی غلطی مانگنے سے مضبوط ہوتی ہے، نہ کہ اپنی ہی پچھلی بات سے بھاگنے سے۔
یہ معاملہ صرف ایک قانون کا نہیں بلکہ سیاسی صداقت کا ہے۔ ایک ایسی صداقت جو اس وقت شدید امتحان میں ہے۔ اگر جماعت کو واقعی لگتا ہے کہ یہ قانون غلط تھا، تو واضح، کھری اور بغیر بہانوں کے بات کرے۔ لیکن اگر یہ سب صرف سیاسی فضا بنانے کے لیے ہے، تو پھر یہ وہی پرانا کھیل ہے جس میں عوام کو ایک بار پھر جذباتی نعروں کا ایندھن بنایا جا رہا ہے۔جو قانون آپ نے خود نافذ کیا ہو، اسے ناجائز کہنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ عوام کی یادداشت آپ کی طرح کمزور نہیں ہوتی۔ #tribal #belt #actionincivilpower #kpk #kp
|