جب سیاست، روحانیت اور توہم پرستی نے ایک ہی اسٹیج پر ڈانس کرنا شروع کیا

پاکستان کی سیاست میں عجیب عجیب چکر چلتے رہتے ہیں، مگر جو کہانی بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی شادی کے گرد گھومتی ہے وہ اتنی قلابازیاں کھاتی ہے کہ اکانومسٹ والے بھی حیران بیٹھے تھے کہ سیاست میں کیا دیکھیں، تعویز دیکھیں، یا شادی کا "ہو جائے گا، ہو جائے گا" والا روحانی فارمولا۔

دی اکانومسٹ کی رپورٹ سامنے آئی اور یوں لگا جیسے کسی نے سیاسی نقش کھول دیا ہو۔ انہوں نے لکھا کہ بانی پی ٹی آئی کے انداز حکمرانی پر شادی کے بعد ایسے سوال اٹھے جیسے امتحان میں وہ سوال آ جائیں جو کتاب میں ہوں ہی نہ۔ اوون بینیٹ جونز نے جو کچھ لکھا اس نے یہ تاثر مضبوط کر دیا کہ جناب کے فیصلوں میں سیاست کم اور صوفی ازم زیادہ شامل تھا۔ کچھ لوگ اسے عقیدت کہتے رہے، کچھ اسے توہم پرستی اور کچھ بے چارے بس سر کھجاتے رہ گئے کہ یہ ملک چل رہا ہے یا روحانی مشاورت سے چلایا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بشریٰ بی بی کئی امور میں اثر انداز ہوتی رہیں۔ تقرری ہو، تبادلہ ہو، یا حکومت کا بڑا فیصلہ، ہر جگہ "روحانی نظر" کا تڑکا لگتا تھا۔ کہیں کوئی مرید جا کر بتاتا کہ جی فلاں نے کہا ہے، تو فوری بات آگے پہنچتی۔ یوں لگتا تھا کہ ریاستی امور کا آخری فیصلہ سیکریٹری یا وزیراعظم نہیں بلکہ "بیگم صاحبہ" کا ہوتا ہے۔اب بات کریں اس حصے کی جس نے تھرل کو دوگنا کر دیا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ حساس اداروں کے کچھ افراد مبینہ طور پر براہ راست بیگم صاحبہ کو معلومات پہنچاتے رہے۔ یعنی فائلیں یہاں نہیں، وہاں کھل رہی تھیں۔ بانی پی ٹی آئی نے سیاست کم اور تعویذ زیادہ استعمال کیا۔ جیسے کوئی بڑے میچ سے پہلے کھلاڑی بھاگ کر بابا جی کے پاس چلا جائے کہ "یہ بال آج سوئنگ ہو جائے"۔

پھر آتا ہے وہ دلچسپ انکشاف جسے پڑھ کر لگتا ہے کہ کہانی کسی ہندی فلم سے متاثر ہے۔ میگزین کے مطابق بشریٰ بی بی نے شادی سے پہلے فرمایا تھا کہ مجھ سے شادی کریں، وزیراعظم بن جائیں گے۔ یہ وہ نسخہ تھا جو نہ لال کتاب میں ملتا ہے نہ حکیم صاحب کے ہاں۔ بانی صاحب کا جواب ہمیشہ یہی رہا کہ ہمارا تعلق صرف روحانی رہنمائی تک محدود ہے۔ اب دیکھنے والے سوچتے رہے کہ اگر یہ صرف رہنمائی تھی تو پھر شادی کا فیصلہ روحانی مشورہ تھا یا آنے والی کابینہ کی لسٹ؟

رپورٹ میں یہ بھی شامل ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے سابق ساتھیوں نے بڑے کھلے انداز میں بتایا کہ بیگم صاحبہ کالے جادو میں مہارت رکھتی تھیں۔ عمل کیلئے کالے جانور کا سر منگوانے کا ذکر بھی کیا گیا۔ یعنی جہاں دوسرے ملکوں میں وزیراعظم کے جہاز کی ٹیک آف کلیئرنس انجینئر دیتا ہے، یہاں کہا گیا کہ پرواز تب اڑتی جب بیگم صاحبہ ہری جھنڈی دکھاتیں۔ اگر وہ نہ چاہتیں تو جہاز بھی سوچتا کہ چلو میں بھی آج چھٹی کر لیتا ہوں۔مزید بتایا گیا کہ بیگم صاحبہ نے بانی صاحب کو کئی پرانے ساتھیوں اور وفادار ملازمین سے دور کر دیا۔ شاید روحانی ریڈار پر وہ لوگ مشکوک آتے تھے۔ یوں آہستہ آہستہ بانی صاحب کے اردگرد ایسا حلقہ بن گیا جو بس کہتا جی ٹھیک، ٹھیک، سب ٹھیک۔

