اضافی فیسوں کا کھیل ختم؟ وزیر کے ایک حکم نے سب بدل دیا


خیبرپختونخوا کی سیاست میں عموماً خبر اس وقت بنتی ہے جب کوئی ساڑھے تین گھنٹے دیر سے آکر دو منٹ کا بیان دے جائے۔ مگر اس بار خبر کچھ اور تھی۔ وزیر بلدیات مینا خان آفریدی ایک دم سے ایکشن موڈ میں چلے گئے۔ ایسا ایکشن کہ شہر کے کئی دفاتر نے پہلی بار سوچا، “یہ ہوا کیا ہے؟ ہم پر روشنی کیوں پڑ رہی ہے؟” ہوا کچھ یوں کہ شہریوں نے شادی، طلاق، پیدائش اور انتقال جیسے بنیادی سرٹیفکیٹس میں فیسوں کی اضافی وصولی کی شکایات کر دیں۔ شکایتیں بھی کوئی خفیہ نہیں تھیں۔ بالکل وہی مشہور جملہ: “سرٹیفکیٹ چاہیے؟ فیس اتنی ہے… لیکن اگر جلدی چاہیے تو… بس سمجھ جائیں۔”

گویا یہاں شادی ہو یا بچے کی پیدائش، فیس کے علاوہ "محبت ٹوکن" بھی دینا پڑتا تھا۔ اور انتقال سرٹیفکیٹ میں تو یوں لگتا تھا جیسے آخری رسوم کے ساتھ آخری فیس بھی ادا ہونی ہے ورنہ مرحوم کی فائل کے لیے بھی رشوت کا فاتحہ لازمی ہے۔ شہری تھک گئے، دفتر والے ہنستے رہے، اور سسٹم چلتا رہا… پھر ایک دن وزیر بلدیات نے مائیک پکڑا، سانس لیا، اور کہا: “اب بس۔ رسید لازمی ہو گی۔” یہ جملہ سن کر کئی دفاتر میں ہلچل مچ گئی۔جیسے کسی نے اعلان کیا ہو کہ آج سے چھٹی پر پابندی ہے۔ یا جیسے کسی نے کہہ دیا ہو کہ چائے بغیر چینی بنے گی۔دفتر کے کچھ سینئر اہلکاروں نے تو فوراً چپکے سے آپس میں میٹنگ کر لی: “اوئے یہ کیا ہوگیا؟ رسید؟ وہ بھی لازمی؟ اب شہریوں کو پتا چل جائے گا کہ اصل فیس کتنی ہے!” دوسرے بولا: “اور اگر شہری کو پتا چل گیا… تو پھر ہمارا ‘سائڈ بزنس’ بند نہیں ہو جائے گا؟”

مینا خان آفریدی نے پوری شان سے اعلان کیا: “صاف، شفاف اور منصفانہ خدمات لوکل گورننس کا مقصد ہیں۔ فیسوں کی ادائیگی اور رسیدوں کے اجرا میں غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔” ان کے یہ الفاظ کئی دفاتر کے لیے ایسے تھے جیسے استانی بچوں کو کہہ دے: “آج ہوم ورک چیک کروں گی۔”بس سب نے جلدی جلدی اپنی اپنی میزیں صاف کرنا شروع کر دیں۔ وزیر صاحب کی ایک اور سخت ہدایت آئی: “تمام سیکرٹریز اپنے دفاتر میں فیس کا شیڈول نمایاں مقام پر آویزاں کریں۔”

اب یہ ایک ایسا حکم تھا جس نے کئی دفاتر کو پریشان کر دیا۔ کیونکہ وہ شیڈول تو تھا… مگر فائل کے اندر… اور فائل ایک ایسی جگہ رکھی تھی جہاں سے صرف چمگادڑ ہی کچھ نکال سکتی تھی۔ جب اعلان آیا کہ فیس شیڈول دیوار پر لگے گا، تو ایک صاحب بولے: “سر، دیوار تو صاف کروانی پڑے گی۔ پچھلے تین سال کی گرد لگی ہے۔” پاس کھڑے دوسرے اہلکار نے کہا: “بھائی، گرد کی فکر چھوڑو، جب شیڈول لگے گا نا… تب شہری سوال پوچھیں گے۔ اصل مسئلہ تو وہ ہے!” پھر وہ ہدایت آئی جس نے سب کو سچ میں ہلا دیا: “ہر درخواست گزار کو رسید یا ٹوکن دینا لازمی ہے۔ اور ایک نقل دفتر میں بھی محفوظ کی جائے۔”

یہاں آکر صورتحال بڑی سنجیدہ ہو گئی۔ کیونکہ رسید کے بغیر کام کرنا تو ایک روایت بن چکی تھی۔ جیسے شادی میں بریانی نہ ہو تو لوگ کہتے ہیں: “یہ تو روایت کے خلاف ہے!” ایسے ہی یہاں رسید دینا روایت کے خلاف تھا۔ دفاتر میں فوری طور پر رپورٹنگ شروع ہوئی۔ کسی نے کہا: “سر، رسید والا رجسٹر تو موجود ہی نہیں۔” دوسرے نے کہا: “رجسٹر تھا، پر کاغذ ختم ہو گئے تھے۔” تیسرے نے آہ بھرتے ہوئے کہا: “کاغذ آئے تھے، کسی نے ڈائری بنا لی تھی۔” دفتر کے کمرے میں ایسی ہلچل تھی جیسے وزیر نے حکم نہیں دیا بلکہ اچانک بجلی آگئی ہو اور سب اے سی چلانے کے لیے بھاگ رہے ہوں۔

