اپنوں کی موت بھی دیکھی اور گھر بھی نہ رہا ۔۔ دنیا بھر سے کچھ ایسے لوگوں کی رلا دینے والی کہانیاں جنہوں نے ملک کی لڑائی میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا

image

شام میں خانہ جنگی کو دس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی انسانی امور کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ مطابق، شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران 10 سالوں میں 5 لاکھ سے زائد افراد جابحق ہوچکے ہیں۔ جن میں بچوں کی تعداد 55 ہزار سے زائد ہے۔

تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ 1 لاکھ سے زائد افراد ابھی بھی جیلوں میں قید ہیں۔ جبکہ ان 10 سالوں میں 30 لاکھ سے زائد افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ 70 لاکھ سے زائد افراد شام سے ہجرت کرکے مختلف ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

سہام خاتون:

شام سے تعلق رکھنے والی سہام خاتون بھی ان افراد میں شامل ہیں، جنہیں شام میں خانہ جنگی کے باعث اپنے ملک کو چھوڑنا پڑا تھا۔ سہام اردن کے دارالحکومت عمان کہ ایک پناہ گزینوں کے کیمپ میں پانچ بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ دراصل یہ پانچ بچے ان کے اپنے نہیں ہیں بلکہ ان کہ مرحوم بھائی کے بچے ہیں۔ جو کہ شامی فوج کے ٹینک کا راکٹ لگنے سے شہید ہوگئے تھے۔ اس واقعہ میں شہید ہونے والوں میں سہام کے بھائی، بھابھی اور ایک دو سالہ بچہ شامل تھا۔

سہام نے بتایا 2012 کے آخر میں ان کا بھائی، ان کی اہلیہ اور 6 بچوں سمیت وہ ایک گاؤں کی طرف جارہے تھے۔ میرے بھائی، بھابھی اور ان کا دو سالہ بچہ گاڑی میں سب سے آگے بیٹھے ہوئے تھے۔ باقی 5 بچے گاڑی میں پیچھے کی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ تب اچانک گاڑی پر ٹینک کا راکٹ لگنے سے وہ تینوں شہید ہوگئے۔ جبکہ 5 بچے گاڑی میں پیچھے ہونے کی وجہ سے ذندہ بچ گئے تھے۔ ذندہ بچ جانے والے بچوں میں 12 سالہ فلک، 10 سالہ محمد، 8 سالہ حمودہ، 6 سالہ اسما اور سدرہ شامل ہیں۔

سہام خاتون نے بتایا کہ ان کی کوئی اولاد نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں میں دُکھی ہو جاتی تھی، میں خدا سے شکوہ کرتی تھی۔ لیکن تب میرا بھائی مجھے اچھا محسوس کروانے کیلئے اپنے بچوں کی طرف اشارہ کرکے کہتا تھا کہ یہ بچے بھی تمہارے ہیں، کیوں شکوہ کرتی ہو۔

سہام کہتی ہیں اس حادثے کے بعد سے یہ پانچوں بچے اب میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ ان کی جان بچانے کیلئے میں نے شام سے ہجرت کی تاکہ ان کے ساتھ وہ کچھ نہ ہو جو ان کے ماں باپ کے ساتھ ہوا تھا۔

خانہ جنگی کا شکار ممالک میں افغانستان بھی شامل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی بیشتر آبادی خط غربت سے نیچے رہتی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں 13 کروڑ سے زائد افراد کھانے کی کمی کا شکار ہیں۔

شازیہ خاتون:

اسی طرح افغانستان سے تعلق رکھنے والی شازیہ خاتون جو کہ اپنے تین بچوں کے ساتھ کابل میں، بے گھر لوگوں کیلئے بنائی گئی ایک بستی میں رہتی ہیں۔ شازیہ نے بتایا کہ کابل کے ایک ضلع وزیر اکبر خان میں ان کے شوہر کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا شوہر رہڑی پر سامان بیچتا تھا تاکہ ہمارا گھر کا خرچہ چل سکے۔ لیکن میرے شوہر کے جانے کے بعد ہمارے ساتھ کوئی موجود نہیں ہے، اس لیے ہمارا یہ حال ہے۔ اللّٰہ کو معلوم ہے کہ ہم پورے دن بھوکے رہتے ہیں ہمارے پاس کبھی کبھی صرف رات کے کھانے کیلئے ہی ہوتا ہے۔

ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 5 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان اپنے ملک کو خیرآباد کہہ کر بنگلہ دیش، انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک کے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رہائش پذیر ہونے پر مجبور ہیں۔

شانجیدہ بیگم:

بنگلہ دیش کے علاقے کوس بازار کے پناہ گزینوں کے کیمپ میں شانجیدہ بیگم نے اپنی دل دہلا دینے والی کہانی سنائی۔ شانجیدہ بیگم نے بتایا کہ وہ ایک دن اپنے والدین کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھی۔ تب اچانک میانمار کی فوج کے کچھ آفسر ہمارے گھر میں زبردست گُھس آئے، انہوں نے پہلے تو میرے والد کو مارا پھر مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ شانجیدہ کہتی ہیں کہ میرے لیے اس واقعہ کو بھولنا ناممکن ہے۔


About the Author:

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts