صحافت کی بد حالی اور نئے صحافیوں مسائل

صحافت کی بد حالی اور نئے صحافیوں مسائل

تحریر: ارباز رضا بُھٹہ

کسی بھی ملک میں موجود میڈیا اس قوم کا آئینہ ہوتا ہے جو وہی شکل دیکھاتا ہے جس میں ملک چل رہا ہوتا ہے۔ میڈیا کا کام مسائل کی نشانداہی کرنا اور ان کو بہتر انداز میں حل کرنے کے لیے تجاویز فراہم کرنا ہے۔ اگر بات کی جائے پاکستانی میڈیا کی تو وہ روایتی میڈیا ہو یا ڈیجیٹل دونوں پلیٹ فارمز پر دن بدن بدلتی ہوئی صورتحال میڈیا کو اس کے مقاصد سے دور کرتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں میڈیا کی بد حالی کی سب سے بڑی وجہ یہاں موجود بڑے بڑے ذمینی خدا ہیں جن کے ہاتھ میں میڈیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا ہاؤسز بلیک منی کو وائیٹ منی کرنے کے اڈے بن چکے ہیں۔
جہاں دن رات بات سیاسی پارٹیوں کی ہو رہی ہے اور ایسے بہت کم چینل ہیں جو کہ اصل مسائل کی طرف توجہ رونما کرواتے ہیں۔ اگر بات کی جائے دنیا میں پاکستانی میڈیا کی رینکنگ کی تو ہم دنیا کے 180 ممالک میں 158 نمبر پر آتے ہیں۔ یہ میڈیا کی بد حالی اس لیے ہے کہ یہاں موجود صحافیوں کو اپنا کام کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ جو سسٹم کے مطابق خود کو گرگٹ کی طرح بدلتے رہتے ہیں وہ اس سسٹم پر براجمان رہتے ہیں اور اس سسٹم سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ جن کے ہاں ہوتے ہیں وہ بہتر انداز میں جانتے ہیں کہ کس کو کس حد تک پروٹوکول دینا ہے۔
جیسے میں نے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2025 کے پاکستان کے متعلق حقائق آپ کے سامنے رکھے ہیں وہ حقائق اور ڈیٹا اس جیسی تنظیمیں اس بنیاد پر اکھٹا کرتی ہیں کہ کتنے صحافیوں کو مختلف دباؤ سے اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا، کتنے لوگوں کو شدید دباؤ وغیرہ کا سامنا رہا مگر پاکستان میں یہ چیز آپ کو بھی بخوبی علم ہے اور مجھے بھی کہ اکثر و بیشتر ایسے واقعات صحافیوں کے ساتھ رونما ہوتے ہیں کہ وہ ان کو رپورٹ بھی نہیں کرتے اور چپ چاپ سہہ لیتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی رینکنگ میرے خیال میں اس سے بھی بد تر ہو گی۔
اب ان تمام حالات میں پاکستانی صحافیوں کے پاس کچھ آپشنز ہوتے ہیں کہ جن میں آزاد صحافت تو تقریباً ہی نہ ممکن ہے اور جو اس گھٹن زدہ ماحول میں کر رہے ہیں ان کو دونوں ہاتھوں سے سلام ہے۔ ہمارے ملک کی صحافت ایک مڈل کلاس صحافی کو چند آپشنز دیتی ہے جن میں سے ایک یہ کہ آپ کسی پارٹی کو باقاعدہ طور پر ترجمانی کے لیے میڈیا کا لبادہ اوڑھے جوائن کر لو۔ دوسرا یہ کہ آپ ان لوگوں کا ساتھ دو جو اس سیاست، صحافت، عدالت و تجارت کا اصل محور ہیں۔ مجھے یقین ہے آپ میری بات باقاعدہ طور پر سمجھ رہے ہوں اور تیسرا آپشن یہ ہے کہ آپ بھوک سے مریں، میڈیا ہاؤسز کے در و دیوار کے چکر لگائیں، اپنا ایک اچھا سا پرنٹر رکھ لیں اور اس پر سے اپنی سی وی کاپی کرتے رہیں اور در بدر بھٹکتے رہیں۔
اسی کے ساتھ ایک چوتھا آپشن بھی بڑا زبردست ہے وہ یہ کہ اپنی ایک علحیدہ صحافت کی دکان کھول لیں اور اگر قسمت اور آپ کی محنت نے آپ کا ساتھ دیا تو زبردست ورنہ ہزار دو ہزار ویوز لے کر صحافت کو برا بھلا کہیں۔ آج کل اگر دیکھا جائے تو زیادہ تر نوجوان صحافی اسی آخری آپشن کی جانب رواں دواں ہیں اور ویوز کے چکر میں اخلاقیات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ سامنے والا اگر کوئی زیادتی کا شکار مظلوم ہے تو اس پر کیا گزر رہی ہے اس نوجوان صحافی کو اس مظلوم کی آہوں اور سسکیوں میں ویوز اور ڈالرز دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں بد بخت ڈالرز کے چکروں میں ہمارا مین اسٹریم میڈیا بھی ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گیا ہے اور ایسے ایسے تھمب نیلز لگا ہے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ ہو۔
اب ان تمام حالات نے صحافت میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے اور میں صحافت کا طالب علم ہونے کے ناطے ان تمام اپنے سینئر صحافیوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو ان تمام حالات کے باوجود آزادی صحافت کا علم تھامے اور اس گرد و غبار سے اپنی عبا بچاہے، اس ملکِ پاکستان میں صحافت ایمانداری سے کر رہے ہیں۔ ان تمام حالات میں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالم کو کہیں کہ تو نے ظلم کیا ہے چاہے ان پر کیسسز بنائے جائیں، ان کی چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا جائے، چینلز سے نکالا جائے، یوٹیوب چینلز بلاک کر دیے جائیں یا پھر اکاؤنٹ اور شناختی کارڈز بند کر دیے جائیں۔
Twitter Handle: @ArbazReza01

 

Arbaz Raza Bhutta
About the Author: Arbaz Raza Bhutta Read More Articles by Arbaz Raza Bhutta: 22 Articles with 26211 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.