دوسری طرف شہری بھی حیران تھے۔ ایک خاتون نے کہا: “یہ واقعی سچ ہے؟ رسید ملے گی؟” ایک بزرگ بولے: “بیٹی، اگلے مرحلے میں شاید سرٹیفکیٹ بھی وقت پر مل جائے۔” سب ہنس پڑے۔ پاکستان میں امید ایک عجیب چیز ہے۔ لوگ کہتے ہیں نا: “کچھ بھی ہو سکتا ہے۔” تو شہریوں نے کہا: “اگر رسید مل جائے… تو شاید باقی خدمت بھی ٹھیک ہو سکتی ہے۔” اسی دوران محکمے نے باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا۔ اعلامیہ نہایت سنجیدہ، نہایت سخت، اور لکھنے والے نے زبان ایسی استعمال کی جیسے وہ کوئی سپیشل فورس کی کارروائی کا حکم دے رہا ہے۔

اعلامیہ میں صاف کہا گیا: “رسید ضروری ہے۔ فیس تحریر ہو۔ نقل دفتر میں رکھی جائے۔ خلاف ورزی ہوئی تو کارروائی ہو گی۔” یہ پڑھ کر کچھ اہلکاروں نے سر کھجایا: “کارروائی؟ ہمارے خلاف؟ یہ کب سے ہونے لگا؟” دوسرے نے کہا: “یار، اگر کارروائی شروع ہو گئی… تو پھر وہ زمانہ ختم ہو جائے گا جب شہری پوچھتے تھے ‘کتنی فیس ہے؟’ اور ہم کہتے تھے ‘آپ کی مرضی’۔” ایک نوجوان اہلکار نے مزاح میں کہا: “اب لگتا ہے ہمیں بھی عوام کی طرح سیدھا کام کرنا پڑے گا۔” کمرے میں قہقہہ گونج اٹھا، لیکن وہ ایسا قہقہہ تھا جس میں پریشانی ملی ہوئی تھی۔

وزیر صاحب اس سارے عمل پر مطمئن نظر آئے۔ انہوں نے کہا: “شفافیت اور انصاف لوکل گورننس کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں اور ان پر سمجھوتہ نہیں ہو گا۔” یہ جملہ سیدھا دل پر لگا کیونکہ عوام کو ہمیشہ یہی کمی محسوس ہوئی تھی۔ شفافیت بیچاری کبھی فائلوں کے پیچھے چھپ جاتی تھی، کبھی اہلکاروں کے “مورچہ بندی والے رویے” کے پیچھے، اور کبھی "آج نہیں کل آنا" والی پالیسی کے نیچے دبی رہتی تھی۔ اب جب وزیر نے کہا کہ شفافیت آئے گی، رسید آئے گی، شیڈول لگے گا… تو عوام نے سوچا شاید اس بار کچھ بدل جائے۔ لیکن اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے۔ کیا وہ دفاتر جہاں ہر کام کے لیے “تھوڑا سا اوپر نیچے کرنا پڑتا تھا” اب صحیح فیس پر کام کریں گے؟ کیا وہ اہلکار جو رسید کا نام سنتے ہی پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں، اب باقاعدگی سے رسید دیں گے؟ کیا وہ شہری جو اب تک سمجھتے تھے کہ “فیس وہی ہے جو اہلکار بتائے”، ان کو اب معلوم ہو جائے گا کہ اصل فیس کتنی ہے؟

یہ سوالات ابھی کے لیے کھلے ہیں۔لیکن ایک بات طے ہے: اگر اس بار واقعی سختی ہوئی، اگر فیس شیڈول ہر دیوار پر لگا، اگر رسید ہر شہری کے ہاتھ میں آئی… تو یہ ایک چھوٹا نہیں، بہت بڑا انقلاب ہو گا۔ ہمارے صوبے میں زیادہ تبدیلیاں نعرے کی صورت میں آتی ہیں، لیکن اگر “رسید لازمی” والا کام سچ میں لاگو ہو گیا تو اس بار تبدیلی پوری طرح عملی شکل میں سامنے آ سکتی ہے۔ آخر میں ایک شہری کا تبصرہ سب کے دل کی آواز تھا: “اگر واقعی رسید ملنے لگی تو شاید حکومت نے ایک بار تو صحیح معنوں میں عوام کی جیب کی حفاظت کر لی۔” ایک اور نے ہنستے ہوئے کہا: “اب دیکھتے ہیں شہر کے دفاتر میں کس کی تیراکی تیز ہے… رسید دینے والوں کی یا پرانی عادتوں کی!”

#LocalGovernance #PublicService #TransparencyMatters #GoodGovernance #PublicRights #CitizenServices #Accountability #KPUpdates #ReformsInProgress #PublicAwareness
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 849 Articles with 693353 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More