اور مزہ یہاں شروع ہوتا ہے: اکانومسٹ نے لکھا کہ بیگم صاحبہ سابق وزیراعظم اور اسی وقت کے آرمی چیف کی ملاقاتوں میں بھی شامل رہتی تھیں۔ یہ ویسے وہ مقام ہے جہاں دنیا حیران ہوتی ہے، کیونکہ دنیا بھر میں اہم ملاقاتوں میں سکیورٹی اور پالیسی ٹیم ہوتی ہے۔ لیکن یہاں کہا گیا کہ روحانی مشورہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا تھا۔ ایک کابینہ رکن نے کہا کہ بیگم صاحبہ حکومتی امور میں براہ راست مداخلت کرتی تھیں۔ جیسے گھر میں بجلی کا بل کون دے گا، اس پر اختلاف نہ ہو تو وہ حکومت کیسے چلانی ہے، اس پر مشورہ بھی ضروری ہے۔

پھر وہ حصہ آیا جس نے کہانی کو اور بھی ٹویسٹ دے دیا۔ رپورٹ کے مطابق جب بیگم صاحبہ کی کرپشن سے متعلق کچھ بات سامنے آئی تو بانی صاحب نے ڈی جی آئی ایس آئی کو عہدے سے ہٹا دیا۔ یعنی بھلے فائل کہیں اور پہنچی ہو، کارروائی وہیں ہوئی جہاں سے "جنّاتی اطلاعات" آ رہی تھیں۔ بانی صاحب نے اقتدار میں مذہب کا ایسا لبادہ اوڑھا کہ لوگ سمجھ نہ پائے یہ روحانی دربار ہے یا وزیراعظم ہاو¿س۔

اب آتے ہیں بانی پی ٹی آئی کے نجی خیالات پر۔ جب صحافی ملکی حالات پر سوال کرتے تو وہ سیاست چھوڑ کر کرکٹ پر گفتگو شروع کر دیتے۔ جیسے ملک کی معیشت سے زیادہ اہم یہ تھا کہ آج کل ریورس سوئنگ کیوں کم ہو رہی ہے۔ کبھی وہ اپنے معاشقوں پر بات کرنے لگ جاتے۔ صحافی سر پکڑ کر بیٹھ جاتے کہ یہ وہی شخص ہے جو انتخابات سے پہلے بڑے بڑے دعوے کر رہا تھا۔

اقبال کے شاہین تو نہیں بنے، لیکن دعوے ضرور آسمان پر اڑتے رہے۔ اقتدار ملنے کے بعد وہ دعوے ایک ایک کر کے زمین پر ایسے گرے جیسے ہوائی فائرنگ میں گولی نیچے آ کر خود ہی نقصان کر دے۔ نہ کوئی وعدہ پورا ہوا، نہ وہ تبدیلی آئی جس کا نعرہ لگایا گیا۔کرپشن کے کیسز نے بانی صاحب کی شفافیت کا بھرم بھی توڑ دیا۔ ایسے لگا جیسے کسی نے پلاسٹک کی بالٹی پر پانی ڈال کر دکھایا ہو کہ دیکھیں یہ تو لوہے کی نہیں ہے۔ پارٹی چلانے کا انداز بھی بالکل ایک کلٹ جیسا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک روحانی گروہ ہے جس کا ہر حکم "اپنی جگہ سو فیصد درست" سمجھا جاتا ہے۔

دی اکانومسٹ نے اپنی طویل تحقیق میں یہ تصویر واضح کی کہ سیاست، شادی، روحانیت، مشاورت، تقرریاں، مذہبی اشارے، اور کالے جادو کے الزامات مل کر ایک ایسا امتزاج بناتے ہیں جو کسی ملک میں حکمرانی کا نہیں بلکہ کسی فلم کا اسکرپٹ لگتا ہے۔ لوگوں نے سوچا کہ شاید اصلاحات آئیں گی، شاید اداروں میں بہتری آئے گی، شاید گورننس مضبوط ہوگی مگر آخر میں جو کچھ سامنے آیا وہ صرف یہ تھا کہ اقتدار کے اہم فیصلے کہیں اور نہیں بلکہ "گھر کی چاردیواری" میں ہوتے تھے۔

یوں پوری کہانی ایک ایسے سفر کی طرح نظر آتی ہے جس میں کپتان آگے بیٹھا ہے، اس کے ہاتھ میں اسٹیرنگ ہے، لیکن ٹرن وہ تب لیتا ہے جب پیچھے سے کوئی روحانی رہنمائی آ جائے۔ اس میں مزاح بھی ہے، سنسنی بھی اور کبھی کبھار ایسے لمحات بھی کہ بندہ سوچتا ہے، واقعی ایسا ہوا ہوگا یا میگزین والے بھی تھوڑا مزاح ڈال کر رپورٹنگ کرتے ہیں۔آخر میں باقی دنیا یہی سوچ رہی ہے کہ یہ شادی سیاسی تھی، روحانی تھی، یا قسمت بدلنے کا ایک نسخہ تھا۔ مگر نتیجہ کچھ ایسا نکلا کہ ملک کی سیاست ایک لمبے عرصے تک اس "روحانی ہنگامے" کے اثر سے باہر نہ آ سکی۔

#pti #tabdeeli #change #pakistan #gamesonhay

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 853 Articles with 694203 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More